پچھلے کچھ عرصے سے اپنے حلقۂ احباب کے چند دوستوں کی زبانی اٹک خورد (یاد رہے، یہ پرانی املا ہے، درست لفظ ’’خُرد‘‘ ہے۔ پہلے پرانے تمام شہروں کے نام اِسی طرح لکھے جاتے تھے، بڑے کو کلاں، چھوٹے کو خورد لکھا جاتا) ریلوے اسٹیشن کی قدامت و خُوب صُورتی اور تاریخی اہمیت کے بہت قصّے سُن رہے تھے، جو ہمارے شوقِ سیاحت کو خاصی مہمیز بھی دیئے جارہے تھے کہ یہ واقعتاً دنیا کے چند حسین ترین ریلوے اسٹیشنزمیں سے ایک ہے۔
اِس کی تعمیر 1884ء میں عمل میں آئی اوریہ سطحِ سمندر سے 1003 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ریلوے اسٹیشن اٹک شہر سے کوئی دس پندرہ کلومیٹر کی دُوری پر ہےاورسُنا ہے کہ اٹک خُورد، اٹک شہر (ماضی کے کیمبل پور) سے زیادہ قدیم ہے۔ واضح رہے، اٹک کے معنی رکاوٹ کے ہیں اور خُرد(خورد)کے معنی چھوٹا کے۔
تو بہرحال جناب! ہم نے اپنی کچھ سہیلیوں کو بھی مائل و قائل کیا اور یوں ہم پندرہ اپریل، بروز پیر، اس خواب سفر کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیےلاہور سے بذریعہ موٹر وے روانہ ہوئے۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ چہار سُو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہمارے قافلے میں کُل بارہ خواتین اور ہمارے چھوٹے صاحب زادے، بالاج محمّد خان شامل تھے۔ خواتین میں زیادہ ترلاہورکی لکھاری خواتین ہی شامل تھیں، جن میں عطرت بتول، شاہین اشرف، شاہین زیدی، فرح خان اورصائمہ صبیح کے نام نمایاں ہیں۔
ہمیں موٹروے پہ سفر کا آغاز کیے ابھی کچھ ہی دیرگزری تھی کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی، جو بعد میں موسلادھار بارش کی شکل اختیار کر گئی اورموسم کی اِس دل کشی و دل آویزی نے ہمارے سفر کو بھی حسین تر بنا دیا۔ یوں بھی موٹروے کے دونوں اطراف موجود سرسبز کھیت، قطاردرقطار کھڑے درخت بہت بھلے لگ رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھی کچھ خوش گلوخواتین گنگنانے لگیں تو باقی سب بھی ہم نوا ہوگئیں اور یونہی ہنستے گاتے سفر کٹنے لگا۔ کلرکہار کے پہاڑ شروع ہوئےتو ارد گرد کے ماحول نے کچھ اور بھی سحر طاری کردیا۔ راستے میں ایک جگہ رُک کرتھوڑا آرام بھی کیا۔
کچھ دوستوں نے چائے وغیرہ پی اور ہم ایک بار پھرعازمِ سفر ہوئے۔ بارش بھی کسی دیرینہ سَکھی ہی کی طرح ہمارے سنگ سنگ تھی۔ بار بار گاڑی کی کھڑکیوں پر بھی دستک دیتی رہی۔ یہ سفر لگ بھگ ساڑھے پانچ گھنٹے پر محیط تھا کہ ہم لوگ دو بجے کے قریب اٹک شہر کے مضافات میں پہنچ گئے۔ اگرچہ مسلسل پانچ گھنٹے کی مسافت نے کچھ تھکا دیا تھا، مگر منزل کو قریب دیکھ کر سب ہی کا جوش و خروش دیدنی تھا۔
افسوس کہ اٹک خورد جانےوالےپورے رستے میں کوئی سنگِ میل، کوئی نشان موجود نہیں، جو راہیوں، مسافروں کی صحیح طور رہنمائی کر سکے۔ مسلسل موسلادھار بارش کے باعث انٹرنیٹ بھی خاصا سِلو تھا، تو لوکیشن کا آپشن استعمال کرنے میں بھی دقّت پیش آ رہی تھی۔ ایسے مَیں، نصرت بخاری کا نام ذہن میں آیا، جو کہ اٹک شہر ہی کے رہنے والے ہیں اور ’’ذوق‘‘ کے نام سےایک ادبی رسالہ نکالتے ہیں۔
