• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بیش تر حصّوں میں ان دنوں غضب کی گرمی پڑرہی ہے۔ ایسے میں غضب ڈھانے والے وفاقی میزانیے نے اشرافیہ کے خلاف لوگوں کے غم و غصّے میں اضافہ کردیا ہے۔ ہر طرف لوگ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام سے مزید کتنی قربانی لی جائے گی اور اشرافیہ کب قربانی دے گی؟حتی کہ اب تو سابق وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کہ ملک خطرے میں ہے تو سب کا ہے، تن خواہ دار طبقے نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔

حکومت نے بجلی بہت منہگی کردی ہے، اگر نجی شعبہ ہوتا تو اتنی منہگی بجلی نہ بیچتا۔ اب تو مقابلے میں سولر پینلز آگئے ہیں۔ ایک انٹرویو میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بجٹ کی وجہ سے ایک سے ڈیڑھ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے چلےجائیں گے۔

ان کا کہنا تھاکہ میں اپنے بچوں کے دودھ اور پیکڈ دودھ پر بھی ٹیکس دوں اور دوسری جانب بڑی بڑی جائیدادوں میں رہنے والے ٹیکس نہ دیں تو یہ زیادتی ہے۔تن خواہ داراور کاروبار کرنے والے کو مساوی ٹیکس دینا چاہیے۔

اس صورت حال میں ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جنہیں عوام کی حالتِ زار کا زرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ وہ ہمارے حکم راں ،طاقت ور اور طبقہ اشرافیہ کے افراد ہیں۔ سیاست دانوں ،خواہ ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حکم راں اتحاد سے، ایک دوسرے اور اپنے ناپسندیدہ اداروں کے خلاف دن رات ہرزہ سرائی کرنے میں مصروف ہیں۔ ان سب کی تمام تر توانائیاں کرسی کے لیے صرف ہو رہی ہیں، عوام جائیں بھاڑ میں۔ ان کی اپنی تجوریاں اسی طرح بھری جا رہی ہیں جیسے پہلے بھرا کرتی تھیں اور غریب ایک ایک نوالے کو ترس رہا ہے۔

عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں

غریبِ شہر ترستا ہے اِک نوالے کو

امیرِ شہر کے کتّے بھی راج کرتے ہیں

منہگائی نے یوں تو پوری دنیا کو متاثر کیا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت منہگائی کی یہ صورت حال ہے کہ امیر طبقے کو چھوڑ کر دیگر تمام طبقے ایک وقت کھانا کھا کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ دوسرے وقت کیا کھائیں گے۔ متوسط طبقہ تو تقریباً ختم ہو کر غریب طبقے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اگر دیہاڑی دار مزدور طبقے کی بات کریں تو بس خدا کی مدد کے سہارے ان کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔

عوام کی اس قدر بھیانک حالت کے برعکس وزیر اعظم سیکرٹریٹ کایومیہ خرچ تقریبا15ملین روپے بتایا جاتا ہے۔ 2012-13میں یہ خرچ محض تیس لاکھ روپے یومیہ تھا، لیکن اب اس میں500فی صداضافہ ہو چکا ہے۔ شاید ہمارے ہاں ترقی اسی کو کہتے ہیں۔

سنگ دل ،شاہ خرچ حکم راں

سست اقتصادی ترقی، غربت اور معاشی ناہم واری میں اضافے، اندرونی اور بیرونی سکیورٹی کے مسائل اور توانائی کے بحران کے باوجود ہمارے حکمراں قومی وسائل کو ہوا میں اس طرح اُڑا رہے ہیں جیسے وہ دنیا کی متمول ترین اقوام کے فرد ہوں۔تاہم یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے پہلے قائم ہونے والی منتخب حکومتیں، قومی وسائل کو سنگ دلی سے خرچ کرنے میں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ یہ سلسلہ فوجی ڈکٹیٹرز کے زمانے میں بھی تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ جاری و ساری رہا۔

آج سب پر یہ عیاں ہے کہ ہماری فاقہ مستی کیا رنگ لائی ہے۔ ہمارے حکم راں اور طاقت ور اشرافیہ کے نمائندگان بادشاہوں کی طرح دریا دلی سے اسراف کرتے ہیں۔ دوسری طرف قوم اربوں، کھربوں روپوں کی مقروض ہے، لیکن عوام کے ان نام نہاد خیر خواہوں اور برائے نام جمہوریت پسندوں کے لیے قرض لینا ایک نشہ اور خرچ کرنا ایک تفریح ہے۔

