22 جون کو ایپکس کمیٹی نے ملک کے شمال اور جنوب میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیش نظر آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا۔ 25جون کو وفاقی کابینہ نے بھی اس فیصلے کی منظوری دے دی۔ اس کے فوراً بعدپاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام سمیت کچھ قوم پرست جماعتوں اور گروہوں نے خیبر پختونخوا میں جرگے شروع کر دیے۔ اسد قیصر کی موجودگی اور عمران خان کی رہائی کے مطالبہ سے اس سیاسی تحرک کی باگ ڈور تحریک انصاف کے ہاتھ میں نظر آتی ہے۔ تاہم عزم استحکام کی مخالفت کے لیے درکار افرادی قوت مولانا فضل الرحمن کے قبضہ قدرت میںہے۔ مولانا صاحب 20ستمبر 2020 ء کو پی ڈی ایم کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ انہوں نے پی ڈی ایم سے راستے کب الگ کئے۔ 2023 ء کے اواخر تک مولانا کی جماعت پر پے در پے دہشت گرد حملے ہو رہے تھے۔ جولائی 2023ء میں باجوڑ کے ایک جلسے پر حملے میں 50 کے قریب سیاسی کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔ 31دسمبر 2023 ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب مولانا کے قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی۔ اس تحریر میں مولانا فضل الرحمن کے کچھ حالیہ ارشادات پر تنقید مطلوب ہے چنانچہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کے بارے میں اپنی گزشتہ آرا کا مختصر خلاصہ پیش کر دیا جائے۔
مولانا فضل الرحمن اکتوبر1980 ء میں اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد 27برس کی عمر میں جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری مقرر ہوئے تھے اور اسی برس اپنی جماعت کے ایک دھڑے کے سربراہ بن گئے۔ 6فروری 1981 ء کو تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی قائم ہوئی تو مولانا فضل الرحمن اس کا حصہ تھے۔ قومی اتحاد سے بحالی جمہوریت کیلئے جدوجہد تک اس سفر سے مولانا کی سیاسی قامت میں اضافہ ہوا۔ مولانا نے پشاور یونیورسٹی اور مصر کی الازہر یونیورسٹی سے رسمی تعلیمی اسناد کہیں بعد میں حاصل کیں۔ اسلم بیگ اور حمید گل نے آئی جے آئی بنائی تو مولانا فضل الرحمن دائیں بازو کے اس اتحاد سے الگ رہے بلکہ انہوں نے عہدہ صدارت کے لیے نوابزادہ نصراللہ خان کی حمایت کرکے اسلم بیگ صاحب سے ناقابل اشاعت الفاظ میں گوشمالی بھی کروائی۔2022 ء میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جنرل قمر باجوہ سے تلخ کلامی تو ابھی کل کی بات ہے۔ 2002 ء میں مشرف کے زیر سایہ وجود میں آنے والی اسمبلی میں مولانا وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے اور محض ایک ووٹ سے یہ انتخاب ہار ے۔ دلچسپ بات ہے کہ قائد ایوان کے انتخاب میں عمران خان واحد رکن اسمبلی تھے جنہوں نے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔ مولانا کی یہ خواہش کچھ ایسی غیر سنجیدہ بھی نہیں تھی۔2010ء میں وکی لیکس سے معلوم ہوا کہ مولانا نے 2007 ء میں پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن کو ایک ڈنر دیا تھا ۔ امریکی سفارت کار کے مطابق مولانا نے اس ملاقات میں امریکی سفیر سے وزیر اعظم بننے میں مدد مانگی تھی۔ امریکی سفیر کے مطابق غفور حیدری نے اس موقع پر تسلیم کیا تھا کہ پاکستان میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کو امریکی حکومت سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ اتفاق سے یہ عین وہی وقت تھا جب مولانا ایم ایم اے کے ذریعے سرحد اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کر کے پرویز مشرف کی دوسری مدت صدارت کی راہ ہموار کر رہے تھے۔
2022 ء میں طالبان نے دوحا معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کابل پر قبضہ کر لیا تو ٹی ٹی پی کے لیے افغانستان محفوظ پناہ گاہ بن گیا۔ اس دوران تحریک انصاف ہزاروں دہشت گردوں کو پاکستان واپس لائی۔ نتیجہ یہ کہ 2022ء کی نسبت 2023 ءمیں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں67فیصد اضافہ ہوا۔ تقریباً ایک ہزار حملوں میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ طالبان نے نومبر 2022 ء میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی ختم کی تو جنوری 2023ء میں پشاور کی ایک مسجد پر حملے میں سو سے زائد شہری شہید ہوئے۔ 2024ء کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر تین سو سے زائد حملے ہوئے۔ 7فروری 2024ء کو پشین اور قلعہ سیف اللہ میں 28معصوم پاکستانی شہید ہوئے۔ دسمبر 2023ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجی جوان شہید ہوئے۔7 مئی 2024 ء کو ایک حملے میں پانچ چینی انجینئر ہلاک ہوئے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ چین واحد ملک ہے جس نے طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں نیز ایران، بھارت اور ترکی افغان حکومت کے ساتھ گہرے رابطے میں ہیں۔ گزشتہ افغان حکومتوں کی طرح طالبان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ پاکستانی افواج افغان علاقے میں دہشت گرد پناہ گاہوں پر حملہ کر چکی ہیں اور خواجہ آصف اب بھی اس امکان کو رد نہیں کرتے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن نے دو نہایت خطرناک بیان دیے ہیں۔ دِیر میں کہا کہ ہم سارے پاکستان کو ’امارت اسلامی‘ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا قرارداد مقاصد کا منطقی تقاضا ہے۔ پشاور کے جرگے میں فرمایا کہ وہ چند روز میں جنوبی خیبر پختونخوا میں ’امارت اسلامی‘ قائم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مولانا کو تو پاکستان کی سرزمین پر ’امارت اسلامی‘ کے گمراہ کن نمونے کے تصور ہی پر تڑپ اٹھنا چاہیے تھا۔ یہ تو نرم ترین لفظوں میں کھلی پاکستان دشمنی ہے۔ قرارداد مقاصد کا ’امارت اسلامی‘ جیسے فرسودہ تصور سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کی زمین کا ایک انچ ٹکڑا کسی برخود غلط گروہ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جرأت تو 1971 ء میں مکتی باہنی کو نہیں ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن ہمسایہ ملک ایرانی حکومت اور افغانستان پر قابض گروہ کو مساوی حیثیت دے رہے ہیں۔ ایران کی خودمختار قومی ریاست پاکستانی سرحدوں کا احترام کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان کی زمین پر امارت اسلامی کا شوشہ چھوڑ کر قومی سلامتی کو شدید زک پہنچائی ہے۔ یہ سیاسی اظہار کی آزادی نہیں بلکہ ہمارے دستور کی بدترین توہین ہے۔ ریاست پاکستان کو مولانا سے سوال کرنا چاہیے کہ عزم استحکام کی مخالفت ان کا جمہوری حق ہو سکتا ہے، پاکستان کو ’امارت اسلامی‘ کے خواب پریشان میں بدلنے کا حق انہیں کس نے دیا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)