1962ءماہِ جون میں پاکستانی سائنسدانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ رہبر اول خلا میں روانہ کیا تھا اور اب پاکستان نے بالائی فضا کے بعد باقاعدہ خلا میں بھی قدم رکھ دیئے ہیں۔ پاکستانی خلائی مشن آئی کیوب قمر سے تصاویر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پہل آئی کیوب قمر نے چاند اور سورج کی جو تصاویر بھیجیں وہ موصول شدہ تصاویر نیشنل اسپیس ایجنسی آف چین نے ایک پروقار تقریب کے دوران پاکستانی ایمبیسڈر کے حوالے کی گئی۔
یہ تصاویر چیئرمین سپارکو کو بھی بھیج دی گئیں ہیں ، تصاویر چاند سے صرف دو سو کلو میٹر دوری سے کھینچی گئی ہیں۔ پاکستان نے سات کلو گرام وزنی آئی کیوب قمر 3، مئی کو نو بجکر ستائیس منٹ( UTC) پر چین کے تعاون سے خلاء میں روانہ کیا جو کہ 8، مئی کو آٹھ بج کر چودہ منٹ(UTC) پر چاند کے مدار میں پہنچا، روانگی کے ساتویں دن اس نے تصاویر بھیجیں، سپارکو کے مطابق آئی کیوب قمر کے سگنلز تین لاکھ ساٹھ ہزار کلو میٹر سے لے کر چار لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے زمین پر موصول ہورہے ہیں۔
یہ مشن تقریباً تین سے چھ ماہ تک چاند کے مدار میں رہے گا اور روزانہ چوبیس گھنٹے میں چاند کے گرد بارہ بارہ گھنٹوں پر مشتمل دو چکر کاٹے گا۔ چاند کی جنوبی قطب وہ حصہ ہے جو زمین سے نظر نہیں آتا۔ نیز اس حصے پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ اس میں چاند کی جنوبی قطب کے مشاہدے اور تحقیق کے لئے دو کیمرے اور سینسرز اور سولر بیٹریاں لگی ہوئی ہیں۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کی درست مدت تین ماہ سات دن آٹھ گھنٹے اور سینتیس منٹ تک ہے۔ لہٰذا یہ اس متعین مدت تک چاند کی سطح پر چٹانوں اور مختلف تبدیلیوں کا مشاہدہ کرکے تازہ ترین مواد پاکستان بھیجتا رہے گا۔ یہ مشن چین کے ہینان اسپیس لانچ سائٹ سے خلاء میں بھیجا گیا ہے۔ آئی کیوب قمر کا ڈیزائن اور ڈویلپمنٹ چائنا اور سپارکو کے اشتراک سے تیار کیا گیا۔
آئی کیوب دراصل ایک خلائی سائنس کی اصطلاح ہے، جس کا مقصد چھوٹا سیٹلائٹ ہوتا ہے اور پاکستان نے پہلی بار اس طرح کے سیٹلائٹ ایک دہائی قبل 2013ء میں بنائے تھے اور اب پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار چھوٹے سیٹلائٹ کو چاند کے مشن پر روانہ کیا ہے۔ یہ خلائی مشن پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس مشن کو ایک ٹیسٹ کیس سمجھیں جس میں ٹیکنالوجی کا ٹیسٹ ہوا ہے۔ پاکستان کے اس انتہائی کم لاگت مشن کے مقابلے میں ناسا کے آرٹیمس ون مشن اور انڈیا کے چندریان 3 مشن سیکڑوں گنا زیادہ لاگت کے ہیں۔ ان کے مقابلے میں آئی کیوب قمرانتہائی سستا ہے اور اس سے موصول شدہ تصاویر سے پتا چل گیا ہے کہ سیٹلائٹ بالکل ٹھیک کام کررہا ہے، اس کا مواصلات کا نظام بالکل ٹھیک ہے، اس کے کیمرے بالکل ٹھیک ہیں۔
