سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس امیدالدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس عقیل عباسی شامل تھے۔
دورانِ سماعت تحریکِ انصاف کے امیدواروں کے وکیل نیاز اللّٰہ نیازی نے تشکیل شدہ بینچ پر اعتراض کر دیا۔
نیاز اللّٰہ نیازی نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ہم اپنا اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی کہ کیس کو کسی اور بینچ میں بھیجا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ نیاز اللّٰہ نیازی جن کے وکیل ہیں انہوں نے فریق بننے کی استدعا کر رکھی ہے، عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، فریق بننے کی استدعا منظور کر لی تھی، گزشتہ حکم نامے میں دیگر صوبوں میں ٹریبونلز کی تشکیل کا ریکاڈر مانگا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے مجھ پر اعتراض کیا تھا؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اعتراض نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو بہت اسکینڈلائز کیا جا چکا ہے، اب بہت ہو چکا، کیوں نہ نیاز اللّٰہ نیازی کا کیس ڈسپلنری ایکشن کے لیے پاکستان بار کو بھیجیں؟ گزشتہ سماعت پر 2 رکنی بینچ کا بھی میں سربراہ تھا، تب اعتراض کیوں نہ کیا؟ بینچ اب میں اکیلا نہیں بناتا، پوری کمیٹی بناتی ہے، جب ایک بندہ بینچ بناتا تھا تب کبھی اعتراض نہیں کیا گیا، نیاز اللّٰہ نیازی کو جزوی ریلیف بھی ملا اس کے باجود اعتراض کر رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ہمیں کمیٹی نے بینچ میں ڈالا ہے، کیا یہاں بے عزتی کرانے بیٹھے ہیں؟ ہم 3 ارکان بینچ میں بعد میں شامل ہوئے بظاہر اعتراض مجھ پر ہے۔
نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ پہلی سماعت میں ہم فریق نہیں تھے، جو شخص جیل میں ہے اس کا بھی اعتراض ہے، میں اپنے مؤکل کے کہنے پر اعتراض کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس شخص کا ذکر کر رہے ہیں وہ جیل سے ویڈیو لنک پر پیش ہو چکا ہے، جیل سے پیش ہونے والے نے بینچ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ بطور ایڈووکیٹ جنرل 3 سال چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں، عدالت کے سامنے ساری باتیں نہیں کرنا چاہتا۔
عدالتِ عظمیٰ نے بینچ پر نیاز اللّٰہ نیازی کا اعتراض مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹھیک ہے نیاز اللّٰہ نیازی کی سیاسی وابستگیاں ہیں جس کا ہم احترام کرتے ہیں، سپریم کورٹ کو اسیکنڈلائز کرنے والے وکیل کا لائسنس معطل کریں گے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو منہ میں آئے کہہ دیں، بس آپ لوگ کیس خراب کرنا چاہتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ابھی مشاورت جاری تھی ٹریبونلز پر جب لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر آ گیا۔
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ آپ نےپہلے کہا کہ ٹریبونل کے لیے 9 ججز چاہئیں، پھر آپ نے کہا کہ ہمیں پینل دیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ججز کی فہرست کیوں مانگ رہے تھے؟ آپ چیف جسٹس ہائی کورٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے کہ فلاں فلاں جج دو۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ ہی فیصلہ کر سکتے تھے کہ کون کون سے جج ٹریبونل کے لیے دستیاب ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کےوکیل سے استفسار کیا کہ اب آپ کو کون روک رہا ہے؟ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مل کر مشاورت کیوں نہیں کرتے؟
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا، اس کا کیا مطلب ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے؟ کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟ کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ آپ ججز میں سے خود ’چوز‘ نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ متعلقہ چیف جسٹس کو ہی علم ہوتا ہے کہ کون کون سے جج دستیاب ہیں، ہو سکتاہے کہ کچھ جج بیرونِ ملک ہوں، کچھ ذاتی وجوہات پر ٹریبونل میں نہ آنا چاہتے ہوں، الیکشن کمیشن کو کسی جج پر اعتراض تھا تو وجہ بتا سکتا تھا، وجہ بتائی جا سکتی تھی کہ فلاں جج کا بھائی الیکشن لڑ چکا اس لیے یہ ٹریبونل میں نہ ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن پینل نہیں مانگ سکتا، کیا اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں بھی پینل مانگے گئے تھے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کر کے مسئلہ حل کر سکتا تھا، الیکشن کمیشن اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیوں نہیں کر لیتا؟ بتائیں ابھی مشاورت میں کیا رکاوٹ ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے رجسٹرار ہائی کورٹ کو ملاقات کے لیے ایک خط لکھا ہے، جس کا ابھی جواب نہیں آیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر ترمیم منظور ہوجائے تو بھی ہائی کورٹ چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے، کیا الیکشن کمیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ملاقات پر تیار ہے یا نہیں؟
