ہر سال عید کے موقع پر ملک بھر سے بے شمار سیاح بمعہ اہل و عیال شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتے ہیں، تاہم رواں برس پاکستان کے سوئٹزرلینڈ سمجھے جانیوالے سوات کے سیاحتی مقام پر جو دلخراش واقعہ پیش آیا ہے اس سے سیاحوں میں دہشت پھیل گئی ہے، میڈیا سے دستیاب معلومات کے مطابق سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح پر سوات کے ایک ہوٹل کی انتظامیہ کی جانب سے توہین ِ مذہب کا الزام لگایا گیا، پولیس کے پہنچنے سے قبل لوگوں کا ایک مشتعل ہجوم وہاں جمع ہوچکا تھا، پولیس تفتیش کیلئے ملزم کو لیکر تھانے پہنچی تو وہاں پر ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں نے دھاوا بول دیا، نہتے سیاح کو بعد ازاں بے دردی سے سپردآتش کرکے قتل کردیا گیا، یہ دل دہلانے والا سانحہ آناََ فاناََ سوشل میڈیاپر وائرل ہوگیا، جہاں ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا نے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا تودوسری طرف سیاحوں کی اکثریت سوات اورشمالی علاقہ جات سے اپنا تفریحی پروگرام ادھورا چھوڑ کر خوف و ہراس کے عالم میں جلدازجلد واپسی پر مجبور ہوگئی اور سوات جانے والوں نے اپناپروگرام ملتوی کرکے راستے میں ہی اپنی منزل بدل لی ۔اس وقت سیاحتی حلقوں میں یہ عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ حالیہ اندوہ ناک واقعے نے خطے کی سیاحت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے،سا نحہ سوات کا براہ راست منفی اثر پانچ لاکھ سے زائد سیاحت کے شعبے سے منسلک افراد پر پڑا ہے، سوات کے تقریباََتمام ہوٹلوں سے دیگر صوبوں سے آئے ہوئے سیاح بدترین تاثرات لیکر وادی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ سانحہ سوات نے میرے دماغ میں گزشتہ برس کے دورہ سوات کی یادیں بھی تازہ کردیں جب میںبطور چیئرمین وزیراعظم ٹاسک فورس برائے گندھارا ٹورازم نیپال، جرمنی کے ڈپلومیٹس اور میڈیا نمائندگان کے ہمراہ وہاں گیا تھا تاکہ حکومتی سطح پر مذہبی سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے پاکستان کے گندھارا تہذیب سے وابستہ قدیمی مذہبی مقدس مقامات کو عالمی یاتریوں کیلئے کھولا جاسکے، اپنے دورہ سوات کے دوران میں نے وہاں کے مقامی لوگوں کو بہت زیادہ مہمان نواز اور ملنسار پایا، تاہم وہاں نجانے ایسا کیوں محسوس ہوتا تھا جیسے سوات کی خوبصورت وادی ابھی تک ماضی کے شدت پسندوں کے آسیب سے باہر نہیں نکل سکی ہے، مقامی باشندوں پر پراسرار خوف طاری تھا ، علاقے کی فضا میں عجیب طرح کی ایک دہشت چھائی ہوئی تھی، مجھے اپنے دوروزہ دورے کے دوران کہیں کوئی مقامی خاتون سڑک پر یا بازار میں نظر نہیں آئی۔میں نے وہاں ہرجگہ اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جن کو خدا پاک نے چار موسم، خوبصورت سیاحتی مقامات کے ساتھ مذہبی مقدس مقامات کی صورت میں انمول خزانے سے نوازا ہے، تاہم حالیہ اندوہ ناک واقعے کی وجہ سے میں ذاتی طور پر بہت زیادہ رنجیدہ اور مضطرب ہوگیا ہوں، اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں سوات کے امن کو بیرونی قوتوں کے ا یما پر تباہ کیا گیا تھا لیکن حالیہ واقعہ میں مقامی سطح کے شدت پسند عناصر ملوث نظرآرہے ہیں جو علاقے کی ترقی و خوشحالی کیلئے کسی صورت نیک شگون نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح دنیا کا ہر مذہب قابل احترام ہے، اسی طرح دنیا کا کوئی بھی مذہب تشدد، عدم برداشت اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔میرا دنیا بھر کے ممالک میں آنا جانا لگا رہتا ہے، وہاں بھی کچھ بیمار ذہنیت کے عناصر کی طرف سے توہین مذہب جیسے قابلِ مذمت واقعات سامنے آتے ہیں لیکن ایسے حساس معاملات کو ہینڈل کرنے کیلئے بہت زیادہ احتیاط اختیار کی جاتی ہے، ہمارے ملک میں بھی سوات میں مبینہ توہین مذہب کی شکایت موصول ہونے کے بعد قانون حرکت میں آچکا تھا، ملزم کو پولیس نے تحویل میں لیکرمزید قانونی کارروائی کیلئے تھانے منتقل کردیا تھا لیکن شدت پسند وں نے عدم برداشت کا رویہ اپناتے ہو ئے لوگوں کے مذہبی جذبات اُبھارے اور پھر مشتعل ہجوم نے بغیر کسی تحقیقات کے ایک نہتے انسان کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا، وہ میرا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ ایک بار پھر عالمی برادری کے سامنے ہماری جگ ہنسائی ہوئی اور دنیا نے ہمارا تعارف ایک شدت پسند قوم کے طورپر کرنا شروع کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سانحہ سوات کسی ایک علاقے یا واقعے تک ہی محدودنہیں بلکہ ماضی میں لاہور میں ایک خاتون کو عربی رسم الخط پر مبنی لباس زیب تن کرنے پر شدت پسندوں کے نرغے میں آنا پڑا،اس سے قبل ایک سری لنکن شہری کو بے دردی سے جلا دیا گیاتھا، ماضی میں بھی ایسے متعدد واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہے ہیںجو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پنپتی عدم برداشت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس وقت سوات سمیت تمام سیاحتی مقامات کے باسیوں کو سمجھنا چاہیے کہ سیاح انکے علاقوں میں مہمان ہوتے ہیں، آپ کے علاقے کی معیشت کا دارومدار سیاحوں کی آمد پر ہے، اگر اسی طرح مذہبی شدت پسندی پنپتی رہی تو پھر کوئی آپ کے خوبصورت سیاحتی مقامات کا رُخ نہیں کرے گا ۔ میری نظر میں اس افسوسناک سانحہ کی نہ صرف جامع تحقیقات ہونی چاہیے بلکہ مذہبی شدت پسندی کے تدارک کیلئے علمائے کرام کوبھی اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، جس طرح کراچی میں ہیومن مِلک بینک منصوبے کو بند کرانے کیلئے معاشرے کے تمام مکتب فکر نے ٹھوس اور بروقت موقف اختیار کیا، آج وہی جذبہ مذہبی لیڈران کو شدت پسندی کے خاتمے کیلئے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، علمائے کرام کا یہ مذہبی و قومی فریضہ بنتا ہے کہ وہ جمعہ المبارک کے خطبے میں اس سانحہ کی پُرزور مذمت کریں اورمعاشرے میں برداشت، صبر و تحمل، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے مشترکہ فتویٰ جاری کریں، آج اگر ہم خاموش رہے تو کل یہ ظلم و بربریت کی بھڑکتی آگ ہم تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)