• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ میں لکھتے ہیں کہ :’’نواب اکبر بگٹی کے بارے میں ہمارے دل میں ہمیشہ احترام رہا۔ وہ نہ صرف گورنر بلوچستان کے طور پر وفاق کی نمائندگی کر چکے تھے بلکہ بطور وزیراعلیٰ بلوچستان بھی ان کی بڑی خدمات ہیں۔وہ بلوچستان کے ان نمایاں سیاستدانوں میں سے تھے جن کا فیڈریشن پر پختہ یقین تھالیکن پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ان کے اور فیڈریشن کے تعلقات میں تنائو آ گیا۔ اس کی وجوہات میں، ان کا سوئی گیس کی رائلٹی کا مطالبہ ، اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ رکھنے کی اجازت، فوجی چوکیوں خاص طور پر جو ان کے گھر کے قریب تھیں کا خاتمہ شامل تھا۔

جن دِنوں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے، ایک بار ہم ان کے گھر گئے۔ میرے ساتھ مشاہدحسین سید، مونس الٰہی اور خاتون صحافی نسیم زہرہ بھی تھے۔ ہم نے ان کے گھر میں ایک بڑا سا گڑھا دیکھاجس کے بارے میں نواب اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ یہ فوجی بمباری کی وجہ سے بنا ہے اور اس بمباری کے نتیجے میں ان کی پوتی زخمی ہوگئی تھی۔ بقول ان کے یہ بات انہوں نے عوام کو اس لئے نہیں بتائی کہ اشتعال پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ پھر انہوں نے گھر کے قریب فوجی چوکی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے گھر کی بے پردگی ہوتی ہے۔ اسلام آباد واپسی پر ہم نے پرویز مشرف سے بات کی۔ انہوں نے ہمارے کہنے پر چوکی کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دے دیا۔

یہاں مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آرہا ہے۔ نواب اکبر بگٹی کا ایک بیٹا قتل ہو گیا۔ چونکہ ان دنوں میر ظفراللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے لہٰذا اکبربگٹی ان کو بھی اپنے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ اکبر بگٹی نے اپنے بیٹے کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے سے انکار کردیا اور عہد کیا کہ اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ خود لیں گے۔ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میر ظفراللہ جمالی مجھے بھی اپنے ساتھ ڈیرہ بگٹی لے گئے تاکہ نواب بگٹی کو بتا سکیں کہ ان کا اس قتل میں کوئی ہاتھ نہیں لہٰذا ان کو معاف کردیں ۔ وہاں پہنچے تو مجھے بگٹی دوسرے کمرے میں لے گئے۔ پوچھا جمالی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ میں نے کہا ان کا کوئی قصور نہیں۔ ان کو معاف کر دیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے میں ان کو معاف کردیتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ جمالی سچے ہیں تو دہکتے انگاروں پر ننگے پائوں چل کر دکھائیں۔ جب یہ بات ظفراللہ جمالی کے علم میں آئی تو انہوں نے دہکتے انگاروں پر ننگے پائوں چلنے سے معذرت کر لی۔