ہم نے فوراً اُنہیں کال ملائی اور اُن سےرہنمائی کی درخواست کی، تو انہوں نے بھی فوراً ہی ڈرائیورکو بہت اچھے طریقےسے آگے کا رستہ سمجھادیا اور یوں ہم بآسانی منزلِ مقصود تک جاپہنچے۔ لیکن بہرحال آپس میں، اِس ضمن میں تشویش اور دُکھ کا اظہار ضرور کیا کہ ایک اِس قدر خُوب صُورت مقام سے متعلق، جو کہ اٹک شہرکے قریب ہی واقع ہے، وہاں کے مقامی لوگ بھی کچھ خاص نہیں جانتے۔
اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچنے سے ذرا قبل ہمیں رستے میں اٹک مقبرہ دکھائی دیا۔ گرچہ مقبرے کی حالت خاصی دگرگوں تھی، جب کہ اس کے سامنے ہی موجود چھوٹے سے پارک اور احاطے میں بےتحاشا کوڑا کرکٹ بھی بکھرا ہوا تھا۔ اے کاش! بحیثیت قوم، ہم ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ پر تھوڑا بہت ہی ایمان رکھتے ہوتے۔ نیز، اِس مقبرے سے متعلق کوئی مستند معلومات بھی میسّر نہیں کہ یہاں کون دفن ہے، البتہ روایات کے مطابق یہ مغلیہ دَور کی کسی رقاصہ کا مدفن ہے، جو ایک قافلے کے ساتھ آئی تھی اور دورانِ سفروفات پا گئی تھی۔
لیکن خیر، ہم سب چوں کہ راہِ شوق کے مسافر تھے، تو اُس برستی بارش میں بھی اُترکرمقبرۂ اٹک کے سامنے اور احاطے میں تصاویر بنوائیں۔ اردگرد کے مناظر پر نظر دوڑائی، تو یہ ایک قصبہ نما علاقہ تھا۔ سڑک کے اطراف میں چھوٹے موٹے ڈھابے، دکانیں اور ٹھیلے بھی نظر آ رہے تھے۔ پھر مقبرۂ اٹک کے قریب سولہویں یا سترھویں صدی کی تاریخی عمارت بہرام کی بارہ دری کےآثار بھی موجود ہیں، مگر اُس کی ویرانی و خستگی اور راہ میں حائل گندے نالے کو دیکھ کر وہاں جانے کی ہمّت نہ ہوئی۔
کچھ دیر وہیں گھومنے پِھرنے کے بعد ہم سب پھر گاڑی میں جابیٹھے۔ حقیقتاً اب ہمارا قافلہ اٹک خورد ریلوے اسٹیشن کی جانب رواں دواں تھا، جو بالکل قریب ہی واقع ہے۔ ہماری گاڑی پارکنگ میں رُکی، تو دیکھا کہ یہ پارکنگ تو دریائے سندھ کےکنارے کنارے واقع ہے۔ گاڑی سے اُتر کر دریا کی سمت نظر دوڑائی، توبے اختیار ہی اللہ کی قدرت و صنّاعی پر بے تحاشا پیارآگیا۔ دریائے سندھ پورے طمطراق سے وادی میں رواں دواں تھا اور اس کے اردگرد کا علاقہ بھی انتہائی سرسبز و شاداب دکھائی دیا۔
پھر موسم کی دل رُبائی نے بھی پورے منظرنامے کےحُسن کوگویاہزارچاند لگا رکھےتھے۔ پہاڑوں پر ٹھہرے سفید بادل ایک دھند کی سی شکل اختیار کر چُکے تھے۔ گویا سارا ماحول ہی ایک خواب ناک سی کیفیت کے زیرِاثر تھا۔ آسمان پر نگاہ کی، تو بارش تھم چُکی تھی، لیکن اطراف کے منظر سے نگاہیں ہٹانا مشکل ہورہا تھا۔ سامنے دریا کے بیچوں بیچ لوہے کا پُل تھا اور اُس کے پار وہ قدیم، خُوب صورت ریلوے اسٹیشن، جس کی تلاش میں ہم کشاں کشاں یہاں تک آن پہنچے تھے۔ یہ پُل دراصل اٹک خورد اور خیرآباد کنڈ کےدرمیان دریائےسندھ پرواقع ہے۔ اِسے چوبیس مئی 1883 ء کو ٹریفک کے لیے کھولا گیا تھا۔
پُل پر بنا رستہ ناہم وار اور کسی حد تک ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہے کہ چلنے میں دقّت پیش آتی ہے، پھر رستہ طویل بھی ہے۔ بہرکیف، سفر کی تھکن کے باوجود ہم اُس پُل پر دھیرے دھیرے آگے بڑھتے چلے گئے۔ پُل کے اطراف میں بہتا دریا اور دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتا ہمارا چھوٹا سا قافلہ، واللہ کیا حسین و دل کش نظارہ تھا۔ اک مدھر سی آواز کانوں میں گونجتی تھی کہ ’’ذرا ٹھہرو…کچھ دیر ہم سے بھی باتیں کرو…ہم کہ فطرت کا حسیں مظہر ہیں…ہم کہ صدیوں سے یہاں موجود ہیں…قدیم داستانیں ہمارے سینے پہ بکھری ہیں اور…کئی سربستہ راز اس میں دفن ہیں۔‘‘