سائنسدانوں اور طلباء کی محنت رنگ لائی ہے اور یہ کامیابی مستقبل میں بڑے اسپیس پروگرام کی جانب اہم قدم ثابت ہوگی۔ جوہری میدان کی طرح اب خلائی میدان میں بھی ہمارے سائنسدان، انجینئرز اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
آٹھ ممالک میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا جانا ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین کی قابلیت کا اعتراف ہے اور یہ تکنیکی ترقی کے سفر کا بہت تاریخی لمحہ ہے، اس اہم کامیابی سے پاکستان خلا کے بامقصد استعمال کے نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ کامیابی سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے شعبے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو بڑھائے گی، سائنسی تحقیق، اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرے گی۔
اب پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو چاند تک پہنچ چکے ہیں فی الحال ہائی ریزولوشن کیمرے اس سیٹلائٹ میں اس وجہ سے شامل نہیں کئے گئے، کیوںکہ مخصوص وزن (سات کلو گرام) کے اندر رہتے ہوئے یہ سیٹلائٹ بنانی تھی۔ اگر اس میں ہائر ریزولوشن کیمرے شامل کرتے تو ایک تو پاور سورس بڑھانا پڑتا، جس وجہ سے سولر پینل، بجلی کنٹرول کرنے والے آلات اور بیٹریوں میں اضافہ ہوجاتا، ان سب کی وجہ سے سیٹلائٹ کا وزن بڑھ جاتا ہے۔
خلائی مشن میں ایک ایک گرام بہت سوچ سمجھ کر اور کیلکولیٹ کرکے شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش آتا کہ اس مشن کو زیادہ سے زیادہ جو کمیونیکیشن اسپیڈ دی گئی ہے، وہ 1 kb فی سیکنڈ ہے تو اتنی کم کمیونیکیشن اسپیڈ کے اندر ایک میگا پکسل والے کیمروں کی امیجز ہی بروقت وصول ہوسکتی ہیں۔
اگر ہائر ریزولوشن کیمروں کے ذریعے امیجز لئے جاتے تو اس کمیونیکیشن اسپیڈ میں کئی کئی دن ایک امیج وصول کرنے میں لگ جاتے ہیں، یہ مشن پہلے ہی مختصر مدت پر محیط ہے، ایک امیج پر کئی کئی دن لگا دینے سے یہاں سے کمانڈز بھیجنے اور دیگر ڈیٹا کے وصول میں دشواری ہوتی، جس سے مشن کی مجموعی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔
لہٰذا کیمروں کی کوالٹی مشن کے حساب سے رکھنی پڑتی ہے، ایک مخصوص ماحول میں رہ کر ہر چیز نصب کرنی پڑتی ہے۔ اگر وزن اور کم ا سپیڈ کا مسئلہ نہ ہوتا تو پھر ہائر ریزولوشن کیمرے بھی ساتھ بھیج سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ابھی یہ شروعاتی امیجز ہیں لیکن یہ وقت کے ساتھ ساتھ جیسے چاند کے نزدیک جائے گا اور جنوبی قطب کے نزدیک کے امیجز لے گا تو امیجز کوالٹی بہتر ہوجائے گی۔
چینگ 6 چاند مشن چاند کے جنوبی حصے میں لینڈ بھی کرے گا نیز وہاں سے سیمپل جمع کرکے زمین پر بھی لوٹے گا۔ چاند کے جنوبی قطب کے آس پاس مستقبل میں انسانی کالونیاں بنائی جائیں گی جس وجہ سے اس مشن سے ملنے والا ڈیٹا کافی اہم ہوگا۔ 2019ء میں چین نے مشن ترتیب دیتے ہوئے کچھ ممالک کو آفر کی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو دس کلو گرام تک کے اپنے سائنسی آلات مفت میں اس مشن کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔ اس آفر کا فرانس، اٹلی، سویڈن اور پاکستان نے بروقت جواب دیا اور یہ آلات اب اس مشن کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی ’’آئی کیوب کیو‘‘ سیٹلائٹ بھی ان میں سے ایک ہے۔
