اس وقت عالمی سطح پر ایک طرف بھارتی انتخابات کے بعد نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں، تو دوسری جانب پاکستان فروری کے انتخابات کے بعد خود کو معاشی بحران سے نکالنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔مالی اور انتظامی بد نظمی سے دو چار ملکی معیشت میں استحکام کیلئے مسلم لیگی حکومت سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے مگر آئی ایم ایف کے دبائو اور مشاورت سے بنائے گئے قومی بجٹ میں جو سخت فیصلے کئے گئےہیں اس سے ملک کا تقریباً ہر طبقہ متاثر ہو کر سراپا احتجاج ہے۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ عام آدمی کی مشکلات میں خوفناک اضافہ ہو ا ہے، ایک جانب مہنگائی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کی رٹ بھی دکھائی نہیں دے رہی۔بجلی اور گیس کا بحران بے قابو ہو گیا ہے،گیس کمپنیاں رات نو بجے سے صبح آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم کو صبح چھ بجے تک لوڈ شیڈنگ کے احکامات پر عمل در آمد کرانا چاہئے،پیٹرول کی قیمتوں میں پچھلے چند دنوں میں عوام کو کوئی فائدہ تو کیا ملتا الٹا پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ۔ حکومتی رٹ نہ ہونے سے گرانی ختم نہیں ہوسکی، بجلی اور گیس کے نرخ بھی مسلسل بڑھائے جارہے ہیں ۔حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ہیں ، مگر قوم کی مشکلات کا ازالہ بھی توحکومت کی ذمے داری ہے۔ ان مشکل حالات میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے،بھارت اور افغانستان کی جانب سے ان دہشت گردوں کو مکمل سر پرستی حاصل ہے،جن کی کوشش ہے کہ سی پیک منصوبہ کسی طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ان عناصر کے خلاف جیسے ہی آپریشن عدم ستحکام کا اعلان کیا گیا،دہشت گردوں کی خاموش حامی امریکی کانگریس نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کے خلاف قرارداد منظور کر کے ثابت کردیا کہ پاکستان کی ایک جماعت جو اقتدار سے محرومی کے بعد مسلسل پاکستان کے اداروں کے خلاف مہم چلارہی ہے اس کو بھی امریکا کی حمایت حاصل ہے۔امریکی قراردادپاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت ہے،جس پر قومی اور صوبائی اسمبلی میں ارکان نے مذمتی قرارداد منظور کر کے عوام کی حقیقی ترجمانی کی اور اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کچھ سیاسی لوگوںکو بھارت، امریکا اور اسرائیل کی بھرپور حمایت پچھلے کئی سال سے مل رہی ہے ، انتخابی مہم میں بھی اسی کا پیسہ پانی کی طرح استعمال کیا گیا ۔امریکی کانگریس کو خود بھی معلوم ہے کہ اس کے ملک کی پالیسیاں جمہوری حکومتوں کے حوالے سے داغ دار ہیں۔ امریکا نے ہمیشہ غیر جمہوری حکومتوں اور عمل کو سپورٹ کیا ہے۔امریکا میں انتخابات کون سے شفاف ہوتے ہیں،پچھلے صدارتی انتخابات پر ڈونلڈ ٹرمپ آج تک ناخوش ہیں اور نومبر کے انتخابات پر بھی شک وشبہ کا اظہار کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہےاگر وہ نومبر کا انتخابات نہ جیتے تو یہ ملک کے لیے خونریز ثابت ہو گا۔انہوں نے یہ بات پچھلے مارچ میں امریکی ریاست اوہائیو میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں کہی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ الیکشن میں نہ جیتا ، تو اس ملک میں دوبارہ انتخابات نہیں ہوں گے، میرا یقین ہے کہ پانچ نومبر ہمارے ملک کی تاریخ کی سب سے اہم تاریخ ہو گی۔‘ٹرمپ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں کیونکہ میں انہیں کبھی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ آپ کو خاموش کر ائیں،وہ آپ کے پیچھے ہیں، میں تو بس راستے میں کھڑا ہوں۔ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ بنیاد پرست بائیں بازو کے ڈیموکریٹس نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کی اور ہم انہیں 2024 کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی نہیں کرنے دیں گے۔ جب بھی بنیاد پرست بائیں بازو کے ڈیموکریٹس، مارکسسٹ، کمیونسٹ اور فاشسٹ مجھ پر فرد جرم عائد کرتے ہیں میں اسےایک اعزاز، ایک بڑا تمغہ سمجھتا ہوں۔کیونکہ مجھ پر آپ کی وجہ سے فرد جرم عائد کی جا رہی ہے اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہمارے دشمن میری آزادی چھیننا چاہتے ہیں کیونکہ میں انہیں کبھی آپ کی آزادی نہیں چھیننے دوں گا۔امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی برادری جس کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے،ان انتخابات میں گہری دل چسپی کا اظہار کررہی ہے۔ بائیڈن نے خود کو کھلے عام اسرائیل کا سب سے مضبوط حامی قرار دیا ہے جس کی وجہ سے امریکا میں مسلم کمیونٹی کی جانب سے انہیں کڑی تنقید کا سامنا ہے، خود امریکی بھی اسرائیلی جار حیت کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی رویے اور فلسطین پر مظالم سے خوش نہیں ہیںاور انہوں نے اسے افسوس ناک عمل قرار دیا۔بہر کیف روس کی جارحیت، چین کی جانب سے درپیش اقتصادی چیلنجز، مشرق وسطیٰ میں جاری تشدد، افغانستان اور کشمیر کی صورت حال، نازک عالمی تعلقات جیسے حالات سے نمٹنا، نئی امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی کے وہ اہم مسائل ہوں گے جن سے نومبر کے انتخابات میں جیتنے والا امیدوار، خواہ وہ بائیڈن ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ بچ نہیں سکتے۔پاکستان میں کچھ لوگوں کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو پاکستان میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جائے گا، مگر ایسا نہیں ہے، موجودہ حکومت مستحکم ہے،ہمیں غیر ملکی دبائو سے نکلنا ہو گا، جمہوریت کے استحکام کے لئے، معاشی حالات میں بہتری کے لئے۔ ساتھ ہی عوام کو بھی ریلیف دینا ہوگا، جس کے لئے وفاق کے ساتھ تمام صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی۔ان اقدامات سے ہی مہنگائی، گرانی، اسٹریٹ کرائم سمیت تمام مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