• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ورلڈ گیسٹرو انٹرولوجی آرگنائزیشن کے تحت’’ World Digestive Health Day ‘‘منایا گیا۔ اِس دن کی مناسبت سے لیاقت یونی ورسٹی اسپتال حیدرآباد/جام شورو کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی کے تحت ایک روزہ سمپوزیم، سِول اسپتال حیدرآباد کے نیو لیکچر ہال میں ہوا،جس کی صدارت گیسٹرو انٹرولوجی میں پاکستان کے پہلے پی ایچ ڈی، ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر اکرم باجوہ نے کی، جب کہ مہمانِ خصوصی ایم ایس سِول اسپتال، ڈاکٹر اعجاز عبّاسی تھے۔ اِس موقعے پر ماہرین نے نظامِ ہاضمہ کی صحت سے متعلق مقالات پیش کیے۔

عام مشاہدہ یہی ہے کہ ہم ذیابطیس، بلڈ پریشر اور دیگر امراض پر تو توجّہ دیتے ہیں، مگر نظامِ ہاضمہ کو یک سَر نظر انداز کرتے ہیں، حالاں کہ اِس وقت پاکستان میں تقریباً5کروڑ افراد ہاضمے سے متعلقہ امراض میں مبتلا ہیں اور یہ بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے نظامِ ہاضمہ کی صحت پر توجّہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہاضمے کا نظام بہتر ہوگا، تو ہماری صحت بھی بہتر رہے گی۔

نظامِ ہاضمہ کی تین اہم اور عام بیماریاں ہیں، جن میں قبض، بدہضمی اور گیسڑو سرِفہرست ہیں۔قبض(Constipation)سے دنیا کی15 فی صد بالغ آبادی متاثر ہے، جب کہ مَردوں کی نسبت خواتین میں اس کی شکایت عام ہے۔متاثرہ افراد عموماً سال ہا سال اپنے معالج سے قبض کو چُھپاتے ہیں، جس سے نظامِ ہاضمہ کی ایک اہم بیماری نظر انداز ہوجاتی ہے۔

تقریباً 80 فی صد افراد قبض کے علاج سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں اور اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ علاج کے ضمن میں عام طور پر گھریلو نسخوں پر انحصار کرتے ہیں یا پھر کسی میڈیکل اسٹور سے اپنے طور پر دوا لے کر اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یوں قبض کا علاج نہیں ہوپاتا، بلکہ اُلٹا نقصان ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ قبض سے چھٹکارے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کسی ماہر گیسٹرو فزیشن سے رجوع کیا جائے تاکہ مرض کی درست تشخیص ہوسکے اور پھر اُس کے علاج کی طرف بڑھا جائے۔ پانی کم پینا، خوراک میں فائبر(ریشے) کا نہ ہونا اور باقاعدگی سے ورزش نہ کرنا قبض کی اہم وجوہ ہیں، جب کہ آنتوں کی تکلیف یا دیگر امراض میں بھی قبض کی شکایت ہوسکتی ہے۔ 

قبض کی علامات میں ہفتے میں تین یا اس سے کم بار رفعِ حاجت ہونا، فضلہ سخت اور خشک ہونا، جسے ہم’’ ستّے‘‘ بھی کہتے ہیں، جسم کے نچلے حصّے میں بھاری پَن محسوس ہونا، بہت دیر تک یا زور لگانے سے رفعِ حاجت ہونا، پیٹ کے خالی نہ ہونے کا احساس، پیٹ میں درد یا Digital manipulation وغیرہ شامل ہیں۔ 

قبض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اپنی روزمرّہ خوراک میں ڈائیٹری فائبرز، یعنی ریشے دار خوراک( جس میں بھوسی کا آٹا بھی شامل ہے) استعمال کریں۔ ورزش کو معمول بنائیں اور وافر مقدارمیں پانی پیئں۔ جدید طب میں قبض کا بہترین علاج موجود ہے اور آج کل مارکیٹ میں قبض سے نجات کی ایک نئی دوا بھی متعارف کروائی گئی ہے، جسے’’ Prucalopride‘‘ کہتے ہیں۔

اِس دوا کے استعمال سے آنتوں کی حرکت معمول پر آجاتی ہے اور نتیجتاً قبض سے نجات مل جاتی ہے۔ بیش تر گیسٹرو انٹرو لوجسٹ اِس دوا کی افادیت سے مطمئن ہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ قبض ہو یا کوئی اور مرض، ذاتی طور پر ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر کوئی دوا ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہیے۔

بدہضمی (Dyspepsia) یعنی معدے اور نظامِ انہضام کی خرابی کی صُورت میں مریض کو پیٹ کے اوپری حصّے میں درد، پیٹ میں بھاری پَن، جی مالش ہونے کی شکایت، سینے میں جلن یا اُلٹیاں وغیرہ ہوسکتی ہیں۔ اگر پیٹ کے اوپری حصّے میں ایک ہفتے سے زائد درد ہو، تو فوراً اپنے معالج سے رجوع کریں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پیٹ کے درد کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اس کی تشخیص بے حد ضروری ہے۔

