2020 میں، کیمسٹری کا نوبل انعام مشترکہ طور پر دو خواتین، ایمینیول چارپنٹیر اور جینفر ڈوڈنا کو "Crispr-Cas9" پر ان کے کام کیلئے دیا گیا، یہDNAمیں ترمیم کاایک طر یقہ ہے، جبکہ DNAخود زندگی کی تخلیق کا خاکہ(بلیو پرنٹ) ہے۔ اس طرح ڈاکٹر چارپینٹیر اور ڈاکٹر ڈوڈنا کیمیا کا نوبل انعام جیتنے والی تاریخ کی چھٹی اور ساتویں خواتین بن گئیں۔ یہ دریافت ان کی بیکٹیریائی دفاعی نظام کے بارے میں تحقیقات کے نتیجے میںسامنے آئی ہے۔ اسے جرثوموں، پودوں، جانوروں حتیٰ کہ انسانوں میں جینیات کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے یا ڈھالنے کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ CRISPR-Cas9 ایک حیرت انگیز دریافت ہے جو اب بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے تبدیلی لا رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے سائنس دان عیب دار جینز کی ترمیم کرکے جینیاتی بیماریوں سے نمٹنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن تب یہ تکنیک دریافت نہیں ہو ئی تھی۔حال ہی میں جامعہ کراچی میں قائم ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالمیاتی طب و ادویاتی تحقیق کے جمیل الرحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق میں منعقدہ ایک ہفتہ کی حالیہ تربیتی ورکشاپ میںاس تیزی سے ابھرتے ہوئے میدان کی بے شمار اطلاقیات پر روشنی ڈالی گئی۔
نومبر 2023ءمیں، جین ترمیم تکنیک نے برطانیہ میں سکل سیل انیمیا اور بیٹا تھیلی سیمیاکے علاج کیلئے اپنی پہلی طبی منظوری حاصل کی، جو کہ اس تکنیک کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ خون کی یہ سنگین خرابی کسی ایک جینیاتی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے جو خون کے خلیوں کی ساخت کو بگاڑ دیتی ہے اور ان کی آکسیجن پہنچانے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے۔ چند ہفتوں بعد، امریکہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی سکل سیل انیمیا کیلئے اس نئی جین تھراپی کو منظوری دے دی۔
CRISPR کے میدان میں ایک اور دلچسپ، متعلقہ ترقی مصنوعی ذہانت کےساتھ ملاپ ہے۔ آرکٹک (Arctic) کے ساحلوں سے لے کر بارانی جنگلات تک AI کے ذریعے بیکٹیریا میں سیکڑوں ممکنہ CRISPR جینیاتی مواد اور مختلف قسمیں دریافت ہوئی ہیں جو انسانی جینوم کی تدوین کیلئے مؤثر ہیں۔ CRISPR جیسے طریقہ کار کو بعض دیگر جانداروں بشمول پھپھوندی اور کچھ جانوروں میں فعال پایا گیا ہے۔ انہیں "Fanzors" کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ جین تھراپی کے افق کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب صحت کی دیکھ بھال اور بیماریوں کی تشخیص میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ AI الگورتھم طبی تصاویر کا تجزیہ کر سکتے ہیں، پیچیدہ معلومات کی تشریح کر سکتے ہیں، اور زیادہ باخبر فیصلے کرنے میں صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف تشخیصی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بر وقت علاج معالجےمیں بھی مدد ملتی ہے، نتیجتاً مریض جلد صحت یاب ہوتا ہے۔ جینیاتی ترمیمی گروہ بھی اب سرطان کے نئے اور مؤثر علاج کیلئے امیونولوجسٹ کے ساتھ لشکر میں شامل ہو رہے ہیں۔ان نئی دریافتوں کی بدولت سائنسی حلقوں میں بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے کیونکہ اب بہت سی لاعلاج بیماریوں کا علاج ممکن نظر آرہا ہے۔ بائیوٹیکنالوجی کو لازوال جوانی یا عمر کی تلاش میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے... عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرنے یا اس کو واپس پلٹنے کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جامعہ EötvösLorándکے سائنسدانوں ڈاکٹرایڈم سٹرم اور ڈاکٹر تائبر ویلائی نے یہ معلوم کرنے میں ایک نئی پیش رفت کی ہے کہ عمر کے ساتھ بزرگی کی وجہ کیا ہے انہوں نے معلوم کیا ہے کہ ہمارے DNA میں ایک اہم عنصر کچھ حرکت پذیر پرزے ہیں۔ عمر بڑھنے کا عمل ان کی حرکات کو کس طرح کنٹرول کرتا ہے اس سے سیکھتے ہوئے، وہ بعض کیڑوں کی اوسط عمر کو بڑھانے میں کامیاب ہو گئے، اور انسانی زندگی کے دورانیے کو بڑھانے کا ایک نیا طریقہ بھی دریافت کر لیا۔
اب توانائی کے شعبے کی جانب رخ کرتے ہیں، اس اہم شعبہ میں نئی پیش رفت جدت طرازبیٹری کی نئی ٹیکنالوجیاں ہیں۔ یہ بیٹریاں برقی گاڑیوں (EVs) کو طاقت دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور اس شعبے میں جاری تحقیق اور جدت طرازی نقل و حمل کے مستقبل کیلئے نئے امکانات کی راہیں ہموار کر رہی ہیں۔ اگر چہ لیتھیم آئن بیٹریوں نے برقی گاڑیوں کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، لیکن اب سوڈیم آئن بیٹریاں ایک ممکنہ متبادل کے طور پر ابھر رہی ہیں۔ سوڈیم لیتھیم کے مقابلے میں زیادہ وافر مقدار میں دستیاب ہے اور سرمایہ داروں کیلئے زیادہ منافع بخش ہے، اس کے علاوہ سوڈیم آئن بیٹریوں کا باقاعدہ استعمال برقی گاڑیوں کو زیادہ سستی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میدان میں سب سے زیادہ امید افزا حالیہ ترقی سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں کی ہے۔سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں زیادہ توانائی کی حامل ہوتی ہیں، جس سے وہ چھوٹی جگہ میں زیادہ توانائی ذخیرہ کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال سب سے زیادہ دلچسپ پیش رفت جوہری ملاپ کے ذریعے صاف توانائی پیدا کرنے کیلئے ٹیکنالوجیوں میں ہوئی، یہ وہ عمل جسکے ذریعے ہمارا سورج اور دوسرے ستارے توانائی پیدا کرتے ہیں۔ امریکہ میں لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری کے سائنسدان Fusion Ignitionمیں کامیاب ہوئےاور، پہلی بار جوہری ملاپ کے عمل سے خالص توانائی حاصل کی گئی۔
پاکستان کو ان تیزی سے ترقی پذیر شعبوں میں تعلیم اور تحقیق میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ یہ شعبے ہمارے سیارے کی زندگی کا رخ بدلنے کے ضامن ہیں۔ لہٰذا انجینئرنگ کی مہارتوں پر بنیادی توجہ کے ساتھ بزنس یونیورسٹیز کے قیام میں سرمایہ کاری شامل ہونی چاہئے۔ اس طرح کی کاروباری جامعہ کی ایک کامیاب مثالPak Austrian Fachhochschule in Haripur, Hazara ہے جس میں ایک مکمل انجینئرنگ جامعہ اور تجارتی مصنوعات کی ترقی کیلئے ایک ٹیکنالوجی پارک بھی موجود ہے۔ یہ منفرد ادارہ میری نگرانی میں ہری پور ہزارہ میں قائم کیا گیا ہے۔ اس میں آسٹریا، جرمنی اور چین کی 9غیر ملکی انجینئرنگ جامعات بطور پارٹنر ہیں،اور ہر ایک تفویض کردہ شعبوں میں تدریس اور تحقیق کی معاونت کرتی ہے۔ میں سمبڑیال، سیالکوٹ میں بھی اسی طرح کی ایک اور جامعہ کے قیام کی نگرانی کر رہا ہوں۔ ہندوستان پہلے ہی 23انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کر چکا ہے جو ہندوستان کی معیشت پر تبدیلی کے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دیگر صوبوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان کو بھی ایسی مخلوط کاروباری انجینئرنگ جامعات قائم کرنے کیلئے آگے آنا چاہیے تاکہ پاکستان زراعت، صنعت اور دفاع میں تکنیکی برتری کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