پروفیسر خالد اقبال جیلانی
سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی دعوتِ توحید و دین کا پہلا مرحلہ اپنی ایک جماعت کی تشکیل اور ان افرادِ جماعت کی تربیت تھا۔ توحید اور تعلیمات دین پر مشتمل نظام کے قیام اور استحکام کے لئے ایک ایسی جماعت کا وجود لاینفک تھا جس کے افراد اپنے اندر قبول حق کی کشش و جذب کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
اس جماعت کے افراد کی تعداد جب انتالیس ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر میں اس جماعت کو مکہ کے کسی قوت و طاقت اور ہیبت و سطوت کی علامت کے حامل فرد سے چالیس کی تعداد تک پہنچا کر قوت و طاقت کی حامل جماعت کی شکل میں تکمیل کی خواہش ، آرزو، طلب اور مراد پیدا ہوئی۔؎
مکہ میں اس وقت دو افراد دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سر کردہ نظر آتے تھے، انہی دونوں پر نبی کریم ﷺ کی نگہ ِ انتخاب اور نظر مراد مرکوز ہوگئی، اور انہی دونوں کے لئے آپ نے بارگاہِ الٰہی میں اپنی شدت آرزو اور طلب و مراد کا اظہار فرمایا کہ ’’الہٰ العالمین ! اسلام کو ابو جہل عمر و بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے قوت و طاقت عطا فرما، ان دونوں میں سے تجھے جو بھی محبوب ہو، اسے مشرف بہ اسلام فرما۔ ‘‘
ابو جہل عمر و بن ہشام ، عمر بن خطاب کا ماموں تھا اور ان دونوں (ماموں بھانجے ) کا اُس معاشرے میں کیا مقام ہوگا ؟اس کا اندازہ رسول اللہ ﷺ کی اس طلب و مراد سے لگا یا جا سکتا ہے جو دعا بن کر آپ ﷺ کی زبان اقدس پر آگئی اور آپ کی زبان اقدس سے نکل کر عرش کی بلندیوں پر پہنچ کر بابِ اجابت کو واکرتی ہوئی مجیب الدعوت کی بارگاہ میں عمر بن خطاب کے حق میں مستجاب ہوئی۔ آپ کے اسلام قبول کرنے کی کئی روایات ہیں۔ دو روایتیں جو حضرت عمر کے قبولِ اسلام اور ان کی شرافت نفس پر دلالت کرتی ہیں،وہ یہ ہیں۔
جب حضور ﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم دیا تو حضرت عمر ؓکو صدمہ ہوا۔ اُم عبد اللہ حضرت لیلیٰ بنتِ ابی حشمہ کہتی ہیں کہ ہم جب ہجرت کر رہے تھے تو عمر بن خطاب آئے، عمر نے کہا ،اے عبداللہ کی ماں خیریت تو ہے، کہاں کی تیاری ہے؟ انہوں نے مجاہدانہ انداز سے کہا، ’’ اے ابو حفص ! جب بھائی بہنوں کے خون کے پیاسے ہو جائیں تو پھر مشکل فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں۔ تم نے ہمیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عمر نے کہا، اے ام عبداللہ جانا یقینی ہے ؟ میں نےکہا، ہاں، قسم بخدا ، تم لوگوں نے ہمیں بہت ستایا ہے۔
اب اللہ نے نجات کی راہ پیدا کر دی ہے۔عمر لاجواب ہو کر بولے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہو۔ ‘‘جیسی رقت اس وقت میں نے اُن پر طاری دیکھی ،کبھی نہ دیکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت دارِ ارقم میں اقامت فرما تھے۔ عمر شمشیر بدست گھر سے نکلے ۔ راستے میں نعیم بن عبداللہ ؓ مل گئے، انہوں نے پوچھا، کہاں ؟ بولے، محمد ﷺ کا قصہ پاک کرنے جا رہا ہوں۔
نعیم نے کہا ’’ پہلے اپنے گھر والوں کی خبر لو۔ پھر اُن سے نمٹ لینا، عمر نے پوچھا، میرے گھر والے کون ؟ نعیم ؓ نے جواب دیا کہ تمہارے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سعید بن زیدؓ اور تمہاری بہن فاطمہ ؓ دونوں مسلمان ہو چکے ہیں، حضرت عمرؓ سیدھے اپنی بہن کے گھر پہنچے۔
اس وقت حضرت خباب بن ارت ؓ قرآن کریم کے اجزاء ہاتھ میں لئے ان دونوں میاں بیوی کو سورۂ طٰہٰ پڑھا رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ کی آہٹ پاکر خباب ایک کوٹھری میں چھپ گئے ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت خباب ؓکی آواز سن لی تھی، گھر میں آتے ہی کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تم دونوں نے محمد ﷺ کا دین قبول کر لیا ہے۔ یہ کہہ کر بہنوئی سعید پر چھپٹ پڑے۔
بہن شوہر کی مدافعت کے لئے آگے بڑھیں تو بھائی نے ان کے چہرے پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ وہ لہو لہان ہو گئیں، وہ غصے سے بولیں کہ ’’اے دشمن خدا تو مجھے اس لئے مارتا ہے کہ میں کہتی ہوں کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اگر یہی بات ہے تو سن لو کہ ہم اسلام لا چکے ہیں، ہم اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دے چکے ہیں‘‘۔’’ جو تیرا جی چاہے کر لے‘‘ ۔
