اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے نام براہِ راست کلام میں ارشاد فرمایا" so let them serve the Lord of this house,
who feeds them against hunger and gives them security against fear.
(سورۃ قریش، آیت نمبر 3-4)۔ بھوک اور افلاس سے نجات اور خوف و بے امنی سے تحفظ کیلئے سیکورٹی جیسے بنیادی انسانی حق لوگوں کے لئے اللہ کا عطیہ ہیں۔ جو سماج یہ حق ادا نہ کر سکے وہ کس کاباغی ہے...؟
اشرف المخلوقات کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جائے تو کوئی بات نہیں، ڈالر کی ڈرائیونگ سیٹ اپنے ہاتھ رہنے چاہئیں، چاہے ہاتھ پھیلا پھیلا کر ہاتھ پائوں ہی پھول جائیں۔ اُکھڑی اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ جتنے مرضی نوٹس لے لیں اس اُمتِ مرحوم کی اٹھارہ سالہ عفت مآب بیٹی آمنہ کو زندگی واپس نہیں مل سکتی۔ کیا اب بھی کوئی شبہ یا سوال باقی رہ گیا ہے کہ یہ آئین اپنی ساری دفعات سمیت جس طرح اپنے بنانے والے کا تحفظ نہیں کر سکا تھا، نہ ہی اُس کے عدالتی قتل کا مقدمہ چلا سکا ہے بالکل اُسی طرح یہ آئین نہ تو غریب کی چادر بچا سکتا ہے، نہ مسکین کی چار دیواری کو تحفظ دے سکتا ہے ۔ شہری گینگ وار میں مارا جائے،ڈرون حملے میں قتل کیا جائے، دھماکہ کسی ابنِ آدم یا بنتِ حوا کے چیتھڑے بکھیر دے، اب کس میں ہمت ہے کہ وہ جائے واردات پر جائے...؟ دفعہ 172ضابطہ فوجداری کی کارروائی کرے...؟ اسی ضابطے کے 161ے مطابق مظلوموں کے بیان لکھے...؟ پھر یہ ہمت بھی کر ڈالے کہ مقدمے کے ملزموں، اُن کے ہمراہیوں، ظالموں کے سرپرستوں اور اُن کے ٹکڑوں پر پلنے اور ٹکے ٹوکری کے بھائو بِک جانے کے لئے تیار تفتیشی افسروں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے...؟ فوجداری انصاف کا زنگ آلود نظام کس قدر آوٹ آف ڈیٹ ہے۔ تھانے عفت دری، وحشت گری اور مسلح لوٹ مار کا پرچہ درج کیوں کریں...؟ آگے چلنے سے پہلے ذرا ان حقائق پر غور کرتے ہیں۔
اولاً...پاکستان بھر کی مرکزی بیورو کریسی جہاں سے انسپکٹر جنرل پولیس یعنی پروونشل پولیس آفیسر بھجوائے جاتے ہیں وہاں سروس آف پاکستان میں کون ہے جو کسی سیاسی خانوادے کا رشتہ دار نہیں۔ ظاہر ہے ہر سیاسی خاندان کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کا حصہ ہوتاہے۔ اسی لئے اس تالاب کی سب سے بڑی مچھلی کے گلے میں کنڈی پھنسی ہوئی ہے۔ اگر کوئی خود مختار ہو گا تو وہ غیر جانبدار بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کون ہے جو جانبدار نہیں یا خود مختار بھی ہے...؟ کم از کم میرے علم میں ابھی تک نہیں آیا، آپ کو پتہ ہو تو قوم کو ضرور بتا دیں۔
ثانیاً... پاکستان کے کس شہر کا ایس پی یا آر پی او۔ کس سرکل کا ڈی ایس پی یا اے ایس پی کسی حاضر یا سابق وزیر، ایم این اے، ایم پی اے، ناظم یا سیاست دان کا رشتہ دار نہیں...؟ جن اچھے افسروں کے لئے تعریفی مضمون چھپتے ہیں آپ اسے مظلوموں کی بدبختی سمجھ لیں کہ اُن کا بیک گراونڈ اور شجرہ نسب بھی سیاسی ہی بنتا ہے۔
ثالثاً... تھانوں میں تعیناتی کا آکشن آج تک کیوں نہیں رک سکا...؟ بغرضِ جوائنٹ وینچر انصاف یا نظریہ ضرورت کے تحت...؟
رابعاً... پولیس کس ٹریننگ کے بعد انصاف کرنے کے لئے محرر، تفتیشی اور تھانے داری کی کرسی پر بٹھائی جاتی ہے...؟
