ارتقا ایک مستقل عمل ہے اور عالمی سیاست میں جتنی چاہے کوئی کوشش کرلے مگر اس ارتقا کو روکنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام زمین بوس ہو گیا اور دنیا نے دو مختلف معیشتوں کے باہمی تصادم کی سیاست کا سامنا کیا پھر سوویت یونین بھی ماضی بن گیا مگر دنیا میں دوام کسی کو نہیں ہے اور اب پھر دوبارہ سے دنیا معاشی حالات کےایک نئے دور ، نئی عالمی سیاست کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہی ہے اور اس نئی صبح میں شنگھائی تعاون تنظیم( ایس سی او ) کا ایک کلیدی کردار ہے ۔ اگلے ماہ اس تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے اور اس کے اثرات کو صرف ایک کالم تک محدود کردینا کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے اثرات بتدريج بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس کے ہر اقدام کو سمجھنا از حد لازم ہے ۔ ایس سی او کی عملی طور پر قیادت چین کر رہا ہے اور وہ اسی نوعیت کے دیگر تنظیموں کے قیام کو عمل میں لا کر عالمی سیاسی نظام میں کسی ایک کی بالادستی کے تصور کو ماضی کی بس ایک یادگار بنا دینا چاہتا ہے ۔ تجزیہ اس امر کا ہونا چاہیے کہ یہ ارتقائی تزویراتی تبدیلیاں کن حالات میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور اس وقت موجودہ عالمی نظام کے حوالے سے کیا تاثر قائم ہے اور نئے عالمی نظام کی بنیاد کن بنیادی نکات پر ہونی چاہئے ۔ جب ہم دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہوئے نظام کے متعلق تاثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس نظام کے حوالے سے تصور یہ ہے کہ یہ نوآبادیاتی نظام کا جا نشین ہے اور اب کیوں کہ براہ راست مقبوضات کی بجائے دیگر ذرائع سے قبضہ آسان ہے تو یہ آسان قبضہ ہی کیا جاتا ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تو یہ شکایت عام ہے کہ ہمیں زیر تحت رکھنے کی غرض سے مخصوص حکمت عملی کو اختیار کیا جاتا ہے اور بڑی طاقتوں کی پاور پولیٹکس کی وجہ سے ہاتھیوں کی لڑائی میں گھن پس جانے والی مثال ہم پر صادق آتی ہے ۔ طاقت ور ممالک اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے سب سے پہلے معاشی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اثر میں موجود ممالک ایسی کوئی معاشی ترقی کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں کہ جس کی بدولت وہ بڑے ممالک کے اثر سے باہر نکل آئیں ۔ صنعتی ترقی کو تنزلی میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ دنیا بھر میں تسلیم شدہ سیاسی اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جن ممالک کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے وہاں پر علیحدگی پسندی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سرپرستی کی جاتی ہے ۔ یہ بد قسمتی ہے کہ اس تاثر کو رفع کرنے کی غرض سے جو طاقتیں دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی نظام کی کرتا دھرتا بنیں انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا ایسے اقدامات کا تسلسل ہمارے سامنے آتا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی ادارہ اور اس میں کئے گئے وعدے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں ۔ خاص طور پر جب صدام کو ہٹانے کی غرض سے اقوام متحدہ کو روندا گیا تو جو تھوڑا بہت اس پر اعتبار باقی بھی بچا تھا وہ بھی دھڑام سے گر گیا ۔اب ان حالات میں ایس سی او کی جانب سے شنگھائی اسپرٹ کا نعرہ سامنے آیا ہے اور اس تنظیم کے روح رواں ملک چین کی جانب سے اس پر بہت شدومد سے زور دیا جا رہا ہے ۔ شنگھائی اسپرٹ کا مطلب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ دنیا کا نظام جس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی نمائندہ حیثیت ہوگی میں چھوٹے یا باالفاظ دیگر کمزور ممالک کے حقوق کو طاقت کے زور پر سلب اور ان کو مغلوب نہیں کیا جائے گا ۔ باہمی اعتماد اس کا بنیادی ستون ہے اور اس باہمی اعتماد کی بدولت یہ ممالک ملکر اس نوعیت کی پالیسیاں تشکیل دیں گے کہ جس سے باہمی فائدے کے دروازے سب کیلئے وا ہو جائیں ۔ ایک دوسرے کی باہمی مشاورت سے اور ایک دوسرے کی ہر قسم کی ثقافت کا احترام کرتے ہوئے مساوات اور مشترکہ ترقی کو ملکر تلاش کیا جائے ۔ ایس سی او کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ممبران کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے نصب العین کیلئے ملکر اقدامات کئے جائیں تاکہ ان ممبر ممالک کو تزویراتی خود مختاری حاصل ہو ۔ اس میں جو خاص مقصد صاف نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ خطے سے باہر کی طاقتوں کے عمل دخل کو یہاں سے قصہ پارینہ بنا دیا جائے اور باہمی تعاون سے ہی اس خطے کی سیکورٹی کے مسائل کو اپنے ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے ۔ چین اس مقصد کے حصول کیلئے اپنے اٹھائے گئے اقدام گلوبل سیکورٹی انیشی ٹو کو ایک رہنما اقدام کے طور پر پیش کر رہاہے اور اس مقصد کیلئے ایس سی او کے ممبر ممالک کے باہمی اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے ۔ یہ نکتہ پاکستان کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس تنظیم میں پاکستان اور انڈیا دونوں شامل ہیں اگر انڈیا اس کے مقاصد کے حصول میں مخلص ہے تو اس کو پاکستان سے اپنے تمام معاملات طے کرنے کیلئے آگے بڑھنا چاہئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس پر گہرے تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے کس سے کیسے تعلقات رکھنے چاہئیںکیوں کہ ایس سی او سے وابستگی کا مطلب کسی سے دوری کی صورت میں نہیں آنا چاہئے یہ ہدف مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)