حیاتیاتی ٹیکنالوجی (Biotechnology) سائنس کا ایک دلچسپ اور حیرت انگیز شعبہ ہے جو خاص طور پر 1950 ءکی دہائی میں ڈی این اے کی ساخت کے بے نقاب ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ اس کااطلاق متعدد شعبوں پر محیط ہے، لیکن زراعت اور صحت پر اس کے اثرات خاصے گہرے ہیں۔
جب میں 2000-2002 کے دوران وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو پاکستان میں اس شعبے کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا تھا۔ قومی کمیشن برائے بائیو ٹیکنالوجی قائم کیا گیا اور اس کی سربراہی کے لیے ایک نامور بائیو ٹیکنالوجسٹ ڈاکٹر انور نسیم کو مقرر کیا گیا ۔ کمیشن کے زیر اہتمام بڑی تعداد میں منصوبوں کو مالی اعانت فراہم کی گئی، جس کے نتیجے میں پاکستان سے بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں متعلقہ شعبوں میں سائنسی اشاعتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ جوہری توانائی کمیشن کے زیراہتمام کام کرنے والے قومی ادارہ برائے حیاتیاتی ٹیکنالوجی و جینیاتی انجینئرنگ اور نیوکلیائی ادارہ برائے زراعت و حیاتیات فیصل آباد جیسے مراکز نے بائیو ٹیکنالوجی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے کپاس، گندم اور دیگر فصلوں کی بہتر اقسام کو تیار کرکے اہم کردار ادا کیا۔
آئیے اس انتہائی اہم شعبے کے کچھ پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ڈی این اے، یا ڈی آکسی رایبونیوکلک ایسڈ، وہ سالمہ ہے جو زندگی کیلئے جینیاتی ہدایات دیتا ہے۔ اسے چار قسم کی تعمیری اکائیوں سالموں سے بنی ایک لمبی، مڑی ہوئی سیڑھی کے طور پر تصور کریں جسے حروف کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ’’حروف‘‘ ’’الفاظ‘‘ اور ’’جملے‘‘ بناتے ہیں جو ہمارے خلیوں کو بتاتے ہیں کہ کس طرح کام کرنا، بڑھنا اور دوبارہ پیدا کرنا ہے۔ انسانی ڈی این اے میں تقریبا 3ارب ’’حروف‘‘ ہیں۔ ڈی این اے ہمارے جسم کو درکار تمام لحمیات اور ڈھانچے بنانے کا خاکہ فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمارے جسم کے تقریبا ہر خلیے میں پایا جاتا ہے اور والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے، جو ہمارے بالوں کے رنگ سے لے کر بعض بیماریوں کے خطرے تک ہر چیز کا تعین کرتا ہے۔ بنیادی طور پر، ڈی این اے وہ حیاتیاتی ضابطہ ہے جو ہر جاندار چیز کو منفرد بناتا ہے اور زندگی کو جاری رکھتا ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ زرعی بائیوٹیکنالوجی کا ایک سنگ بنیاد ہے، جس میں مطلوبہ خصلتوں کو حاصل کرنے کیلئے کسی جاندار کے ڈی این اے میں رد و بدل شامل ہے۔ اس تکنیک کی وجہ سے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں تیار ہوئی ہیں، جو بے شمار فوائد کی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر، بی ٹی مکئی اور کپاس میں اس طرح ترمیم کی گئی تاکہ وہ ان پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کے خلاف زہریلے جراثیم خارج کریں نتیجتاً، فصل کے نقصان میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ایک اور مثال کیڑوں اور بیماری سے مزاحم جی ایم فصلوں کی ہے، جیسے وائرس سے مزاحم پپیتا، جس نے ہوائی میں پپیتے کی پیداوار کو نمایاں طور پر بحال کیا ہے۔ اسی طرح جڑی بوٹی مار- مزاحم راؤنڈ اپ سویابین کی فصلیں جو مخصوص جڑی بوٹیوں کو روکنے کیلئے تیا ر کی گئی ہیں، اس سے کسانوں کو فصلوں کو نقصان پہنچائے بغیر گھاس پھوس پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ مزید برآں، بائیو ٹیکنالوجی فصلوں کی غذائی افادیت کو بڑھانے کے قابل بھی بناتی ہے۔ مثال کے طورپر سنہرے چاول کو، بیٹا کیروٹین بنانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے، جو حیاتین اے کا پیش خیمہ ہے۔ سالمیاتی نشانی والے ڈی این اے کے وہ حصے ہیں جو مخصوص خصلتوں سے وابستہ ہوتے ہیں اور انہیں مطلوبہ خصوصیات کے ساتھ پودوں کی نئی اقسام کی نشو ونما کو تیز کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بیج کے مرحلے پر مطلوبہ خصلتوں والے پودوں کے انتخاب کو آسان کر کے افزائش نسل کی کارکردگی کو نمایاں طور پر بہتر بناتی ہے، ساتھ ہی افزائش نسل کیلئے درکار وقت کو کم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر نشانی والے سالمے (Molecular Marker ) کا استعمال کرتے ہوئے خشک سالی کو برداشت کرنے اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت میں اضافے کی خصوصیات کے حامل چاول کی اقسام تیار کی گئی ہیں۔
صحت میں بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رخ کرتے ہوئے ، جینیاتی انجینئرنگ کے شعبے کو جینیاتی عوارض کو درست کرنے اور جدید علاج معالجے کی ترقی کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ جینیاتی طریقہ علاج میں بیماری کی روک تھام کیلئے مریض کے خلیوں کے اندر جینیاتی مواد کا تعارف کرانا، ہٹانا یا تبدیل کرنا شامل ہے۔
مثال کے طور پر، جینیاتی طریقہ علاج کا استعمال کرتے ہوئے اسپائنل مسکولر ایٹروفی (Spinal Muscular Atrophy) کا علاج کیا گیا ہے۔ ایک اور امید افزا اطلاقیات میں سی آر آئی ایس پی آر-سی اے ایس جیسی جین تبدیلی ٹیکنالوجیوں کا استعمال ہے، جو ڈی این اےکی ترتیب میں درست تبدیلیاں کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بالآخر جینیاتی عوارض جیسے سسٹک فائبروسس (cystic fibrosis) یا سکل سیل انیمیا کے علاج کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، سی آر آئی ایس پی آرکا استعمال سرطان کے جدید علاج کیلئے کیا گیا ہے، جہاں مدافعتی خلیوں کو سرطان کے خلیوں کو بہتر طور پر پہچاننے اور ان پر حملہ کرنےکیلئے جینیاتی طور پر تبدیل کیا جاتا ہے۔
بائیوٹیکنالوجی نے ویکسین کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے محفوظ اور زیادہ موثر ویکسین بنانا ممکن ہو گیا ہے۔ ایک اہم پیش رفت ایم آر این اے ویکسین کی تیاری ہے، جو خلیوں کو وائرل اینٹی جن (Viral antigen) تیار کرنے کی ہدایت دینے کیلئے مصنوعی ایم آر این اے کا استعمال کرتی ہے۔ کووڈ- 19 وبائی مرض نے ایم آر این اے ویکسینوں کی صلاحیت کو اجاگر کیا، جیسے کہ فائزر- بائیو ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ ویکسین، جنہیں تیزی سے تیار اور بڑھایا گیا تھا۔ بائیوٹیکنالوجی کی ایک اور شاخ، اسٹیم سیل سے علاج ہے، اس کا مقصد خراب بافتوں اور اعضاء میں کام کرنے کی صلاحیت کو بحال کرنا ہے۔ یہ ایک بہت ہی امید افزا طریقہ ہے، کیونکہ ا سٹیم خلیوں میں مختلف خلیوں کی اقسام میں فرق کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں تک کا علاج اس سے ممکن ہے، جہاں اسٹیم سیل ممکنہ طور پر تباہ شدہ نیوران کو دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں اورامراض قلب میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، وہاں اسٹیم سیل خراب شدہ دل کی بافتوں کی مرمت میں مدد کر سکتے ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی،بائیو انجینئرڈ اعضاء کی پیوند کاری اور بافتوں کی نشو ونما کو ممکن بناتی ہے اور ممکنہ طور پر عطیہ دہندہ کے اعضاء کی کمی کو دور کرتی ہے۔
اگرچہ زراعت اور صحت میں بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں، لیکن وہ اخلاقی اور سماجی خدشات کو بھی جنم دیتے ہیں۔ جی ایم فصلوں کے تحفظ اور ماحولیاتی اثرات متنازع ہیں، جن میں الرجی کی صلاحیت، سگے رشتہ داروں میں جین کا بہاؤ، اور مزاحم کیڑوں اور گھاس پھوس کی نشو ونما شامل ہیں۔ انسانوں میں سی آر آئی ایس پی آر اور جین میں ترمیم کرنے والی دیگر ٹیکنالوجیوں کا استعمال جینیاتی تبدیلیوں، ممکنہ غیر ارادی نتائج اور ’’ڈیزائنر بچوں‘‘ کے امکان کے بارے میں اخلاقی سوالات اٹھاتا ہے۔