دنیا اور پیٹ کا نقشہ گول اس لیے ہے کہ دونوں میں یاری چاند سورج کی طرح ہے۔ جس دن سورج بے نور ہوگیا تو چاند اپنی رعنائی خود بخود کھو بیٹھے گا۔ایسے ہی دنیا سے پیٹ کو نکال کر دیکھیں تو پیچھے بے مقصد کھلونا ہی بچے گا۔ قدرت کا نظام بڑا عجیب ہے۔لوگ روٹی بیچ کر روٹی کماتے ہیں۔ قدرت کا لطف یہ کہ جب روٹی حلال طریقے سے بیچی و کمائی جائے تو یہ عین عبادت ہے۔ سچا تاجر پروردگار کا ہمسایہ ہے۔ ہمسایہ دوست ہوتا ہے۔ اب خدا کے دوستوں نے ڈیرے مسجدوں اور خانقاہوں میں لگا رکھے ہیں۔ وہ خلقت کی خدمت سے اور خلقت ان کے فیض سے بے فیض ہیں۔ تلاش بسیار کے بعد کبھی بازار میں بیٹھا کوئی خدا کا دوست مل جائے تو قدر کیجئے، حوصلہ لیجیے کہ قرب قیامت کی اس باد سموم کے تیز جھونکوں میں اس نے ایمان کا دیپ سر راہ جلا رکھا ہے۔ کراچی کے علاقے احسن آباد سیکٹر فور میں ایک پکوان کے مالک سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ بازار میں خدا کے دوست ابھی باقی ہیں۔ان کی خاص پہچان ایمانداری و سچائی ہے۔اقبال نے کہا تھا کہ سیاست سے دین کو الگ کیا جائے تو پیچھے فقط چنگیزی بچتی ہے۔ایسے ہی ایمانداری و سچائی کو اگر تجارت سے نکال لیا جائے تو پیچھے ابلیس ہی بچتا ہے۔ اس وقت کراچی کی 10 مشہور ڈشوں میں سے ایک بریانی ہے۔ پھر بریانی کی بھی ایک درجن سے زائد قسمیں ہیں۔ایک سروے کے مطابق کراچی والے بریانی سب سے زیادہ کھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گلی محلے میں بریانی کے ہزاروں پکوان سینٹرز کھلے ہوئے ہیں۔ ہر وقت دھڑا دھڑ بریانی فروخت ہو رہی ہے۔ کسی بھی معیاری بریانی سینٹر کے سامنے کھڑے ہو جائیں، اتنا رش ہوتا ہے کہ جیسے فری اور مفت میں بٹ رہی ہو۔ گزشتہ دنوں ایک پکوان پر دعوت تھی۔ جب دعوت محبت بھری و پرتکلف ہو تو جسم و روح کے سبھی در وا ہو جاتے ہیں۔یہاں بھی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع تھیں۔بریانی و پلائو کی مختلف اقسام مہک رہی تھیں اور ہم نے پوری تپاک جان سے دعوت کا حق ادا کیا۔ اسی دوران بھائی عبد الوحید نے بتایا کہ اب انہوں نے پنجاب کے علاقے پیر محل میں بھی شاخ کھولی ہے۔ پیر محل کے اس سینٹر کو اب بھائی عبداللہ ساجد صاحب دیکھ رہے۔ان دونوں بھائیوں کا ہدف ہے کہ معیار و مقدار پر سمجھوتا کیے بغیر کاروبار کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ہماری دعا ہے کہ ایسے ایماندار تاجروں کو خدا ترقیاں عطا فرمائے۔ کیونکہ یہی دیپ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ان کی خدمات، اہداف اور مستقبل کے منصوبے سن کر بہت خوشی ہوئی۔ انسان کوشش کا مکلف ہے۔ ہر انسان کو اس کی محنت کے بقدر ہی ملتا ہے۔ اس داستان میں کچھ کرنے والے نوجوانوں کے لیے کئی سبق اور کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔قارئین پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ دنیا میں 4 کاروبار ایسے ہیں جو باواآ دم سے شرع ہوئے ہیں اور قیامت کے دن تک رہیں گے۔ یہ کبھی دنیا سے ختم نہیں ہوں گے۔ یہ ہر شخص کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ نمبر 1: کپڑے کا کاروبار۔ نمبر 2: تعمیرات کا کاروبار۔ نمبر 3: علاج معالجے کا کاروبار۔ نمبر 4: کھانے پینے کا کاروبار۔ پھر ان چاروں کاروبار میں سے ہر کاروبار اپنی بیسیوں شاخیں رکھتا ہے۔ یہ چار بنیادی شعبے ہیں۔ ہر ایک شعبے کے درجنوں ذیلی ادارے ہیں۔ اس وقت ہم بات کر رہے ہیں صرف کھانے پینے کے کاروبار کی۔کھانا ہر شخص جاندار کی اولین بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی ذی روح زندہ اور باقی نہیں رہ سکتا۔ کھانے پینے کی اقسام اور چیزوں میں دن بدن اضافہ، ترقی اور جدت ہی آتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے 248 ممالک میں بسنے والی سینکڑوں قومیں، نسلیں اور جانیں ہیں۔ ہر ایک کی خوراک مختلف ہے۔ مثال کے طور پر آپ صرف پاکستان کے شہر کراچی ہی کو لے لیں۔ کراچی کی 2کروڑ آبادی ہے۔ پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان، سرائیکی، کشمیری، ہندکو، میواتی، بنگالی اور نجانے کون کون سی قومیں، ذاتیں اور نسلیں رہائش پذیر ہیں۔ ہر قوم، خاندان، قبیلے اور رنگ و نسل کے لوگ مختلف اور متفرق غذا کی ڈشیں کھاتے ہیں۔ جب تک دنیا ہے انسان رہے گا۔جب تک انسان ہے کھانا اس کی پہلی بنیادی ضرورت بنا رہے گا۔نئی جنریشن کو نت نئے کھانوں کی عادت دن بدن بڑھتی جائے گی۔یوں کھانے پینے کا یہ کاروبار وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا۔جو شخص بھی نئی مہارت اور ذائقوں کے ساتھ اس کاروبار میں آئے گا وہ چھا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)