تین برسوں کی 'سپلیمنٹری ڈیمانڈز فار گرانٹس اینڈ اپروپری ایشنزسے ظاہر ہوتاہے کہ وزیر اعظم، صدر مملکت، گورنرز اور وزرا کی عالی شان رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ یہ دل خراش شاہ خرچی اُس ملک میں کی گئی جس کی آبادی کا 35فی صد (ورلڈ بینک کی رپوٹ اور ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرز کے مطابق)2ڈالرز یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتا ہے۔

یہ صورت حال انتہائی غربت کی نشان دہی کرتی ہے۔ لیکن حکم راں اس سے لاتعلق، اپنی شاہ خرچیوں میں مگن ہیں۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس 2022کے مطابق پاکستان کا 187 ممالک میں سے 156واں نمبر ہے۔ہمارے تین کروڑ بچے اسکول نہیں جاتےجو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 الف کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ان حالات میں بھی پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک جانب تو سخت اقتصادی مشکلات کا شکار ہے مگر دوسری جانب اس میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں عوام کی غربت کا مذاق اڑاتی پھر رہی ہیں۔ یہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ایندھن سے نہیں چلتیں بلکہ غریب عوام کے خون سے چلتی ہیں۔ 

مارچ 2023کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے پہلے کے دو برسوں میں وفاقی وزراء کے زیر استعمال گاڑیوں پر کل 7 کروڑ 67 لاکھ 3 ہزار 98 روپے کے اخراجات آئےتھے۔ دو سال میں گاڑیوں کی مرمت پر 6 کروڑ 39 لاکھ 1 ہزار 278 روپے کے اخراجات آئے۔ ان دو سالوں میں گاڑیوں کے فیول کی مد میں حکومت نے 1 کروڑ 28 لاکھ 2 ہزار 720 روپے خرچ کیے تھے۔

سیاسی جماعتوں کے وعدے اور وعدہ خلافیاں 

پاکستان میں انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت فضول خرچی کم کرنے، کفایت شعاری برتنے،اقتصادی اصلاحات کرنے، ترقی کی شرحِ نمو میں اضافہ کرنے، روزگار اور غریب عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ دینے کے اعلانات کرتی ہے۔ لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ غریب عوام پر مزید ٹیکس لگا کر اشرافیہ کو عیش کراتی دکھائی دیتی ہے اور یہ وعدہ خلافیاں حادثہ نہیں، معمول ہیں۔

اس صورت حال کو مزید تکلیف دہ بنا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی راہ نما اور اراکینِ پارلیمان خود برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں (ایف بی آر کی طرف سے ماضی میں شائع کردہ ٹیکس ڈائریکٹریز اس بات کی گواہ ہیں)حالاں کہ اُن کی آمدن ہوش ربا حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن پھر ان کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ ان سے ایف بی آر پوچھتا ہے، نیب اور نہ ہی مروجہ انتخابی 'رسم کے تحت ووٹنگ اُن کا احتساب کر پاتی ہے۔

اشرافیہ کے یہ مزے اُس ملک میں ہیں جہاں پانچ سال سے کم عمر کے 31.6 فی صد بچے خوراک اور وزن کی کمی کا شکار ہیں اور عوام کی اکثریت کے لیے صحت کی سہولتیں ایک خواب ہیں۔ پانچ سال سے کم عمرکے بچوں کی شرح اموات86 بچے فی ہزار اور زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کا تناسب 170فی لاکھ ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں شہری تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور رہائش کی سہولتوں پر نجی شعبے نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔

افلاطون نے کہا تھا کہ ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں ، ایک امیروں کا اور ایک غریبوں کا۔ دونوں کے اخلاق وعادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ افلاطون نے یہ بات شاید پاکستان جیسے ملک کے لیے کہی تھی۔

محاصل کا بُرا نظام

ملک میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں( سول اور فوجی، دونوں نے یک ساں طور پر) نے غیر مؤثر، فرسودہ اور نوآبادیاتی دور کے اداروں کی تنظیم نو میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، جس میں کارکردگی، مساوات اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ملک کا ٹیکس نظام بھی شامل ہے۔

