• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے قصے میں جس جج کا ذکر خیر ہے، اس جج کا تعلق جوڈیشری سے نہیں ہے ۔ اس جج کا تعلق نہ ہمارے ملک سے ہے اور نہ ہمارے معاشرے سے ۔ اس وضاحت کے درپردہ میرا خوف ہے ، میرا ڈر ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی جج صاحب میرے قصے کا نوٹس لیںا ور فقیر کو کنٹنمنٹ آف دی کورٹ کے تحت دھر لیا جائے ۔ میں بہت ہی بوڑھاشخص ہوں۔ ایک سپاہی کے آہنی ہاتھ کے ایک جھانپڑ سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہوں ۔ اپنے ایسے حشر نشر کا مجھے یقین ہے ۔ میں اپنے ملک کے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اوران اداروں میں بڑی دلجمعی سے کام کرنے والے کارندوں کی بے پناہ طاقت سے واقف ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے کب قانون اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں۔ جب وہ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں اٹھالیتے ہیں تب دنیا کا کوئی قانون روک ٹوک کیلئے ان کے سامنے نہیں آسکتا۔ ہمارےملک کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کے عام آدمی نے بھی قانون اپنے ہاتھ میں اٹھانے کی عادت اپنا لی ہے ۔ وہ لوگ انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے ۔ وہ پولیس سے رجوع نہیں کرتے ۔ ان باتوں کو وہ پرانے فرسودہ قصے تصور کرتے ہیں ۔ وہ سب وقت آنے پر عدالت بن جاتے ہیں۔ خود ہی عدالت میں جج بن کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ مقدمہ کا سردست فیصلہ سناتے ہیں اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچادیتے ہیں ۔ خاص طور پر دو قصور وہ درگزر نہیں کرتے ۔دو قصور وہ نظر انداز نہیں کرتے ۔ دو قصور وہ قابل معافی نہیں سمجھتے ۔ فوراً فیصلہ صادر کرتے ہیں اور قصوروار کو کھلے عام عبرتناک سزا دیتے ہیں ۔وہ دو قصور ہیں ، غیرت پر وار اور دوسراقصور ہے بلاسفیمی ۔ بیوی نے بیوفائی کی آپ نے بیوفائی محسوس کی اور پھر غیرت میں آکر بیوی کو قتل کردیا۔ آپ نے سینہ تان کر پولیس اور عدالت کو بتادیا کہ غیرت میں آکر آپ نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا معاملہ نہیں تھا ۔ غیرت کا معاملہ تھا ۔ غیرت میں آکر ایک غیرت مند شخص انتہا کی تمام حدودپار کرسکتا ہے ۔ وہ قتل کرسکتاہے ٹارچر کرسکتا ہے کسی کو نیست و نابود کرسکتا ہے بدلےکی بھاؤنا، انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ۔ وہ آپ کو اپنے بنیادی حقوق یاد دلواتی رہتی ہے ۔ بیوی چونکہ آپ کی لاٹری میں نکلتی ہے یا پھر آپ ایک عدد بیوی تھوک یا پرچون کے بھاؤ پر لے آتے ہیں اور آپ بجا طور پر پانچوں حواس والی عورت کو اپنی املاک سمجھ بیٹھتے ہیں وہ آپ کی خدمت کرے آپ کیلئے کھانا پکائے ۔ آپ کیلئے آپ کے وارث پیدا کرے۔ آٹے میں نمک کم یا زیادہ پڑجائے تو آپ ا سکو ماریں ،پیٹیں ۔ بیوی کی ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دیں یہ وہ الوپ حقوق ہیں جو شادی کے بعد آپ کومل جاتے ہیں ۔ لہٰذا آپ جب چاہیں بیوی کی کردار کشی کرسکتے ہیں ۔ آپ اس کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں ۔ اس کے بھیجے میں گولی مار سکتے ہیں۔ غیرت کے نام پر آپ بےانتہا حقوق کے مالک بن بیٹھتے ہیں ویسے بھی بچے پیدا کرنے والی مشین کو بچے پیدا کرنے ہوتے ہیں ۔ مشین خاطر خواہ نتائج دینے کے قابل نہ رہے، یعنی مشین صرف بیٹیاں پیدا کرے اور آپ کو بیٹے یعنی ولی عہد آپ کو پیدا کرکے نہ دے تو ایسی ناکارہ مشین کو آپ ٹھکانے لگانے کا حق رکھتے ہیں ۔ بہر حال مشین آپ کی ملکیت ہے جوچاہیں اس کے ساتھ کرسکتے ہیں ۔ بلاسفیمی کیلئے آپ کی اکثریت نے تمام حقوق حاصل کرلئے ہیں ۔ اس لئے آپ اکثریتی عوام جب چاہیں کسی کو بلاسفیمی کا مرتکب قرار دینے کے بعداس کی سرعام دھجیاں اڑادیں ،ڈنڈوں ،لوہے کے راڈوں اور سریوں سے، اینٹوں ، پتھروں اور سیمنٹ کے بھاری بھرکم بلاکوں سے مار مار کر اسےکیفر کردار تک پہنچا دیں ،ملزم کو آپ پولیس اور عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ آپ ملزم کو پکڑتے ہو، اس پر کھڑے کھڑے مقدمہ چلاتے ہو اور اسکو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہو۔

