• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آج پھر فاخر ابھی تک نہیں آئے۔ گیارہ بج گئے ہیں رات کے۔ بچّے بھی سوگئے، آخر کب تک انتظار کریں باپ کا۔ صبح اسکول بھی جانا ہوتا ہے۔ پتا نہیں، یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ مَیں تو تھک گئی ہوں، تنگ آگئی ہوں۔ حد ہوتی ہے، روز وہیں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔‘‘مہ جبیں کا جیسے خُون کھول رہا تھا۔

دروازے کی بیل ہوئی۔’’ آگئے، آخرکار صاحب بہادر۔‘‘دل توچاہا، دروازہ ہی نہ کھولے، لیکن یہ مناسب نہیں تھا۔ فاخر تھکا ہوا بیڈ پردراز ہو گیا۔ اُس کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔ ’’کھانا کھائیں گے…؟‘‘ ’’ہاں، بچّے سوگئے…؟‘‘ ’’ہاں، صبح اسکول جانا ہوتا ہے۔‘‘’’مَیں کپڑے بدلتا ہوں، تم کھانا لگادو۔‘‘

فاخر ایک ذمّے دار شوہر اور محبّت کرنے والا باپ تھا۔ بیوی، بچّوں پر جان چھڑکنے والا، خیال رکھنے والا۔ ضرورت سے بڑھ کر خرچ کرتا۔ بچّوں کو وقت دیتا۔ اُسے فاخر سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ بس، یہ پچھلے دو ماہ کی کہانی تھی۔ فاخر ہر وقت نادرہ باجی کے گھر پایا جاتا۔ آفس سے اکثر سیدھا وہیں چلا جاتا۔ گھر رات دیر سے آتا۔ کبھی کبھی تو بچّے فاخر کے آنے سے پہلے ہی سوچُکے ہوتے۔ مہ جبیں کو بہت غصّہ آتا۔ فاخر چُپ چُپ رہنے لگا تھا۔ بات کرتا بھی تو کھویا کھویا رہتا۔ 

بیٹھے بیٹھے چونک جاتا۔ ’’ایسی بھی کیا پریشانی ہے۔ اتنا کیوں سوچتے ہیں۔ سب تو دیکھ رہے ہیں نادرہ باجی کو۔ اُن کے شوہر ہیں، جوان بچّے، بہوئیں ہیں۔ آپ کا وہاں روز جاناضروری ہے۔‘‘ ’’کیا کروں مہ جبیں! دل نہیں مانتا۔ نادرہ باجی میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ مَیں اُن کا بہت لاڈلا تھا۔ وہ میرا یونی یفارم استری کرکے رکھتیں۔ میرا ہوم ورک کرواتیں۔ 

میرا اسکول، کالج، میرا کیریئر سب نادرہ باجی کی وجہ سے ایسا excellentرہا۔ اب مجھ سے اُن کی بیماری دیکھی نہیں جاتی۔ وہ مجھے دیکھ کر جی اُٹھتی ہیں۔ سب اُن کے چاروں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔ مَیں جاتا ہوں، لگتا ہے، اُن میں جان پڑ گئی۔‘‘ مہ جبیں ٹھنڈی پڑ گئی۔ ’’ہاں، صحیح کہہ رہے ہیں۔ 

باجی آپ سے بہت محبّت کرتی ہیں۔ مجھے بھی تو انہوں نے ہی آپ کے لیے پسند کیا تھا۔‘‘ فاخر اُس کی اس بات پر خُوش ہو گیا۔ زیرِلب مُسکرایا۔ ’’ہاں، اور مجھے اُن کی پسند پر بھروسا تھا۔ مجھے پتا تھا، وہ میرے لیے بہترین لڑکی ڈھونڈیں گی۔ انہوں نے پوچھا بھی، تو مَیں نے یہی کہا، جسے آپ پسند کریں گی، وہی میری پسند ہوگی۔‘‘ مہ جبیں بھی مُسکرائی۔ لیکن بیوی تھی، پوچھے بغیرنہ رہ سکی۔ ’’اور خرچہ کون اُٹھا رہا ہے۔ بہت پیسے لگ رہے ہوں گے؟‘‘ خدشہ ہونٹوں پر آگیا تھا۔ فاخر اپنی ہی سوچ میں تھا۔ ’’اُن کے شوہر ہیں، بیٹے ہیں۔ شاکر بھائی بھی سعودیہ سے بھیج رہے ہیں۔ مَیں تو کبھی کبھار کوئی ٹیسٹ کروا دیتا ہوں۔ 

کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے جاتا ہوں۔ تم کل چلو گی ناں، کل بچّوں کی بھی چُھٹی ہے۔ تمہارے ہاتھ کا دلیا اُنہیں اچھا لگتا ہے، بنا لینا۔‘‘ نہ جانے اتنی گھٹن کیوں مہ جبیں کے دل میں بَھرگئی تھی۔ دبے لفظوں میں منع کر دیا۔ ’’چُھٹی والے دن اتنے کام ہوتے ہیں۔ آپ روز تو جاتےہیں۔ کل جانا ضروری ہے کیا…؟‘‘ فاخر چُپ رہا۔ وہ صلح جُو فطرت کا تھا۔ تلخی ویسے ہی بہت آگئی تھی دونوں کے درمیان۔ فاخر نےبات بڑھانی مناسب نہ سمجھی۔

لندن سے فون تھا۔ ارسلان، مہ جبیں کے بڑے بھائی کا۔ کتنے برس بیت گئے تھے۔ وہ میٹرک میں تھی، جب وہ لندن گئے تھے، اُسے خُوب چاکلیٹس بھیجتے۔ ڈھیر ساری خرچی بھجواتے۔ وہ خُوب خرچ کرتی، اپنی مرضی سے۔ اُن کی بھیجی چیزیں سہیلیوں کو فخر سےدکھاتی۔ ہر فون میں اس کےلیے اُن کاپیار امڈا پڑتا۔ ارسلان بھائی وہیں بیوی بچّوں کے ساتھ سیٹ تھے۔ اُس کی شادی خوب دھوم دھام سے کی۔ پوری فیملی کے ساتھ آئے۔ شادی کا ہر کام خُود کیا۔ آج ان کا فون آیا تھا۔ کبھی کبھی پیار سے وہ اُسے’’گڑیا‘‘ کہتے تھے۔’’گڑیا! ایک بات آرام سے سُننا۔ 

مجھے پانچ سال پہلے کینسر ڈائیگنوز ہوا تھا۔ مَیں نےکسی کو بتایا نہیں تھا۔ علاج چل رہا تھا۔ اب کافی بہتر ہوں۔ مَیں کچھ عرصے کے لیے پاکستان آنا چاہ رہا ہوں۔ سب کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے۔‘‘ اُس کا دل چاہا، وہ زور زور سے روئے۔ دل پھٹ رہا تھا۔ یہ کب اور کیسے ہوا، بھائی نے بتایا کیوں نہیں۔ ’’بھائی! آپ فوراً آجائیں۔ ہم سب ہیں یہاں۔ سب آپ کا خیال رکھیں گے۔‘‘’’میرا اپارٹمنٹ ہے، کرائے دار رہ رہے ہیں۔ مَیں وہ خالی کروا لوں گا، وہیں رہوں گا۔‘‘ ’’نہیں بھائی…!‘‘ مہ جبیں تڑپ اُٹھی۔ ’’بالکل نہیں۔ آپ میرے گھر رہیں گے۔ مَیں، میرے شوہر، میرے بچّے سب آپ کی خدمت کریں گے۔ آپ بالکل مت سوچیں۔ میرا گھر آپ کا گھر ہے۔‘‘ آنسو بَھری آنکھوں سے اُس نے فاخر کی طرف دیکھا۔ اپنے شیشۂ دل پر چوٹ لگی، تو فاخر کا دُکھ سمجھ آیا۔

’’اللہ! یہ خون کے رشتے وجود میں اترے ہوئے، ہرسانس سےجُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے، رگوں میں اِن کی محبّت لہو بن کر دوڑ رہی ہو۔ کوئی اپنے سگوں کو تکلیف میں اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہے…‘‘اُسے شدّت سے احساس ہوا کہ فاخر کا دل کیوں نادرہ باجی میں اٹکا رہتا ہے۔ اُس نے فاخر کی طرف پلٹ کر دیکھا اور اُس کا ہاتھ، دونوں ہاتھوں سے تھام کرپُھوٹ پُھوٹ کر رو دی۔