’’اچھے، برے طالبان کی بات ہوتی تھی، اب کیا ججز بھی اچھے برے ہوں گے؟ ‘‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا لازمی ہے کہ ملتان کے لیے لاہور سے جج جائے، وہاں پہلے ہی جج موجود ہے، پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی، اب کیا ججز بھی اچھے برے ہوں گے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ تمام ججز اچھے ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی ادارے آپس میں لڑتے ہیں تو ملک تباہ ہوتا ہے، ججز کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کب ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے سپریم کورٹ کو آگاہ کرتا ہوں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو چیلنج نہیں کریں، مجھ سے بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پینل نہیں مانگا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ٹریبونل کے لیے لاہورہائی کورٹ سے مزید ججز کا پینل مانگا، قانون کے مطابق انتخابی تنازعات کا جلد حل ہونا چاہیے، ٹریبونل ناکافی تھے اس لیے ایک امیدوار نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا گیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت ہوئی؟ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ملاقات ممکن ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کہا کہ اگر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر مشاورت کریں تو کوئی اعتراض ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اسے چیف جسٹس کے دیے گئے نام مسترد کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کا رویہ جوڈیشل سسٹم پر حملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی کو جوڈیشل سسٹم پر حملہ نہیں کرنے دیں گے، الیکشن کمیشن اگر نام مسترد کرے گا تو قانونی اختیار بھی پوچھیں گے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتا کہ کونسا جج کہاں بیٹھے گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 14 فروری کو خط لکھا، الیکشن کمیشن نے کوئی تاخیر نہیں کی، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ آپس میں کچھ طے نہیں کر سکتے۔
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کیسے چیف جسٹس کے نام مسترد کر سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہر درخواست میں فریق ہے، سب اس کی مرضی سے تو نہیں ہو گا۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ میں نے جو نام دیے وہ قبول کر لیے گئے تھے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے کیوں مسئلہ بنایا ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ آپ کے نکات سے مکمل متفق ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا پہلا مؤقف درست نہیں تھا، کیا متفقہ طور پر الیکشن ٹریبونلز کو کام جاری رکھنے اور حتمی فیصلہ نہ سنانے کا حکم دےدیں؟
جسٹس مندوخیل نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ یہی رویہ رکھتے ہیں تو مسئلہ نہ ہو۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ مل کر فیصلہ کریں۔
’’ہم نے فیصلہ دیا تو 2 آئینی اداروں میں سے ایک کیخلاف ہو گا‘‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے فیصلہ دیا تو 2 آئینی اداروں میں سے ایک کے خلاف ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا ہوا تو اچھا نہیں ہو گا۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے ٹریبونلز کی تشکیل کا معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت پر چھوڑنے کا عندیہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈر معطل ہونے یا نہ ہونے سے دونوں اداروں کی مشاورت پر فرق پڑے گا یا نہیں، مشورہ کر کے آتے ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سوچنا ہو گا کہ چیف جسٹس سے بات کر رہا ہے یا کسی سیکشن افسر سے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا حکم نہ مانے تو توہینِ عدالت لگے گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن خود جاری کرنا کیا آئینی ہے؟