اب آئیے ذرا کیس اسٹڈی کی طرف چلتے ہیں۔ پچھلے ہفتے سابق وفاقی وزیر جو ایم این اے رہے آج کل سینیٹر ہیں جبکہ اُن کا بیٹا سکھر سے ایم این اے ہے۔ انہوں نے شکایت کی اسلام آباد کے سیکٹر G/10 میں اسمبلی سیشن کے دوران اُن کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے کر کلاشنکوفوں سے فائرنگ کی گئی ایک حملہ آور کامیابی سے چار دیواری بھی کود گیا۔ پولیس موقع پر آئی مگر دو ہفتے تک پرچہ درج نہ کیا۔ میں نے انہیں شام کو اپنے چیمبر آنے کا کہا۔ ایف آئی آر ڈرافٹ کرائی اور وفاقی دارالحکومت کے آئی جی کو فون کر کے کہا مدعی سینیٹر میرے سامنے بیٹھے سراپا سوال ہیں۔ پھر آئی جی سکندر کی مداخلت پر شالیمار تھانے نے پرچہ درج کیا۔ دوسرا کیس اسٹڈی مظفر گڑھ شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دُور تحصیل جتوئی کے تھانہ بیٹ میر ہزار خان کا ہے۔ جہاں ایک غریب کسان کی زیرِ تعلیم اور ہونہار بیٹی اٹھارہ سالہ آمنہ کے ساتھ گینگ واردات سے ظلم کی داستان شروع ہوئی۔ قانون کہتا ہے ایسے مقدمات میں مظلوم خاتون کی شہادت سب سے معتبر ہے لیکن پنجاب پولیس مالدار مجرموں اور اُن کے سرمایہ دار سرپرستوں پر دل و جان سے فدا رہتی ہے، نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ مظفر گڑھ کے شیر دل تفتیشی افسروں نے گرفتار ملزم کو رہا کر کے چند سکّوں کے عوض آمنہ کی آبرو کی بولی لگا دی۔ باعفت آمنہ قانون کے سوداگروں سے جا ٹکرائی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے یعنی انسانوں کے سمندر میں آمنہ کے ساتھ میر ہزار خان تھانے کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ آمنہ نے آخری قدم اُٹھا دیا، اپنی جان کو اپنی آبرو پر ترجیح دے دی۔ تماشہ دیکھنے والوں نے آگ تو بجھائی مگر اپنی ایک بیٹی کی آبرو کے سودے پر مورچہ بند وردی پوشوں کے خلاف احتجاج کی صدا بلند نہ کی ۔
آمنہ کے ساتھ 3جنوری سے پہاڑ جیسے مظالم ڈھائے گئے۔ پہلا سِتم درندوں نے کیا۔ دوسرا ظلم درندوں کے حمایتی بے رحم اہلکاروں نے،جن کی سرکاری تنخواہ سے زیادہ روزانہ ملنے والی ’’ٹِپ‘‘ بنتی ہے۔ بااثر لیکن زیرِ حراست ملزم تھانے سے انصاف اور قانون کوخرید کر باہر نکلا تو اُس کے سرپرستوں نے قانون کے قتل پر فاتحانہ مٹھائی بانٹ ڈالی۔ اتنے بڑے ظلم اور اس ننگی بربریت پر معطل ہونے والے ہمیشہ کی طرح چند ہفتوں بعد بحال ہو کر اگلے عہدے تک پہنچ جائیں گے لیکن آمنہ اُس عدالت میں چلی گئی جہاں اس دنیا کی’’آزاد‘‘ عدالتوں سے لے کر ’’خود مختار‘‘ حکمرانوں تک ہم سب کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ یہی نہیں لاہور میں بھی سُندر گائوں کی ایک اور بے نام دوشیزہ بے آبرو ہو کر ٹکڑوں میں کاٹ کر پھینک دی گئی۔ درجنوں معصوم پریوں کو گڑیوں اور لوریوں کے موسم میں برباد کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ کہاں ہے اس قوم کے مظلوموں کے لئے قانون اور انصاف...؟
بول ! اس دیش کی مظلوم خموشی کچھ بول
بول اے پیپ سے رِستے ہوئے سینوں کی بہار
بھوک اور قحط کے طوفان بڑھے آتے ہیں
بول اے عصمت و عفت کے جنازوں کی قطار
روک ان ٹوٹتے قدموں کو انہیں پوچھ ذرا
تیرے رہبر تجھے مرنے کے لئے چھوڑ چلے
لیکن سرمایہ داری، جاگیرداری اور چور بازاری کی اہلیت رکھنے والوں اور صلاحیت رکھنے والے دونوں کو غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ دانشمندوں کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ کوئی جدید عربستان کا جذباتی تیونس نہیں۔ جہاں ایک بُو عزیزی کی خود سوزی نے حبیب بورقیبہ کی 55سالہ حکمرانی اور بن علی کی 22سالہ تاج پوشی کو حریت کے شعلوں سے تاراج کر دیا تھا۔ ہاں البتہ سیّدنا علیؓ کا فرمان بھی آفاقی ہے کہ معاشرہ ظلم کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ مظلوم کو انصاف نہ ملے۔ جو چار دیواری اور چادر آمنہ کو نہ مل سکی وہ ہے کہاں...؟