ماہرین اقتصادیات کے مطابق موجودہ حکومت کو بلند ترین مالیاتی خسارہ ختم کرنے کےلیے قرضوں کے شیطانی جال سے نکلنے کے علاوہ غیر ضروری اخرجات میں نمایاں کمی اور قومی سطح پر محصولات، ٹیکس اورنان ٹیکس، کی حقیقی استعداد کو حاصل کرنا ہو گا جو صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو  (ایف بی آر) کی سطح پر20 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے اور اگر متوازی معیشت کو بھی دستاویزی کر لیا جائے تو اگلے پانچ برسوں میں35ٹریلین تک ہو سکتی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ محاصل جمع ہونے کی کیا صورت حال ہے۔2023کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی241.83ملین تھی۔ ورلڈ میٹر کے 28 فروری 2024 تک آن لائن ڈیٹا کے مطابق ہماری آبادی 243,587,554 تھی۔ 2023کی مردم شماری کی بنیاد پر15سے64سال کے درمیان افراد کی تعداد69فی صد ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق روزگار کی شرح59فی صد ہے۔

اس طرح تقریباً 70ملین افراد صاحبِ روزگار ہیں (ایک بہت ہی قدامت پسند تخمینے کے مطابق)۔ تاہم، ایف بی آر کی ایکٹیو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) کے مطابق 26 فروری 2024 تک موجودہ انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 4,003,543 تھی۔ ان 'فائلرز میں60فی صد سے زائد نے قابل ٹیکس آمدن سے کم یا نقصان ظاہر کیاتھا۔

سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر کل ملازمت پیشہ، پروفیشنلز اور کاروباری آبادی میں سے انکم ٹیکس دہنگان کی ممکنہ ٹیکس بنیاد کا اندازہ کریں۔ اُس وقت کے اعدادوشماراور ٹیکس کی شرح کے مطابق 21ملین ممکنہ ٹیکس دہندگان کی آمدن پر ٹیکس لاگو کریں تو یہ رقم7ٹریلین روپے بنتی ہے۔ 

اس وقت تک کل رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے60فی صد انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرا رہی تھیں۔ 5 ملین روپے کا اوسط فی کمپنی ٹیکس فرض کرتے ہوئے، ٹیکس کی وصولی 3000 ارب روپے بنتی تھی۔

مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کی جانب سے انکم ٹیکس کی وصولی صرف 3086 بلین (کمپنیاں، افراد، فرم اور افراد کی انجمن سے) تھی، حالاں کہ کل صلاحیت11ٹریلین روپےسے کم نہیں تھی۔ مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس کی وصولی2591 بلین روپے تھی حالاں کہ اصل صلاحیت 7 ٹریلین روپے سے کم نہیں تھی۔

اسی طرح کسٹمز ڈیوٹی کی اصل صلاحیت (امریکی ڈالرز 100 بلین کی درآمدات کی بنیاد پر 5 فی صد شرح استعمال کرنے سے) 1300 ارب روپے بنتی ہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اگراس وقت کی پوزیشن پر بھی رکھی جاتی تو 700 ارب روپے سے کم نہیں تھی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ مالی سال 2022-23 میں، ایف بی آر نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت 370 ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی کے تحت 932 ارب روپے حاصل جمع کیے تھے۔ حالاں کہ اصل اہداف بالترتیب 402 ارب روپے اور 953 بلین روپے تھے۔

ان اعداد و شمار کی روشنی میں ایف بی آر کی سطح پر ٹیکس جمع کرنے کی کل صلاحیت سرکاری جی ڈی پی کے مطابق 20 ٹریلین روپے (انکم ٹیکس11 ٹریلین روپے، سیلز ٹیکس 7ٹریلین، کسٹم ڈیوٹی 1300 ارب روپےاور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی700ارب روپے) بنتی ہے اور اگر متوازی معیشت کو بھی شامل کر لیں تو 30 ٹریلین روپے سے کم نہیں بنتی۔

مسئلہ کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق غلط ٹیکس پالیسی، پے چیدہ ٹیکس قوانین،پے چیدہ طریقہ کار، آسانی سے جمع کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار، کم زور نفاذ، نا اہلی اور بدعنوانی ٹیکس کی کم وصولی کے اہم عوامل ہیں۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور قوانین کو آسان بنانے کے بجائے، یکے بعد دیگرے حکومتیں معاشرے کے طاقت ور طبقوں کو معافی، استثنیٰ، ٹیکس فری مراعات، سہولتیں فراہم کرتی رہی ہیں۔ پالیسی بنانے والوں کی اس ذہنیت کے نتیجے میں عام کاروباری اور شہری مسلسل مشکلات کا شکار ہیں۔

ہماری اقتصادی مشکلات کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ پاکستان کالے دھن اور ٹیکس چوری سے نمٹنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے مختلف قوانین اور ایمنسٹی اسکیمز کے ذریعے ٹیکس چوروں کو معاف اور خوش کرتی رہی ہیں۔ نتیجہ واضح ہے، ایک مسلسل بڑھتی ہوئی غیر رسمی معیشت۔ بتایا جاتا ہے کہ ہماری زیرِ زمین معیشت کا موجودہ حجم اگر کچھ زیادہ نہیں تو تقریباً دستاویزی معیشت کے حجم کے برابر ہے۔

