بلدیاتی اداروں با لخصوص ضلعی حکومتو ں کا قیام صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140کا مفہوم یہ ہے کہ ہر صوبہ قانون کے مطابق مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لائے گا، جنہیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی خود مختاری حاصل ہوگی۔
اس سلسلے میں سیاسی حکومتوں بالخصوص پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی تاریخ کوئی زیادہ شان دار نہیں ہے۔ بلدیاتی ادارے صرف غیر جمہوری حکومتوں کے دوران تشکیل پائے اور مستحکم ہوئے۔ اور اس کی وجہ غیر جمہوری حکومتوں کی اپنی ضرورت تھی کہ ان کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہ تھی اور انہوں نے بلدیاتی نمائندوں میں سے اپنی پارٹی بنانا تھی۔ اب بھی صرف پنجاب اور اسلام آباد میں ہی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اور یہاں بلدیاتی اداروں کا فی الحال وجود نہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی بھی ترجیحات میں صوبائی نہیں بلدیاتی امور ہی سرفہرست ہیں اس لئے پنجاب کی حکومت بلدیاتی اداروں کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن نے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کیلئے انتظامات شروع کر دیئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یکم جولائی سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے احکامات جاری کر دیئے جبکہ پنجاب کی حدود اور انتظامی حد بندیوں کو منجمد کر دیا گیا۔ پنجاب میں یونین کونسل، میٹرو پولیٹن کارپوریشن، ضلع کونسل سمیت تمام سابق بلدیاتی حلقہ بندیوں کی حدود کو منجمد کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کیلئے 30جون تک تمام اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔ یکم جولائی سے حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلئے کمیٹیاں بنانے 22جولائی تک ابتدائی حلقہ بندیوں کی تشکیل اور 23جولائی کو ابتدائی فہرست کی اشاعت اور اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 22اگست تک حلقہ بندیوں پر اعتراضات نمٹانے جبکہ 29اگست تک حلقہ بندیوں کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ یکم ستمبر 2024ءتک پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست جاری ہو جائے گی۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے تک بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کیونکر ممکن ہیں جبکہ ابھی تک حکومت پنجاب نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ آئندہ انتخابات کس لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق ہونگے۔ 2022ءکا لوکل گورنمنٹ ایکٹ؟ یا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2024۔2022ءکا ایکٹ تو وہ آئین پاکستان کی بنیادی روح کے ہی منافی ہے۔ اور اس سے بلدیاتی ادارے اور ضلعی حکومتیں وجود میں نہیں آتیں۔ محض صوبائی حکومت کی کوئی ترقیاتی کمیٹی یا ذیلی کمیٹی وجود میں آتی ہے۔
27اپریل 2022ءکو وزیر اعلیٰ پنجاب نے 2022ءکے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم و اضافے یا نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2024ءکیلئے سفارشات مرتب کرنے کیلئے صوبائی وزیر بلدیات کی نگرانی میں 21رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔جس نے ابھی تک اپنی کوئی رپورٹ نہیں دی ہے۔
اس لئے میں محترم چیف الیکشن کمشنر کی توجہ اس طرف مبذول کراؤں گا کہ کسی بھی بلدیاتی ایکٹ یا قانون کی عدم موجودگی میں حلقہ بندیاں کیسے ہونگی جب تک یہ طے نہیں ہوتا کہ پنجاب میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن 9ہونگی یا 11، یا کچھ اور۔ یونین کونسل 15ہزار کی آبادی پر بنے گی یا 20ہزار کی آبادی پر۔ یونین کونسلوں کی تعداد 4015ہو گی یا کم و بیش؟ لاہور میں یونین کونسلوں کی تعداد 400ہو گی یا 600۔ کیا میونسپل کمیٹی 50ہزار سے دو لاکھ کی آبادی پر بنے گی اور ان کی تعداد کتنی ہو گی؟م یونسپل کارپوریشن 2سے 5لاکھ پر بنے گی یا کم و بیش۔ نیز ان کی تعدا د کتنی ہو گی۔ اور کن اضلاع میں ہو گی۔ اسی طرح مردم شماری کیلئے بنیاد کون سی ہوگی۔یہ سارے موضوعات تو حلقہ بندیوں سے متعلق ہیں۔
انتخابات کے شفاف، غیر جانبدارانہ انعقاد کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں سے پہلے حکومت پنجاب کو مجبور کرے کہ وہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی بابت فوری اور یقینی پیش رفت کرے۔
حکومت پنجاب نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022کو ترتیب دیتے ہوئے دو اہداف مقرر کئے تھے۔ (1)۔ سرکاری پارٹی کے اراکین کی یقینی کامیابی کیسے ممکن ہو۔ (2)۔ اختیارات ہر صورت صرف وزیر اعلیٰ کے پاس رہیں۔ نیچے قطعا ً منتقل نہ ہو سکیں۔ ان مقاصد میں حکومت پنجاب یقیناً کامیاب رہی۔ اب بھی 21رکنی کمیٹی کی تگ و دو ان اہداف کے ارد گرد ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2017،2019۔2020،2021میں اور انتخابی قوانین و قواعد کیلئے مختلف مسودے تیار ہوئے ان سب کو اپنی کامیابیوں کو یقینی بنانے کیلئے تیار کیا گیا۔
جماعت اسلامی پاکستان الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتی ہے کہ
1۔شفاف غیر جانبدارانہ حلقہ بندیوں کے تعین کو اولیت دی جائے۔ اس مقصد کے لئے حلقہ بندیوں کے قوانین کی مکمل پابندی کی جائے۔
2۔تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کو یقینی بنایا جائے۔ 3۔حلقہ بندیوں کی ابتدائی تجاویز کو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر مشتہر کیا جائے۔
4۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022ءمیں ترامیم ہوں گی یا نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ2024 لایا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں تمام اسٹیک ہولڈر ز اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کو یقینی بنایا جائے۔ 5۔پنجاب اسمبلی میں اس پر کھلی بحث کرائی جائے۔
6۔ ہم انتخابات کو مختلف حیلے بہانوں سے ملتوی یا زیادہ سے زیادہ مؤ خر کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انتخابات اکتوبر کے اواخر یا نومبر اوائل میں منعقد کرا دیئے جائیں۔ بلدیاتی اداروں کی مدت 4سال یا 5سال نیز شو آف ہینڈیا خفیہ رائے شماری وغیرہ جیسے موضوعات پر وسیع مشاورت کی ضرورت ہے۔
(صاحب تحریر انتخابی کمیٹی جماعت اسلامی پاکستان کے صدر ہیں)