جسٹس عقیل عباسی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل نہ کرے تو عدالت اور کیا کرے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو نوٹیفکیشن کے بجائے توہینِ عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے استدعا کی کہ لاہور ہائی کورٹ کا نوٹیفکیشن اور فیصلہ معطل کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی عدالتی فیصلے کے پابند ہوں گی؟ اس طرح تو چیف جسٹس پر بھی توہینِ عدالت لگ جائے گی۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن اپیل سے مشروط نوٹیفکیشن جاری کرے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ خود کو سپریم کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خود کو عدالت کے رحم و کرم میں لاہور ہائی کورٹ میں چھوڑتے تو مسئلہ نہ ہوتا، معلوم نہیں کیوں انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس نکتے پر ججز کوبھی مشاورت کی ضرورت ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشاورت کے لیے اگر عدالت آدھا گھنٹہ لے تو پارلیمانی کمیٹی اجلاس جلدی بلوانے کا کہتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی پر کوئی بات نہیں کریں گے، جس بھی ادارے کے پاس جو بھی اختیار ہے اس کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ بلوچستان میں الیکشن ٹریبونلز کا دائرہ کار الیکشن کمیشن نے متعین کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پورا بلوچستان آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مجموعی طور پر پنجاب میں 176 الیکشن سے متعلق درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر میں چیف جسٹس ہائی کورٹ ہوتا تو وہی کرتا جو لاہور ہائی کورٹ نے کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔
مختصر وقفے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو لکھا 27 جون کا خط دکھایا، الیکشن کمیشن نے چاروں ہائی کورٹس کو پہلے ٹریبونل تعیناتی کے لیے بھی خطوط لکھے، ریکارڈ کے مطابق پہلے 2 ٹریبونلز لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ مل کر بنائے گئے تھے جو ناکافی تھے، اس کے بعد 6 مزید ججز کے نام بطور ٹریبونل لاہور ہائی کورٹ نے بھیجے، الیکشن کمیشن نے 6 میں سے 2 ججز کو ہی ٹریبونل تعینات کیا، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مزید ٹریبونلز بنانے کے بعد تنازع کھڑا ہوا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی ایک آئینی ادارے کے سربراہ ہیں، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے درمیان اجلاس نہیں ہوا، اگر الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ملاقات ہوتی تو معاملہ حل ہو سکتا تھا، سپریم کورٹ الیکشن کمیشن اورچیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی عزت کرتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کا حکم نامے میں کہنا ہے کہ کیس کو زیرِ التواء رکھا جاتا ہے، الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے درمیان کمیونی کیشن نہیں ہوئی، سپریم کورٹ نے معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت پر چھوڑ دیا، درخواست سپریم کورٹ میں زیرِ التوا رہے گی۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے حلف کے فوری بعد الیکشن کمیشن اور ارکان چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کریں، جوڈیشل کمیشن نے 2 جولائی کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تقرری کی منظوری دی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ لاہورہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آئندہ سماعت سےقبل آپس میں مشاورت کریں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا لاہور ہائی کورٹ سے پینل مانگنے کا خط بھی معطل کر دیا۔
سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تعیناتی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں ہے، پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ملنا ممکن ہے، بامعنی مشاورت سے دونوں یہ تنازع حل کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی بامعنی مشاورت کی حمایت کی ہے، جیسے ہی چیف جسٹس کی تقرری کا عمل مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے، بامعنی مشاورت سے دونوں ادارے تنازع حل کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لاہورہائی کورٹ کے حکم پر 12جون کو پنجاب میں بننے والے تمام الیکشن ٹربیونلز معطل ہو گئے۔
جسٹس شاہد کریم پر مشتمل الیکشن ٹربیونل نمبر 1 معطل ہو گیا، جسٹس شاہد کریم گوجرانولہ، گجرات، حافظ آباد، نارووال، منڈی بہاؤلدین کے لیے الیکشن ٹربیونل مقرر تھے۔
جسٹس چوہدری محمد اقبال پر مشتمل الیکشن ٹربیونل نمبر 2 بھی معطل کر دیا گیا۔
جسٹس چوہدری محمد اقبال، فیصل آباد، چنیوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، پاکپتن، اوکاڑہ، سرگودھا اور خوشاب کے لیے الیکشن ٹربیونل مقرر تھے۔
جسٹس انوار حسین پر مشتمل الیکشن ٹریبونل 3 لاہور بھی معطل کر دیا گیا۔
جسٹس سلطان تنویر احمد پر مشتمل الیکشن ٹریبونل 4 بھی معطل ہو گیا۔
جسٹس سلطان تنویر احمد قصور، شیخو پورہ، ننکانہ صاحب اور سیالکوٹ کے لیے الیکشن ٹربیونل مقرر تھے۔