دِل اک عجیب سی کیفیت کا شکار تھا۔ بار بار ایک ہی خواہش جاگتی تھی کہ بس پہروں یہیں قیام کیا جائے اورفطرت کی سرگوشیوں کو بغور سُنا جائے۔ مگر قدم وقت کی زنجیر میں قید آگے ہی آگے بڑھنے پر مصر تھے۔ پُل ختم ہوا تو قدم خودبخود ایک کچّے راستے پر جا پڑے، جو خود رَو پودوں اور سبزے سےاَٹا پڑا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد کچھ پختہ سی سیڑھیاں نظر آئیں، جو ریلوے اسٹیشن تک چلی جاتی تھیں۔
سیڑھیاں طےکیں،توبس منزل رُوبرو تھی۔ اِس قدیم و حسین ترین ریلوے اسٹیشن کو دیکھ کرنہ جانےکیا کیا سوچیں، خیالات ذہن میں کوندنے لگےکہ کیا وقت ہوگا، جب اِس پُرشکوہ اسٹیشن کو تعمیر کیا گیا ہوگا۔ وقت و زمانے کے کتنے اتارچڑھاؤ اِس نےدیکھے ہوں گے۔ کیسے کیسےلوگ یہاں بیٹھ کر آنے والوں کی راہ دیکھتے ہوں گے اور جانے کس کس نے منزلوں کے شوق میں یہاں سے رختِ سفر باندھا ہو گا۔ چشمِ تصوّر سے ہم نے اٹھارویں صدی کے مسافروں کو یہاں آتے جاتے، بھاگتے دوڑتے، ریل گاڑیوں پر چڑھتے اُترتے دیکھا۔
حال میں واپس آئے، تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ صفائی ستھرائی کا عُمدہ انتظام تھا۔ صاف ستھری سبز رنگ بینچز، تھکے ہارے مسافروں کو بڑے آرام و سُکون سے بیٹھ کر اردگرد کے نظارے دیکھنےکی دعوت دے رہی تھیں۔ پھر جگہ جگہ موجود پھول، پودوں کی بہار نے بھی سارے ماحول کو معطر سا کر رکھا تھا۔ قدیم انتظار گاہیں، جنہیں دیکھنےکا ہمیں ازحد اشتیاق تھا،مقفّل تھیں، اور وہاں موجود عملے نے بھی اُنہیں کھول کر دکھانے سے معذرت کی، البتہ ہماری درخواست پروہیں موجود چھوٹا سا میوزیم فوراً کھول دیا گیا، جس میں ٹرینوں سے متعلق آلات، ماڈلز، پرانی تصاویر، کچھ ظروف اور آرام کرسیاں رکھی تھیں۔
میوزیم میں موجود گائیڈ نے سب نوادرات سے متعلق مختصر بریفننگ بھی دی۔ ہم نےعملے کی ہدایت کے مطابق وہاں صرف آدھا گھنٹہ گزارا۔ محسوس یہی ہوا کہ ابھی کچھ تشنگی باقی ہے۔ خیر، باہر آ کرپٹری کےساتھ ساتھ کچھ دورتک پیدل چلتے رہے اور انگریزوں کے ذوق کو داد دی کہ ریلوے اسٹیشن کے لیے کیا ہی خُوب صُورت جگہ کا انتخاب کیا۔ اتنے میں شور اٹھا کہ کچھ ہی دیر میں کراچی سےآنے والی ٹرین یہاں سے گزرے گی، تو یہ سُن کر تو جیسے دل میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑگئی۔
اُف! کتنی مدت بعد یہ منظر دیکھنے کو مل رہا تھا کہ ٹرینوں کے پے درپے حادثات نے ایک زمانے سے اِن کے سفر ہی سے دُور کردیا ہے۔ سرسبز پہاڑیوں کی اوٹ سے جب چھک چھک کرتی ٹرین نمودار ہوئی، تو مت پوچھیں، بچپن کی کیسی کیسی سہانی یادیں بھی ہم راہ چلی آئیں۔ سب ہی نے تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے موبائل فونز نکال لیے تھے اوراِن خُوب صورت لمحات کو کھٹا کھٹ قید کیےجارہےتھے۔ ریل کی کھڑکیوں کے پاس بیٹھے مسافرارد گرد کے حسین نظارے دیکھنے میں منہمک نظر آئے، تو کچھ نے مُسکرا کر ہاتھ بھی ہلا دئیے۔