محاصل کے نظام پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر ماضی میں ٹیکس ادا کرنے میں ناکام رہنے والے تمام افراد کو 10 فی صد کے فلیٹ ریٹ پر ٹیکس ادا کی پیش کش کی جائے، تو صرف ایک سال میں 50 ٹریلین روپے جمع کر لیے جائیں گے اور پھر مستقبل میں یہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوں گے جوآج جمع کیے گئے ہوں گے۔

یاد رہے کہ مالی سال 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے محض 7.16 ٹریلین روپے اکٹھا کیے تھے، یعنی دستاویزی جی ڈی پی کا محض 8.5 فیصد،حالاں کہ ہم آسانی کے ساتھ غیر دستاویزی معیشت کو شامل کر کے34ٹریلین روپے اکٹھا کر سکتے ہیں، مگر اس کے لیے نظامِ محصولات کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔

ہمارے لوگ لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟

مغرب کےجمہوری ممالک کے لوگ جانتے ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ انہیں ریاست تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، انکم سپورٹ، سوشل سکیورٹی، بے روزگاری الاؤنس، پنشن، ہاؤسنگ وغیرہ کی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں عوام کو ایسا کچھ بھی نہیں ملتا۔ بلکہ آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ چناں چہ یہاں خودتشخیصی ٹیکس کا نظام بھی ناکام ہوا۔ اگرچہ پاکستانیوں کا شمار دنیا میں انسانی بھلائی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی اقوام میں ہوتا ہے، لیکن وہ حکومت کو ٹیکس دینا رقم کا زیاں سمجھتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ 2023 میں جن افراد نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے، ان کی تعداد محض 50 لاکھ کے قریب تھی۔ دوسری طرف جن افراد پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا، ان کی تعداد12کروڑ سے متجاوز تھی۔ یہ صورت حال ایک ایسے ادارے کے غیر مؤثر ہونے کی عکاسی کرتی ہے جس کے عملے کی تعداد 22 ہزارسے زائد ہے۔ ایف بی آر کے پاس آڈٹ کے جدید طریقوں اور مؤثر ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کے نفاذ کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ 

دولت مند اور طاقت ور افراد چالاک ٹیکس مشیروں کی مدد سے ٹیکس قوانین کو آسانی سے چکمہ دے دیتے ہیں۔ آمنی ظاہر نہ کرنا، کم آمدن ظاہر کرنا اور سیلز ٹیکس اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی چرانا پاکستان میں معمول کی بات ہے۔دوسری جانب ماضی میں قائم ہونے والی مختلف فوجی اور سول حکومتوں نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے انہیں ٹیکس میں مزید چھوٹ دینے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے مواقع فراہم کیے تا کہ ان کی سیاسی حمایت حاصل رہے۔

اثرات

نااہل ٹیکس مشینری کو فری ہینڈ دینے، ٹیکس چوروں، قومی دولت لوٹنے اور کالے دھن کو سفید بنانے والوں کو خوش کرنے والی پالیسیاں معاشرے اور معیشت کے ہر پہلو پر منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے ایک طرف قوم قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی ہے تو دوسری طرف دولت کے بل بوتے پر وفاداریاں خرید کر توانا ہوتا ہوا سیاسی طبقہ جمہوریت کے پروان چڑھنے کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔

عام شہری کے لیے یہ صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔دوسری طرف معیشت تباہی کا شکار اور برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے۔ حالاں کہ وفاقی سطح پر ہم 16 ٹریلین روپے کا ٹیکس پوٹینشل رکھتے ہیں۔ تاہم سات، آٹھ برسوں کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس کی وصولی کے بہت کم اہداف دیے جا تے رہے ہیں اور ستم یہ ہےکہ ایف بی آر ان اہداف کے حصول میں بھی ناکام رہتا ہے۔

اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان میں دولت مند افراد یا تو ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں یا پھر وہ اپنی درست آمدن اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ رقم کی کمی پوری کرنے کے لیے ریاست بالواسطہ ٹیکسز لگاتی ہے۔ ان ٹیکسز کے نتیجے میں غریب لوگ، جن کی معاشرے میں تعداد زیادہ ہے، زیر بار آ جاتے ہیں۔ ظلم اور ستم کی انتہا ہے کہ وہ طبقہ جس کی آمدن ٹیکس دینے کی حدسے کم ہے، اس پر ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

