آج دنیا کی فضائوں میں’آف شور‘‘ کمپنیوں اورآف شور اکائونٹس کا کہرام مچا ہوا ہے۔ ہر طرح کے سیاسی‘ انتظامی‘ قانونی‘ تجارتی قائدین کا لا دھن‘ ٹیکس کی چوری اوراقتصادی بدعنوانی کی گرفت میں ہیں۔’’ہائے کرپشن‘ ہائے کرپشن‘‘ کے نعروں سے گونجتی فضائوں میں بجا طور سے کہا جاسکتا ہے کہ کرپشن پاکستان میں لا علاج اور بڑھتا ہوا مرض ہے۔سرکردہ حکمرانوں کے برطانیہ کے محل‘ آف شور کمپنیاں‘ سوئٹزرلینڈ میں بینک بیلنس‘ مختلف افراد کے دو سو ارب ڈالر کا سرمایہ‘ وکی لیکس اورپانامہ لیکس نے پاکستان کو غربت میں 147نمبر پر اورکرپشن میں116ویں نمبر پر انتہائی کرپٹ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا سدباب ناممکنات میں نظر آتا ہے اور بادی النظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ہر شخص بالواسطہ یا بلاواسطہ کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ سیاست دانوں کی اکثریت‘ حکومتی افسران‘ بزنس مین اورہرسرکاری یا نیم سرکاری محکموں میں کھلے عام‘ دھڑلے سے رشوت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اوراحتساب کے کثیر تعداد میں موجود ادارے بے بس ہیں۔سزا اورجزا کا نظام ناکافی ہے۔نیب نے اوردیگر اداروں نے پلی بارگین کی اصطلاح ایجاد کرلی ہے ۔ کہ لے کے رشوت پھنس گیا ہے۔ دے کے رشوت چھوٹ جا رشوت اورکرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس کا علاج ایک انقلاب اوربڑے آپریشن کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔
خواص اورعوام کرپشن کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں‘ ان اسباب کا سدباب کرنا‘ کرپشن ختم کرنے کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ملک میں جب مہنگائی عوام کی قوت خرید سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے تو لوگ مجبور ہوکر ناجائز ذرائع آمدنی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ جب چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کی ریل پیل‘ امیر غریب کا بڑھتا ہوا معاشی فرق چمکتی دمکتی گاڑیاں اور عالی شان بنگلوں کی قطاریں نظرآتی ہیں تو ہر شخص جائز وناجائز طریقے سے عالی شان گاڑیوں اوربنلگوں کے حصول کے لئے سرگرم ہوجاتا ہے۔ حکومت کا ایک ملازم اپنی محدود آمدنی میں جب پرتعیش طرززندگی کی طرف راغب ہوتا ہے تو ہر طرف سے رشوت کے حصول میں سرگرم ہوجاتا ہے۔ آج ملک کے ہر سرکاری محکمے اور تھانے میں ایک افسر بیٹھ کر یہ سوچتا ہے کہ لاکھوں روپے کیسے کمائے جائیں تاکہ افسران بالا کی خوشنودی حاصل کی جاسکے۔ جس کے باعث دفتروں میں کارکردگی اورحاضری صفر ہوکر رہ گئی ہے‘ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوار ہیں۔ ہزاروں ملزمان ہتھکڑیاں اوربیڑیاں پہنے سالہا سال تک انصاف کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ امیر اورصاحب حیثیت مجرم اپنی دولت کے بل بوتے پر کیس کے دورانیے کو اتنا طول دے دیتا ہے کہ غریب شخص ہمت ہار کر کیس سے دست بردار ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ بدانتظامی‘ حکومتی اداروں کی نااہلی‘ ناکامی اور سزا وجزا کے نظام کی بدحالی کی وجہ سے سڑک پر اکثرکاریں‘ موٹرسائیکلیں‘ ٹرک اوربسیں الٹے‘ سیدھے‘ دائیں بائیں ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس لئے چلتے ہیں کہ ان کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اسی طرح حکومتی دفاتر میں کھلے عام‘ بے خوف وخطر رشوت لی جاتی ہے‘ اس لئے کہ ان کو یقین ہو تا ہے کہ ان سے بازپرس یا پکڑدھکڑ نہیں ہوگی۔ پاکستان میں کرپٹ افراد کا محاسبہ نہیں ہوتا۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے ملک میں سماجی انصاف اورسوشل ویلفیئر قائم کیاجائے‘ عوام کو آزادی اظہار اورآزادی تحریر و تقریر‘ تعلیم کے مساوی مواقع اوراقرباء پروری‘ سفارش سے نجات‘ کرپشن کے خاتمے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔آج یورپ‘ امریکا‘ جاپان اوربیشتر ترقی یافتہ ممالک میں انصاف اورسوشل ویلفیئر کا نظام رائج ہے۔ مثال کے طور سے امریکا کا دفاعی بجٹ635ارب‘ ہیلتھ اورسوشل ویلفیئر 1200ارب ڈالر ہے۔سوشل ویلفیئر میں ہر شخص کے لئے تعلیم‘ ملازمت اورعلاج کے مساوی مواقع‘ بے روزگاری الائونس‘سینئر سٹیزن‘ معذور افراد‘یتیموں اوربیوائوں کے لئے وظائف مقرر ہیں۔ایک یا دو فیصد پرمکان‘ گاڑی یا تجارت کے لئے آسان قسطوں پر بینک کا قرض مل جاتا ہے۔
1955ء میں پاکستان میں پہلا پنج سالہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا جو اس وقت کے مشرقی اورمغربی پاکستان کے بہترین اذہان نے ملک کے لئے تجویز کیا تھا جس کے واضح اہداف یہ تھے‘ ملک میں سماجی انصاف قائم کیا جائے‘ برآمدات کو بڑھا کر درآمدات کم کی جائیں‘ اشیائے تعیشات پر پابندی عائد کی جائے‘ ملکی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے اسمگلنگ کی روک تھام کی جائے‘ چھوٹی گاڑیاں بنائی جائیں جو عوام کی قوت خرید کے مطابق ہوں۔ مکانات کا رقبہ600گزرکھا جائے‘زرعی زمین کی حد 18ایکڑ مقرر کی جائے۔ پاکستان میں ان سفارشات پر عمل نہ ہوسکا مگر انڈیا اورجنوبی کوریا اس منصوبے پر عمل کرکے ایک اقتصادی قوت بن گئے اورپاکستان کرپشن کے اندھیروں میں ڈوب کر رہ گیا ہے۔کیا کوئی سیاست دان‘ افسر یا محب وطن پاکستانی‘ احیائے علوم کے طرز کی تحریک چلا کر اس قوم کو کرپشن کی دلدل سے نکال سکے گا…؟