بہن کا خون آلود چہرہ ، یہ جواب ! عمر گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ غصہ فرو ہو گیا۔ رقتِ قلب عود کر آئی ، بہن سے کہا، مجھے وہ کلام دکھاؤ ،جسے تم پڑھ رہی تھیں۔ بہن نے کہا، ہر گز نہیں۔ بھائی نے کہا، بہن تیری بات میرے دل میں اتر چکی ہے، مجھے وہ کلام دو کہ میں اسے خود پڑھوں، میں قسم کھاتا ہوں کہ اسے ضائع نہیں کروں گا۔
بہن نے کہا ، پہلے غسل کرو پھر صحیفہ دوں گی۔‘‘ بہن کی اس سادہ سی تدبیر میں نگاہ کا زاویہ اور دل کا ارادہ بدلنے کے لئے کئی نفسیاتی موثرات پوشیدہ تھے۔ عمر ؓ نے غسل کیا ،قرآن کے اجزاء ہاتھ میں لئے، عمر قرآن پڑھتے جاتے اور ان کے دل کی حالت بدلتی جاتی تھی۔
تلاوت ختم کی تو عمر ؓ کے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ بولے ’’کتنا حسین اور بزرگ ہے یہ کلام۔ اُن کی زبان سے یہ الفاظ سن کر حضرت خبابؓبھی کو ٹھری سے باہر نکل آئے اور کہا!’’ خدا کی قسم ، اے عمرؓ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے لئے منتخب کر لیا ہے۔ میں نے کل حضور ﷺ کو یہ دعا مانگتے سنا تھا کہ ’’الٰہی اسلام کو عمر و بن ہشام یا عمربن خطاب کے ذریعے عزت وقوت دے۔ ‘‘ ’’حضرت عمر ؓنے حضرت خباب ؓ سے کہا کہ میری رہنمائی کرو اور مجھے جناب رسالت مآب ﷺ کے پاس لے چلو۔‘‘
حضرت عمرؓ اقامت گاہ نبوت پر پہنچے، اندر سے دروازہ بند تھا۔ صحابہؓ نے عمر بن خطاب ؓکی آواز سنی تو گھبرا گئے۔ حضرت حمزہ ؓنے کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ،اگر عمرؓ نیک ارادے سے آیا ہے تو بسم اللہ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہم سے بچ کر نہیں جا سکے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا اسے اندر آنے دو اور حضرت عمرؓ کا دامن پکڑ کر فرمایا ’’اے ابن خطاب تم ایسے وقت میں یہاں کیسے؟
آپ ﷺ کے سامنے اس وقت عمر بن خطابؓ نہیں تھے ، بلکہ تین دن پہلے آپ ﷺ نے جو دعا مانگی تھی ،وہ قبولیت کے مجسم پیکر میں آپ کے سامنے تھی۔ عمر بن خطاب ؓنے کہا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ ! یہ گواہی دینے کے لئے آیا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ‘‘ ۔ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے کہا ’’اللہ اکبر‘‘ یہ شاید تاریخ اسلام میں یہ پہلا نعرۂ تکبیر تھا جو رسول اللہ ﷺ نے اسلام کو عمر فاروق ؓ کی شکل میں بے مثل و بے نظیر قوت و طاقت حاصل ہونے پر بلند کیا اور حضرت عمر فاروقؓ کے قبول اسلام کا دن حقیقی ’’یوم تکبیر ‘‘ تھا۔
حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام لانے کا واقعہ تاریخ اسلام میں ایک خط امتیاز کھینچ دیتا ہے ۔ کفر کی یہ بجلی جب اسلام کی تلوار بن گئی تو مکہ کے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو بڑی قوت و طاقت اور ہمت حاصل ہوگئی۔ اب تک مسلمان چھپ چھپ کر نماز اور دیگر دینی فرائض ادا کرتے تھے ، مگر حضرت عمر ؓ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے کافروں کو جمع کر کے اسلام کا اعلان کیااور کہا یا رسول اللہ ﷺ اب کعبہ میں نماز ادا کی جائے گی۔
حضرت عمر ؓ کی خواہش پر رسول اللہ ﷺ نے جماعتِ مومنین ، جس کی تعداد حضرت عمر ؓ کے اسلام قبول کرنے سے چالیس ہو گئی تھی، کو لےکر بیت اللہ میں تشریف لائے، دو صفیں ترتیب دیں۔ ایک صف کے قائد حضرت عمر ؓ تھے اور دوسری صف کے حضرت حمزہ ؓ تھے۔ اس طرح کعبہ میں پہلی بار نماز باجماعت ادا کی گئی۔ (بحوالہ ابنِ اسحاق، مسنداحمد بن حنبل ، سیرت ابنِ ہشام، ابنِ سعد، بحوالہ ہیکل)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓنے اسلام قبول کیا تو ہم بالادست ہوگئے۔ عمرؓ کا اسلام ہماری کامیابی تھی۔ ان کی کفر و شرک سے اسلام کی طرف ہجرت ہماری نصرت تھی۔ جب تک عمر ؓاسلام نہ لائے تو ہم کعبہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ،جب وہ اسلام لائے تو قریش سے لڑ بھڑ کر اُن سے ہمارے اس حق کو تسلیم کرالیا کہ ہم بھی کعبہ میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ (صحیح بخاری)