مضبوط گٹھ جوڑ

ہمارے صاحبانِ اقتدارکہتے ہیں کہ یہ مسائل دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں، چناں چہ انہیں چند ماہ، بلکہ 5 سال (جو ایک حکومت کی آئینی مدت ہوتی ہے) میں بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے اصل مسئلہ طاقت ور سرکاری افسران سے نمٹنا ہے۔ ان افسران میں سے اکثر نااہل اور بدعنوان ہیں، لیکن حکومت خود کو ان کے سامنے بے بس پاتی ہے۔ 

دوسری طرف ان افسران کا مؤقف ہے کہ جب حکومت خود ٹیکس میں چھوٹ دے کر طاقت ور حلقوں کو مزید تقویت دیتے ہوئے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگی رہے تو بیوروکریسی کچھ نہیں کر سکتی۔

بہت سےماہرینِ اقتصادیات کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ بدعنوان سیاست دانوں اور سرکاری افسران کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ دونوں دھڑے ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر منتخب نمائندے عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو وہ قانون سازی کرکے ناجائز دولت سے خریدے گئے اثاثے ضبط کر لیں۔ ایک مرتبہ اگر یہ دلیرانہ قدم اٹھا لیا گیا تو مالیاتی خسارے کا سنگین مسئلہ حل ہو جائے گا۔

جب سیاسی اشرافیہ ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے گی تو سرکاری افسروں اور تاجروں کے پاس قانون کی پابندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں رہے گا۔لیکن حکمراں طبقہ محاصل کا نظام درست کرنا چاہتا ہے اورنہ ہی وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ فی الحال حکومت کا کام بھاری قرضے لے کر منہگے منصوبے بنانا اور اُن کی تشہیر کرنا ہے۔ اس سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ عوام کا جمہوریت پر یقین بھی کم زور ہوتا چلا جائے گا۔

اگر ایک مرتبہ گڈ گورننس سے دست یاب مالیاتی حجم میں اضافہ کر لیا جائے تو پھر حکومت عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ کی سہولتیں فراہم کر سکتی ہے۔ اس صورت میں عوام کے اندر بھی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ ٹیکس دیں کیوں کہ انہیں پتا ہوگاکہ اس کا حتمی فائدہ اُنہی کو ہوگا۔ چناں چہ ضروری ہے کہ حکومت وسائل کو طاقت ور حلقوں سے لے کر عام شہریوں پر خرچ کرے۔ وسائل کی اس تحریک کے لیے ٹیکسیشن ہی واحد فعال عنصر ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

آج عوام کا حال یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار، پیداوار میں کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان کا درمیانہ طبقہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی سکت دم توڑ رہی ہے۔ بہت کم پاکستانیوں کی فی کس آمدن 4,286 ڈالر ہے۔حالاں کہ عالمی بینک کے معیار کے مطابق یہ متوسط طبقے کی کم از کم آمدنی ہے۔

دوسری طرف دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ 2022میں پاکستان کی90فی صد بالغ آبادی کے پاس 10,000 ڈالرزسے کم دولت تھی (اس دوران ارکان پارلیمان کی اوسط دولت 900,000 ڈالرز فی رکن تھی، لیکن ان میں سے بہت کم نے اصل آمدن پر انکم ٹیکس ادا کیا)۔کریڈٹ سوئس بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی، جس کی دولت10ہزار سے ایک لاکھ ڈالرز کے درمیان ہے، کا حصہ 9.8 فی صدجب کہ صرف 0.1 فی صد بالغ افراد ایک لاکھ سے ایک ملین ڈالرز مالیت کی دولت کے مالک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتہائی امیر افراد کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟

ان حالات میں ایک بات طے ہے کہ ہم دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کیے بغیر اور شاہانہ حکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کیے بغیر اپنے مالیاتی مسائل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مصلحتوں سے کام لینے کی پالیسی ترک کر دی جائے۔ ماہرینِ اقتصادیات کے بہ قول حالیہ بجٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

پاکستان جس دلدل میں پھنسا ہوا ہےحکم راں طبقے کو اس بحران کا ادراک ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں طبقہ اشرافیہ نے پولیٹیکل اکانومی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس ملک کے کرتا دھرتا، بڑے بڑے زمیں داروں، تاجروں، ریئل اسٹیٹ ڈیلرز اورا سمگلرز پر ہاتھ نہیں ڈال رہے کیوں کہ ڈالنا ہی نہیں چاہتے۔ لیکن ایسا اب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