میں واپس جنرل مشرف اور نواب اکبر بگٹی کے تنازعے کی طرف آتا ہوں۔ میں نے جنرل پرویز مشرف اور نواب اکبر بگٹی کے درمیان براہ راست ایک ملاقات کا بندوبست کیا تھا تاکہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔ یہ میٹنگ اسلام آباد میں رکھی گئی تھی لیکن جس روز یہ میٹنگ ہونا تھی اس روز طے شدہ وقت سے کچھ دیر پہلے یہ میٹنگ اچانک منسوخ ہو گئی۔ نواب اکبر بگٹی نے بعد میں مجھے بتایا کہ صدر مشرف کے آفس سے فون آیا کہ ان کو لانے والا جہاز ڈیرہ بگٹی پہنچنے کے بعد خراب ہوگیا ہے لہٰذا میٹنگ منسوخ کی جاتی ہے۔ نواب اکبر بگٹی کا کہنا تھا کہ اس فون کے آدھ گھنٹہ بعد صدر مشرف کا جہاز انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے فضا میں اڑتے دیکھا ۔ یہ جہاز ڈیرہ بگٹی ایئربیس سے واپس جا رہا تھا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اکبر بگٹی اور حکومت کے درمیان معاملات خاصے خراب ہوچکے تھے ۔ ایک روز ہم صدر پرویز مشرف کے ساتھ معمول کی ایک میٹنگ میں بیٹھے تھے۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس جنرل ندیم اعجاز نے اکبر بگٹی کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ وہ پہاڑوں میں روپوش ہوچکے ہیں لیکن جلد ہی ہم ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ میں نے محسوس کیاکہ جنرل اعجاز جب بھی اکبر بگٹی کے بارے میں بات کرتے ان کا لہجہ بہت سخت ہو جاتا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ میں اور مشاہد حسین جنرل ندیم اعجاز کے گھر جائیں گے اور ان کی نواب اکبر بگٹی کی بابت غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم جنرل ندیم اعجاز کے گھر گئےاور ان سے کہا کہ اکبر بگٹی کے ساتھ ان دنوں حکومت کی محاذ آرائی ہے مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اکبر بگٹی بلوچستان کے ان رہنمائوں میں سے ہیں جو وفاق کے حامی رہے ہیں اور قوم پرستوں کے مقابلے میں انہوں نے ہمیشہ وفاق کا ساتھ دیا ہے۔ ہم نے جنرل ندیم سے کہا کہ ہماری درخواست صرف یہ ہے کہ اکبر بگٹی کو ماریں نہیں بلکہ ان کو گرفتار کر لیں۔ یہ کہہ کر ہم واپس آگئے مگر اگلے روز ہی اکبر بگٹی کی موت کی خبر آگئی۔ قدرتی طور پر مجھے اس کا بہت دکھ ہوا۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے اگلے روز صدر پرویز مشرف نے مری میں ایک میٹنگ بلائی جس میں میرے علاوہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی بھی موجود تھے ۔ جنرل ندیم اعجاز نے تمام شرکا کے سامنے صدر مشرف کو بتایا کہ کوئٹہ میں لوگ نواب اکبر بگٹی کے قتل پر بہت خوش ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے جنازے پر بھی لوگ نہیں آئیں گے۔ یہ سن کر میں نے بریگیڈئر اعجاز شاہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب جو میں پنجابی میں کہنے لگا ہوں، آپ اس کا ترجمہ کرکے جنرل صاحب کو بتا دیں۔ پنجابی کے ایک صوفی شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا کہ ”دشمن مرے تو خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جاناں“۔ یہ سن کر صدر مشرف کہنے لگے کہ ترجمے کی ضرورت نہیں، ان کی سمجھ میں اس کا مطلب آ گیا ہے۔ اس کے بعد بحث شروع ہو گئی کہ نواب اکبر بگٹی کے جنازے میں کسی حکومتی عہدیدار کو بھیجنا چاہئے تو کون جائے گا۔ اس پر صدر مشرف نے کہا کہ ایک نمائندہ بھجوا دیتے ہیں۔ پھر انہوں نے میرا نام تجویز کیا کہ چوہدری شجاعت نواب اکبر بگٹی کے جنازے میں شرکت کریں گے جس پر میٹنگ میں موجود کسی نے کہا کہ صدر صاحب! چوہدری صاحب کی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کے کسی نمائندے نے نواب اکبر بگٹی کے جنازے میں شرکت نہیں کی سوائے وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں کے۔“

اس سے اندازہ لگالیجئے کہ ہمارے مقتدر لوگ ہر طرف سے رپورٹیں ملنے کے باوجود کتنے بے خبر ہوتے ہیں اور جس طرح جنرل ندیم اعجاز نے جنرل مشرف کی خوشی کیلئے ایک بڑے فساد کی بنیاد رکھ دی اسی طرح اپنے باس کو خوش رکھنے کیلئے ہمارے لوگ کن کن فسادوں کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ دوسری انتہا بھی دیکھ لیجئے کہ اتنے لِکھ پڑھنے کے باوجود نواب اکبر بگٹی جیسے لوگ یہ شرط لگاتے ہیں کہ ظفراللہ جمالی ننگے پائوں دہکتے انگاروں پر چلیں گے۔ اندازہ کریں کہ ندیم اعجاز، جنرل مشرف کو بتاتے ہیں کہ بگٹی کی موت پر کوئٹہ کے لوگ بہت خوش ہیں اور مٹھائیاں بھانٹ رہے ہیں حالانکہ اگلے روز پورے بلوچستان میں ہڑتال تھی لیکن اندازہ کریں کہ جنرل مشرف ان کی اس طرح کی باتوں پر یقین بھی کر لیتے تھے۔

تازہ ترین