حضرت صہیب ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ مسلمان ہوئے تو اسلام کھل کر سامنے آگیا اور اس کی دعوت علانیہ دی جانے لگی۔ ہم کعبہ کے گرد حلقے بنا کر بیٹھتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے۔ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لیتے اور بدزبانی کرنے والے کو دندان شکن جواب دیتے ۔ اسلام اور مسلمانوں کو اسی جرأت وہمت کے حاصل ہونے پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ’’فاروق ‘‘کے ممتاز لقب سے سرفراز فرمایا یعنی وہ جس کی وجہ سے کفر اور اسلام ، حق اور باطل کا فرق نکھر کر سامنے آیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل کو حق سے سرفراز فرمایا اور وہ فاروق ہیں جن کے ذریعے حق اور باطل میں تفریق کی گئی۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ کی فضیلت و اہمیت میں یہی کافی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا ،وہ سب خود اپنی خواہش سے مسلمان ہوئے، حضرت عمر ؓ رسول اللہﷺ کی اللہ سے طلب اور مراد اور دعاء مانگنے کے بعد بارگاہِ خدا وندی میں دعائے رسول اللہ ﷺ کی قبولیت کے نتیجے میں اسلام لائے۔ گویا کہ تمام صحابہ مریدِ رسول اللہ ﷺ ہیں اور حضرت عمر فاروقؓ مرادِ رسول اللہ ﷺ ۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی فضیلت و منزلت میں رسول اللہ ﷺ کا اتنا فرمانا ہی کافی ہے کہ ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ؓ ہوتے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا یہ فضل یعنی نبوت توختمی مرتبت ﷺ پر ختم ہو گئی، لیکن اگر ایسا نہ ہوتا اور آپ ﷺ کے بعد انسانوں میں سے جسے یہ فضلِ الہٰی اور نعمت الہٰی حاصل ہوتی، وہ حضرت عمر فاروق ؓ ہوتے ،اسی سے مناسبت رکھتی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سابقہ امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی محدث ہیں تو عمر ؓ ہیں۔ (بخاری، باب فضائل صحابہ مناقبِ عمرؓ)محد ث وہ جو نبی تو نہیں ہوتے، لیکن جنہیں الہام کیا جاتا ہے۔
ان دونوں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ میں رسول اللہ ﷺ کی مزاج شناسی کے ساتھ فہم اسلام، الوہی علوم کی پہچان اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیمات دین اور احکامِ قرآن و سنت کے نفاذ کی زبردست صلاحیت تھی جس طرح کہ انبیائے کرامؑ میں ہوتی ہے۔ وہ دین پر کامل یقین رکھتے تھے اور اسے نافذ کرنے کی صلاحیت و قوت بھی ۔ یہ فرمانِ رسول اللہ ﷺ بھی آپ کی شخصیت کی اسی صلاحیت کو واضح کرتا ہے کہ ’’ اللہ نے عمر کی زبان اور دل کو حق سے معمور کر دیا ہے۔‘‘ (ترمذی)
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس نے ہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔آپ نے دنیا میں پہلی بار ’’فلاحی ریاست ‘‘ کا تصور پیش کیا ۔ آپ نے دین کے انصرام ، بے مثل عدل و انصاف ، عمال حکومت کی سخت نگرانی ، رعایا کے حقوق کی پاس داری ، اخلاصِ نیت و عمل ، جہاد فی سبیل اللہ ، زہد و عبادت ، تقویٰ اور خوفِ خدا، خشیت الہٰی اور دعوت دین اور فتوحات ِ اسلامی کے میدانوں میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
انسانی رویوں کی گہری پہچان، رعایا کے ہر فرد کے احوال سے ہر وقت آگاہی اور حق و انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کرنے کے اوصاف میں کوئی حکمراں فاروقِ اعظمؓ کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب و جلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی، فروتنی اور تواضع کا پیکر تھے۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے، دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔
حضرت سیدنا فاروقِ اعظم ؓ کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمراں بننے کی کوشش کی، اسے فاروق اعظم ؓ کے قائم کردہ ان زرّیں اصول ِ حکومت و سیاست کو مشعل راہ بنانا پڑا۔ جنہوں نے اُس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