امراضِ معدہ کی خطرناک علامات میں منہ سے خون آنا، خون اور وزن میں کمی ہوجانا، مسلسل اُلٹیاں ہونا اور پیٹ میں رسولی کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے افراد جن کی عُمر60 سال یا اس سے زائد ہے اور وہ بدہضمی کے شکار ہیں، اُنھیں اینڈو اسکوپی تجویز کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بد ہضمی کی ایک بڑی وجہ ایچ پائلوری انفیکشن بھی ہے، جو گندگی، آلودہ پانی اور غیر معیاری خوراک کے استعمال سے پھیلتا ہے۔

پھر معدے یا آنتوں کا السر اور کھانے کی نالی میں سوزش بھی بدہضمی کی ایک اہم وجہ ہے۔ نیز، درد کُشا ادویہ Aspirin/Nsaid،آئرن سپلیمنٹ بھی قبض کا سبب بنتے ہیں۔ جب تک بدہضمی کی تشخیص نہ ہوجائے، اسے  ’’Uninvestigated Dyspepsia ‘‘لیبل کرتے ہیں۔ بدہضمی کی تشخیص کے لیے مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری لی جاتی ہے، خون کے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں اور اگر سب ٹیسٹ نارمل آئیں، تو پھر اینڈو اسکوپی کی طرف جایا جاتا ہے۔

واضح رہے، تقریباً 70 فی صد مریضوں میں اینڈو اسکوپی کی رپورٹ بھی نارمل ہی آتی ہے اور اِس کے لیے’’ Functional Dyspepsia‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔’’ Functional Dyspepsia‘‘ میں کوئی تشویش کی بات تو نہیں ہوتی، البتہ معمولاتِ زندگی ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ بدہضمی کی دوا اچانک بند نہیں کرنی چاہیے کہ اِس طرح علامات دوبارہ ظاہر ہونے لگتی ہیں، جنہیں’’ Rebound Symptom‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

بدہضمی کی صُورت میں سب سے پہلے ایچ پائلوری کی تشخیص کی جاتی ہے اور پھر علاج کی طرف بڑھا جاتا ہے، یوں بدہضمی کا کام یابی سے علاج ہوجاتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے مختلف ادویہ استعمال کی جاتی ہیں، جن میں TCA/Prokinetics/PPI شامل ہیں۔

یاد رہے، علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر بھی بے حد ضروری ہیں۔ متاثرہ فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لائے، سہل پسندی چھوڑے، مرچ مسالے دار غذائیں نہ کھائے، چکنائی والی غذائیں احتیاط سے استعمال کرے، ذہنی دباؤ کی حالت میں کھانا نہ کھائے، شراب، تمباکو نوشی سے مکمل پرہیز کرے اور گھریلو ٹوٹکوں، نسخوں سے بھی دُور رہے۔

نظامِ ہاضمہ کی ایک بہت عام بیماری، گرڈ(GERD) ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً5 کروڑ افراد اِس مرض کا شکار ہیں۔گرڈ کی اہم علامات میں سینے میں جلن، تیزابیت (یہ جلن عموماً کھانے کے 30سے 60منٹ بعد شروع ہوتی ہے) منہ میں کڑوا پانی آنا، منہ کا ذائقہ نمکین رہنا، خوراک نگلنے میں دشواری، کھٹّی ڈکاریں، سینے میں درد، کھانسی اور آواز میں بھاری پن، شامل ہیں۔ اِس مرض میں مبتلا افراد میں رات کے اوقات میں بے چینی، گھبراہٹ یا سینے میں جلن کی شکایت عام ہے۔

ہم عموماً رات کا کھانا دیر سے کھاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کھانا واپس منہ کے اندر آتا ہے، جو گرڈ کا سبب بن جاتا ہے۔ اِسے ’’Nocturnal Symptom‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ فربہی مائل یا موٹاپے میں مبتلا افراد میں گرڈ کےامکانات دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں اور اِسے ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بیماری رفتہ رفتہ خوراک کی نالی کو تنگ کردیتی ہے، جس کی وجہ سے کھانا پھنستا ہے اور آگے چل کر یہ مرض، خوراک کی نالی کا کینسر بھی بن سکتا ہے۔ لہٰذا، امراضِ معدہ سے بچاؤ کے لیے علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں۔

صحت مند زندگی گزاریں، رات کا کھانا پیٹ بَھر کر نہ کھائیں، کھانا سونے سے 2سے 3گھنٹے پہلے تناول فرمالیں۔ سوتے وقت سرہانہ تھوڑا اونچا رکھیں، چَٹ پٹی، مسالے دار غذائیں استعمال نہ کریں۔ چاکلیٹ، کافی، ٹماٹر یا ترش پھلوں کا استعمال کم کریں۔ دنیا بَھر کی حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے پارکس اور جاگنگ ٹریکس تعمیر کرتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ان کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔

نیز، شہری بھی عام طور پر فینسی جوتوں کی بجائے اسپورٹس شوز استعمال کریں، یہ بھی ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ ہوٹلز، فاسٹ فوڈز مراکز اور ریسٹورنٹس سے معیاری اور صحت بخش اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ جب کہ اِس ضمن میں معالجین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ عوام النّاس میں اچھی صحت کے اصول اجاگر کریں اور صرف معیاری ادویہ ہی تجویز کریں۔ (مضمون نگار، سِول اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئر میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)