گزشتہ دنوں ہینلے اینڈ پارٹنرز کی ویلتھ مائیگریشن کے حوالے سے شائع رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ رواں سال دنیا بھر سے ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد کروڑ پتی افراد کی دوسرے ممالک منتقلی کا امکان ہے اور یو اے ای دنیا بھر کی ان سرکردہ دولت مند شخصیات کو اپنی طرف کھینچنے میں پہلے نمبر پر ہے جہاں 2024 کے آخر تک 6700 کروڑ پتی شخصیات کی منتقلی متوقع ہے۔ رپورٹ میں جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی غیر یقینی صورتحال، سماجی رویوں، ٹیکسوں کی بھرمار اور عدم تحفظ کے باعث دولت مند اشرافیہ کی بیرون ملک نقل مکانی کی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ کروڑ پتیوں کی بیرون ملک ہجرت میں چین پہلے نمبر پر ہے جہاں کے 15200 کروڑ پتی افراد سرمائے سمیت دوسرے ملک منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کروڑ پتیوں کی ہجرت میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں رواں سال 9500 دولت مند افراد ملک چھوڑ جائیں گے جو گزشتہ سال 4200 تھی جس کی وجہ یورپی یونین (بریگزٹ) سے برطانیہ کی علیحدگی، غیر یقینی سیاسی صورتحال، معاشی عدم استحکام اور سخت ٹیکس قوانین ہیں۔ کروڑ پتیوں سے محروم ہونے میں بھارت تیسرے نمبر پر ہے جو اس سال 4300 کروڑ پتی افراد سے محروم ہوجائیگا۔ ان کروڑ پتیوں کے بھارت چھوڑنے کی وجہ سرمائے کا تحفظ، بہتر مستقبل اور طرز زندگی اختیار کرنا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا کے 1200 سے زائد کروڑ پتی ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں سے زیادہ تر افراد کا امریکہ اور کینیڈا منتقل ہونے کا رجحان ہے جبکہ روس کے 1000 سے زائد کروڑ پتی یوکرین جنگ کےباعث روس پر لگنے والی عالمی اقتصادی پابندیوں سے اس سال ملک چھوڑ جائیں گے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے کروڑ پتیوں کو اپنی جانب کھینچنے میں یو اے ای کے سرفہرست ہونے کی وجوہات میں سرمائے کا تحفظ، کم ٹیکس، جدید ترین سہولیات، سیکورٹی اور اعلیٰ معیار زندگی ہے جس کے باعث دنیا بھر کے دولت مندوں میں یو اے ای مقبول ترین ملک ہے۔ دولت مند شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں امریکہ دوسرے نمبر پر ہے جو دیگر مغربی ممالک کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور گزشتہ 10 سالوں کے دوران امریکہ میں کروڑ پتی افراد کی تعداد میں 62 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں اس سال 3800 کروڑ پتیوں کا اضافہ متوقع ہے۔ سنگاپور اپنی مضبوط معیشت اور اعلیٰ معیار زندگی کی وجہ سے دنیا کے انتہائی امیر افراد کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس سال دنیا بھر سے 3500 کروڑ پتی افراد سرمائے سمیت سنگاپور منتقل ہوں گے۔ کینیڈا اشرافیہ طبقے بالخصوص یورپی اور ایشیائی دولت مند شخصیات کیلئے نہایت مقبول ملک تصور کیا جاتا ہے۔ پچھلی دہائی میں کینیڈین کروڑ پتی آبادی میں 29فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف اس سال 3200 کروڑ پتی افراد کے کینیڈا منتقل ہونے کی توقع ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا بھی دنیا کے دولت مند افراد کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2024 میں دنیا کے 2500 کروڑ پتی افراد کے آسٹریلیا منتقل ہونے کا امکان ہے جو گزشتہ سال کے 5000 کروڑ پتیوں کے مقابلے میں نصف ہے۔
گوکہ کروڑ پتی شخصیات کی سرمائے سمیت بیرون ملک منتقل ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان شامل نہیں مگر یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام، ہوشربا ٹیکسوں، مہنگائی اور عدم تحفظ کے باعث گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان سے سینکڑوں دولت مند افراد اپنے سرمائے کے تحفظ، کم ٹیکس، جدید ترین سہولیات، سیکورٹی اور بہتر طرز زندگی کی تلاش میں سرمائے سمیت بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں جس کی حالیہ مثال دبئی لیکس ہے جس میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ متحدہ عرب امارات کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں صرف پاکستانیوں نے 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ میں خود ایسے کئی بڑے بزنس مینوں کو جانتا ہوں جو ملک میں غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث اپنے سرمائے سمیت یو اے ای اور دیگر ممالک منتقل ہوئے جبکہ حالیہ بجٹ میں ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث آنے والے دنوں میں مزید دولت مند پاکستانیوں کے سرمایہ سمیت بیرون ملک منتقل ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کیلئے کیپٹل اور برین ڈرین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے مگر افسوس کہ حالیہ انتخابات میں کسی بھی جماعت نے اپنے منشور میں اس اہم مسئلے کو شامل نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس اہم مسئلے پر توجہ دے اور ایسے اقدامات کرے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوانوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ بہتر مستقبل اور روزگار کی خاطر ملک چھوڑنے اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے بجائے پاکستان میں ہی سرمایہ کاری اور رہائش کو ترجیح دیں۔ اگر حکومت نے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دی اور خاموش تماشائی بنی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے اشرافیہ طبقے کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد کسی دوسرے ملک منتقل ہوکر اُس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہوں گے جبکہ پاکستان برین اور کیپٹل ڈرین کے باعث ترقی کی دوڑ میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جائے گا۔