ٹرین گزر جانے کے بعد اسٹیشن پر ایک بار پھر مکمل سکوت چھاگیا تھا۔ دراصل ٹرین یہاں سے گزرتی تو ہے، مگر اسٹیشن پر رُکتی نہیں۔ سُنا ہے، یہاں کے لیے پشاور سے ایک سفاری ٹرین بھی کچھ عرصے کے لیے چلائی گئی تھی، جو خاص طور پر سیاحوں کے لیے مخصوص تھی، مگر آج کل وہ بھی بوجوہ بند ہے۔ اُس دن اسٹیشن پر سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ کچھ برقع پوش خواتین اور مقامی لڑکوں کی چند ٹولیاں اِدھر اُدھر ضرور نظر آئیں۔
دیکھ کر دُکھ بھی ہوا کہ اس قدرشان دار سیاحتی مقام بیش تر لوگوں کی نظروں سے کیسےیک سر اوجھل ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے برآمدے میں ’’بابائے ریلوے‘‘ جارج اسٹیفن سن کی تصویر آویزاں تھی، تو ہم نے اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے، اُن کے ساتھ بھی تصویر بنوائی۔ اب سب ہی کو بھوک، پیاس ستانے لگی تھی، مگر وہاں کوئی ہوٹل یا ڈھابا موجود نہیں تھا، حالاں کہ چائے کی پیالی نوشِ جاں کرنے کے لیے موسم بہت آئیڈیل تھا۔
ریلوےاسٹیشن کے برآمدے میں ایک صاحب فرش ہی پر چپس، نمکو وغیرہ کے پیکٹس رکھے بیچتے دکھائی دئیے، تواُن سے کچھ اسنیکس خرید کربھوک کو بہلایا۔ اور برآمدے میں پڑی بنچز پر بیٹھ کر گپ شپ کے ساتھ کچھ دیر سستائے بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دُور سے آنے والوں کے لیے انتظارگاہیں بھی کھول دی جائیں اور کوئی اچھا سا کیفے، ٹک شاپس بنادی جائیں۔ صاف ستھرے واش رومز ہوں اور پُل کے ٹریک کی بھی تعمیرِنو ہوجائے، تو اِس ریلوے اسٹیشن کو ایک بہترین سیاحتی مقام بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اربابِ اختیار تھوڑی سی توجّہ دے دیں تو بخدا پاکستان کو اللّٰہ نے بےمثال لینڈ اسکیپ سے نواز رکھا ہے۔ یہاں سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل، صحرا، ٹھنڈے، گرم موسم اورقدم قدم بکھری شان دار تاریخ… کون سی نعمت ہے، جو موجود نہیں۔
اِس ایک ریلوے اسٹیشن ہی کے اردگرد کا علاقہ ایساہےکہ جہاں بہت سکون سے گھنٹوں گزارے جاسکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے لیے تو یہ کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے ہرگز کم نہیں۔ چُھٹی کے دن آئیں، پکنک منائیں۔ فطرت کے حُسن سے لطف اندوز ہوں اور اگلے ایک ہفتے کے لیے ری فریش ہوجائیں۔ ہم نے گردو نواح میں خُوب گھوم پھر کے دیکھا، خصوصاً ریل کی پٹریوں کے سنگ سنگ چلنے کا اپنا ہی ایک لُطف ہے۔ تصوّر ہی تصوّر میں کئی کلاسیک فلموں کے سین دَر آئے۔ افسوس، ہمارے تو فلم، ڈراما ڈائریکٹرز بھی اس جانب توجّہ نہیں کرتے۔ وہی بند کمروں میں فیشن زدہ صُورتوں، گھریلو سازشوں پر مبنی کہانیوں ہی کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ اے کاش! کوئی جوہرشناس، فطرت پسند نگاہ اِس جانب بھی متوجّہ ہو۔
مغرب کے قریب قریب ہم نے واپسی کے لیے قدم اٹھائے۔ اور… واپسی پر ڈوبتے سورج کے منظر نے تو جیسے ہماری سیر کی دل کشی اور فسوں کچھ اوربھی بڑھا دیا۔ قدم اور نگاہیں وہاں مزید ٹھہرنے پہ مصر تھے، مگر…مسافتیں کتنی ہی مَن پسند، خُوش رنگ، دل رُبا کیوں نہ ہوں، واپسی کا سفر تو طے کرنا ہی ہوتا ہے۔ ہاں البتہ دل ہی دل میں دُعا ضرور کی کہ ’’اےاللہ! اِس حسین و یادگار مقام کودوبارہ دیکھنے کی مہلت ضرور دینا۔‘‘ سیر و سیاحت کے دل دادہ مُلکی و غیرمُلکی احباب سے بھی گزارش ہے کہ ایک بار یہاں ضرور آئیں۔ یقین کریں، آپ کا بار بار آنے کو دل نہ مچلے، تو کہیے گا۔