سائنس کے مختلف شعبوں میں رونما ہونے والی حیرت انگیز دریافتیں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر مختلف اطوار سے اثرانداز ہورہی ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مواصلاتی نظام میں برپا انقلاب کے ہم سب گواہ ہیں۔ بالکل اسی طرح مادّی سائنس (material sciences) میں بھی شاندار انقلاب رونما ہوا ہے اگرچہ ہم میں سے اکثر ان پیشرفتوں سے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ ہوائی جہاز جن پر ہم سفر کرتے ہیں، وہ گاڑیاں جنہیں ہم چلاتے ہیں، سب میں بھاری بھر کم دھاتوں کی جگہ اب مزید مضبوط اور ہلکا مادّہ جو کہ کاربن فائبر اور نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے، استعمال کیا جا رہا ہے۔ میٹامٹیریل کی دریافت سے ہیری پوٹر کا...’غائب ہونے والا چوغہ‘ اب حقیقت بن چکا ہے کیونکہ یہ مادّہ روشنی کو اپنے سے پرے موڑ دیتا ہے لہٰذا جن چیزوں پر اس مادّے کو ڈالا جاتا ہے تو روشنی ان چیزوں پر پڑنے کے بجائے مڑ کر پرے ہوجاتی ہے اس طرح وہ چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ جینیات کی بدولت شعبہ زراعت میں بھی زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور خلیہ جزعیہ (stem cells)میں نئی دریافتیں طب کی نئی راہیں کھول رہی ہیں۔ بہت سے ممالک میں گزشتہ صدی سے حفظانِ صحت کے بہتر اصولوں اور نئی اور مؤثر دوائوں کی بدولت زندگی کا دورانیہ15-20 سال بڑھ گیا ہے۔ عمر رسیدگی کے عوامل کے بارے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی سمجھ بوجھ اور عمر لمبی کرنے والے اور بوڑھوں کو جوان بنانے والے مرکّبات (resveratrol, NAD) کی دریافت سے پہلے سے کہیں لمبی زندگی گزارنا ممکنات میں شامل ہو گیا ہے۔ نابینا افراد آج اپنی زبان کی مدد سے ایک آلے کی بدولت دیکھ سکتے ہیں جو کہ ایک امریکی کمپنی نے تجارتی بنیادوں پر تیار کیا ہے اور گاڑیوں کو محض سوچ کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی ڈھیر ساری حیرت انگیز دریافتوں کا ذکر میں نے اپنی حال ہی میں اشاعت کردہ کتاب "The Wondrous World of Science" (سائنس کی حیرت انگیز دنیا) میں کیا ہے جس کا ترجمہ چینی زبان میں بھی کیا گیا ہے۔ مرحوم نوبل لاریٹ Arthur Kornberg نے اٹلی میں ایک لیکچر کے دوران فرمایا تھا کہ اب وہ وقت چلا گیا ہے جب ’ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی تھی‘ اب تو ایجادات اس قدر تیزی سے رونما ہورہی ہیں کہ روزمرّہ کی ضرورت بن گئی ہیں۔
البتہ ان دریافتوں کی دنیا میں، قدرتی وسائل اپنی وقعت کھوتے جارہے ہیں۔ علم ہی سماجی و اقتصادی ترقی کا اہم عنصر ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے اپنے بچّوں کو اپنی ترقی کا راز سمجھ لیا ہے اور ان کی تعلیم، انجینئرنگ، سائنس و جدّت طرازی کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ سماجی و اقتصادی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اگر پاکستان بیرونی انحصار کے شکنجے سے باہر نکلنا چاہتا ہے اور دیگر اقوام کی صف میں باوقار طریقے سے کھڑا ہونا چاہتا ہے تو ہمیں ان 19سال سے کم عمر دس کروڑ نوجوانوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوگا جن کی آبادی ہماری کل آبادی کی 54% پر مشتمل ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تخلیقی صلاحیت سے مالا مال اس خزانے میں اعلیٰ و معیاری تعلیم کو اس طرح داخل کریں کہ ملک کم مالیتی زرعی معیشت سے منتقل ہو کر اعلیٰ مالیتی علم پر مبنی معیشت پر مشتمل ہو جائے مگر افسوس کہ پاکستان اپنی GDP کا صرف 1.9% تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ باوجود نئی حکومت کے وعدوں کے کہ تعلیم پر خاص توجہ دی جائے گی پاکستان کا شمار دنیا بھر میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے آٹھ ممالک میں ہوتا ہے۔ وسیع پیمانے پر ناخواندگی اور غربت جرائم اور تخریب کاری کو جنم دیتی ہے اور یہی کچھ ہے جو ہم بو اور کاٹ رہے ہیں۔
پاکستان کو علم پر مبنی دور میں داخل ہونے کا بڑا ہی عظیم موقع ہاتھ آیا تھا جب ایچ ای سی کا قیام ہوا تھا جو کہ براہِ راست وزیراعظم پاکستان کے اختیار میں تھا۔ 2003ء سے2008ء کے چھ سالہ دور میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے نے اس قدر شاندار ترقی کی اور اس مختصر وقت میں جامعات کی اس طرح کایا پلٹ دی کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ 22جولائی 2006ء کو بھارتی وزیراعظم کو پاکستان میں ایچ ای سی کے قیام سے رونما ہوئے اس شاندار انقلاب کی تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی ۔ اس پیشرفت کو بھارتی سائنسی قیادت کیلئے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا اور اس رپورٹ پر ایک مقالہ 23جولائی 2006ء ( بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘ ، نیہا مہتا، "Pak Threat to Indian Science") کو بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں ان اقدامات کا ذکر تھا جو پاکستان نے اپنی جامعات کو مضبوط کرنے کیلئے اور تحقیق کی ترویج کیلئے اٹھائے۔ بھارت نے پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور ایچ ای سی کے نقش پر نیشنل کمیشن فارہائیرایجوکیشن اینڈ ریسرچ قائم کرنے کا ارادہ کیا۔اس کمیشن کی بھارتی کابینہ سے منظوری ہو چکی ہے اور جلد ہی لوک سبھا میں منظوری کیلئے پیش کیا جائیگا۔جبکہ ادھر پاکستان کے دشمن اپنے کام سے لگے ہوئے تھے کہ کس طرح اس اچھے کام کو برباد کیا جائے، دراصل ہمیں بھیڑوں کے لبادے میں موجود ان بھیڑیوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو ہم میں موجود ہیں۔ ایک گھنائونی مہم سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم جن کی اپنی ڈگری جعلی تھی کی طرف سے چلائی گئی جس کا بھرپور ساتھ جعلی ڈگریوں کے حامل 200پارلیمانی ارکان نے دیا جسکے تحت ایچ ای سی کو توڑنے کی ہر ممکن کو ششیں کی گئیں۔ پی پی پی کی حکومت نے ایچ ای سی کو توڑنے کا پورا ارادہ بھی کر لیا تھا بلکہ ہدایت نامہ بھی جاری ہوگیا تھا لیکن مجھے دو مرتبہ سپریم کورٹ جانا پڑا یہ بتانے کیلئے کہ ایچ ای سی وفاقی ادارہ ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت اس کے حقوق محفوظ ہیں۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ہر ملک میں وفاق ہی کے زیرسایہ خدمات انجام دیتا ہے چاہے وہ بھارت ،کوریا، ترکی، برطانیہ یا کوئی دوسرا ملک ہو۔ یہ قومی مفاد اور معیار کی ہم آہنگی کے لئے ضروری ہے۔اسی لئے اٹھارہویں ترمیم کے تحت آئینی اصلاحاتی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے صریحاً فیصلہ دیا تھا کہ ثانوی تعلیمی معاملات صوبائی حکومتوں کی ذمّہ داری ہوں گے اور اعلیٰ تعلیمی معاملات کا چونکہ براہ راست تعلق قومی وابستگیوں اور قومی ترقی سے ہے لہٰذا انہیں وفاق کی سطح پر دیکھا جائے گا۔ یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کہ صوبوں کا اعلیٰ تعلیم میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بالکل بے معنی بات ہے۔ ایچ ای سی کی انتظامی باڈی میں تمام صوبوں کی نمائندگی ان کے صوبائی سیکریٹری یا پھر ان کے نمائندے کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر جو بھی پروجیکٹ منظور ہوتا ہے اس کی منظوری میں ان سیکریٹریوں کا طے شدہ رول ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے رکن کی حیثیت سے وزیراعظم کی جانب سے دیگر ماہرین کا انتخاب بھی صوبائی توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
بہت جانفشانی کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہم ایچ ای سی کو پر اعتماد ادارہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور بڑی مشکلوں کے بعد ایچ ای سی کی جاری کردہ ڈگریاں بین الاقوامی سطح پر مستند قرار پائی ہیں۔ ایچ ای سی کی تحلیل ہمیں دوبارہ پتھروں کے دور میں لے جائے گی اور پاکستانی ڈگریاں بیرونِ ممالک میں مستند نہیں قرار پائیں گی کیونکہ کوئی بھی مرکزی بین الاقوامی ادارہ ڈگری کو مستند قرار دینے کے لئے نہیں ہو گا۔ میری دائر کردہ پٹیشن کے جواب میں سپریم کورٹ نے واضح فیصلہ دے دیا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن بطور وفاق کا حصہ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے تحت محفوظ ہے اور اس کی وفاقی حیثیت میں کوئی ردّوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت سندھ نے سندھ ایچ ای سی قائم کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نہایت ہی غلط قدم اٹھایا ہے۔ اس قدم کے خلاف میری پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں دائر ہے جس میں مس ماروی میمن (پی ایم ایل۔ن) بطور معاون پٹیشنر ہیں۔ پی ایم ایل۔ ن نے اپنے انتخابی منشور میں بھی ایچ ای سی کی خود مختاری اور مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ گزشتہ حکومت کے اقدامات سے اعلیٰ تعلیم کو جو بھی نقصان پہنچا ہے وہ اس کی تلافی کریں گے۔ میں پی ایم ایل۔ن، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے ایچ ای سی کا ساتھ دیا۔پاکستان اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہمیں ملک گیر تعلیمی ہنگامی صورتحال نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے تمام وسائل کو تعلیم کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔ جیسا کہ مہاتیر محمد نے کیا تھا۔ اگر ہم غربت اور تخریب کاری کے دلدل سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، یہی وقت ہے عمل کرنے کا۔