اس کے نام میں ’’آئی کیوب‘‘ سیٹلائٹ کی قسم ہے جب کہ ’’کیو‘‘ کا مطلب ’’قمر‘‘ ہے۔ واضح رہے کہ آئی کیوب سیٹلائٹس کی انتہائی چھوٹی قسم ہوتی ہے، جن کا سائز جوتے کے ڈبے جتنا ہوتا ہے، اس پر کیمروں سمیت مختلف سینسرز لگے ہوتے ہیں جو رئیل ٹائم ڈیٹا بھیجتے رہتے ہیں۔ چینگ 6 خلائی گاڑی کی چاند پر لینڈ کے دوران زمین سے مسلسل رابطہ قائم رکھوانے کے لئے ایک چینی سیٹلائٹ (آربٹر) چاند کے مدار میں موجود رہے گا۔
’’آئی کیوب کیو‘‘ کو بھی اسی آربٹر سے الگ کرکے چاند کے مدار میں چھوڑا جائے گا جہاں یہ نوے دنوں تک ایکٹو رہے گا، اس سیٹلائٹ کو اسلام آباد میں موجودا سپیس انسٹیٹیوٹ کے کنٹرول سینٹر سے کنٹرول کیا جارہا ہوگا۔ یہ سیٹلائیٹ چاند کی سطح کی تصاویر کے ساتھ ساتھ چاند کے انتہائی لطیف مقناطیسی میدان کو ماپنے کی بھی کوشش کرے گی۔
خلائی مشن کے دوران ایک ایک گرام کو سوچ سمجھ کر مشن کا حصہ بنایا جاتاہے، کیوںکہ اس سے مشن کے اخراجات کافی بڑھ جاتے ہیں، اس کے باوجود چین کی جانب سے دیگر ممالک کے سائنسی آلات مفت میں لے جانا بہت احسن اقدام ہے جس کی پذیرائی یقینا ًکرنی چاہیے۔ سپارکو ماضی میں بہترین اسپیس ایجنسی رہی ہے اور ملک و قوم نوید مستقبل کی بھی اس پاکستانی خلائی تحقیقاتی ادارے سے بہت سی اُمیدیں رکھتے ہیں۔
مزید خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان نے آئی کیوب قمر کی کامیاب لانچنگ کے بعد پاکستان کا دوسرا کمیونیکیشن سیٹلائٹ پاک سیٹ ایم ایم ون بھی خلا میں لانچ کردیا ہے، سیٹلائٹ ای کامرس، ای گورننس اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سیٹلائٹ چین کے شی چانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا۔ پانچ ٹن وزنی سیٹلائٹ جدید ترین مواصلاتی آلات سے لیس ہے۔ ترجمان سپارکو کے مطابق سیٹلائٹ سے پاکستان کے طول و عرض میں تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جاسکے گی۔
سیٹلائٹ زمین سے 36000 کلومیٹر کی اونچائی پر خلا میں داخل کیا جائے گا۔ اس کو زمین سے خلا تک پہنچنے میں تین سے چار روز لگ سکتے ہیں۔ سیٹلائٹ ای کامرس، ای گورننس اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ایم ایم ون سیٹلائٹ سپارکو اور چائنیز ایرواسپیس انڈسٹری کے اشتراک سے بنایا گیا ہے، پاک سیٹ ایم ایم ون، 15 برس تک کام کرے گا، پاک سیٹ ایم ایم ون ٹی وی نشریات، سیلولر فون اور براڈ بینڈ سروس بہتر بنانے میں مدد دے گا۔
جدید ترین مواصلاتی نظام کی تشکیل میں رہنمائی کرے گا۔ ٹیلی کام سیکٹر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ فائیو جی اور انٹرنیٹ کی بہتر دستیابی کو یہ سیٹلائٹ یقینی بنائے گا۔