بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ایک معاہدے کے تحت حکومت بنی۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ معاہدے کے تحت پی ایس ڈی پی باہمی مشاورت کے ساتھ بننا چاہیے تھا، اگر ہم مل بیٹھتے تو شاید ایک بہتر حل نکلتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیرِ خزانہ کو مشورہ ہے کہ اتحادیوں اور اپوزیشن کیساتھ مشاورت ہونی چاہیے تھی، وزیراعظم نے چارٹر آف اکانومی کی بات کی، چارٹر آف اکانومی کہیں سے ڈکٹیٹ نہیں ہوسکتا، چارٹر آف اکانومی معیشت کی ترقی کا پہلا قدم ہوگا، اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے، نیشنل چارٹر آف اکانومی بنانا ہے تو سب سے مشورہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں کچھ کمی آرہی ہے، امید ہے حکومت پالیسی جاری رکھے گی، عوامی مسائل کم کریں اور انہیں مسائل سے نکالیں، ہم جانتے ہیں عوام کے مسائل کیا ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر صوبے ہدف حاصل نہیں کرتے تو اپنے بجٹ سے ہدف پورا کریں گے، سر پلس سیلز ٹیکس کی صورت میں صوبے اضافی ریونیو اپنے پاس رکھیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ امید ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہوگی، حکومت اب تک مہنگائی کو قدرے کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، امید ہے مہنگائی میں کمی کو عوام محسوس کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حجم میں 27 فیصد اضافہ قابلِ ستائش ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں باجوہ ڈاکٹرائن کے نام پر اپوزیشن نشانے پر تھی، ہم پاکستان کے بنیادی مسئلے کا دفاع کرنے کے لیے ایک ہوئے۔ اٹھارہویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ختم کرنے کی سازش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی فلسفہ پروگریسو ٹیکسیشن میں یقین رکھتا ہے، ہم عام آدمی کو محصولات کی مد میں ریلیف دینے میں اب تک ناکام رہے ہیں، ہر بجٹ بلاواسطہ ٹیکسیشن پر زور دیتا ہے۔