بچپن میں پڑی ہوئی عادتیں مرتے دم تک ساتھ نبھاتی ہیں ۔ مجھے بات کوئی اور کرنی تھی۔ قصہ پارینہ لیکر بیٹھ گیا ہوں بچپن میں پڑی عادتوں سےاگرآپ نے بچپن میں پیچھا نہیں چھڑایا تو وہ عادتیں کبھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔ بچپن کی عادتوں نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا،میں آپ کو ایک قاتل کی کہانی سنانا چاہتا تھا۔ جج صاحب نے قاتل سے پوچھا ’’مقتول تمہارا نہ دوست تھا نہ تمہارا دشمن تھا تم تو اسے ٹھیک سے جانتے بھی نہیں تھے ۔ پھر تم نے اسے قتل کیوں کیا ؟‘‘

قاتل نے کہا ’’ بیلوں کی دوڑکے مقابلوں میں میرے بیلوں نے سونے کے چار تمغے جیتے تھے ۔ جتنے لوگ میلے میں موجود تھے انہوں نے مجھے مبارکیں دیں ۔ اس بدبخت مقتول نے مجھےدورسے ٹھینگا دکھایا، ٹھینگا سمجھتے ہیں نا آپ؟۔ اس نے مجھے انگوٹھا دکھایا ۔ پھر قریب آکر اس نے مجھے دونوںہاتھوں کے انگوٹھےدکھائے ۔ کسی کو انگوٹھا دکھانا ہمارے معاشرے میں فحش گالی سے زیادہ برا مانا جاتا ہے ۔ میں نے وہیں کے وہیں خنجر گھونپ کر اسے قتل کردیا۔ یہ میری غیرت کا تقاضا تھا‘‘۔آپ بھی ماحول اور معاشرےکو مدنظر رکھتے ہوئے سرخرو ہونے والے شخص کو انگوٹھا یعنی ٹھینگا مت دکھایا کریں ۔ مفت میں مارے جائیں گے۔ ٹھینگا دکھانے کے آداب ہوتے ہیں کسی کامیاب شخص کو ٹھینگا دکھانے کے لئے آپ کا انگریز ہونا ضروری نہیں ہے ۔ انگوٹھا دکھانے کیلئے آپ کو بس چھری کانٹے سے کھانا کھانا آتا ہو ۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ کس ہاتھ میں کانٹا اور کس ہاتھ میں چھری پکڑنی چاہئے ۔ تو پھر بھولے سے بھی کسی کو انگوٹھا مت دکھایا کریں ۔ اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا سیکھئے۔

تازہ ترین