• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں ہونے والے انتخابات پاکستانیوں کیلئے ہمیشہ دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں جس کی وجہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد اور پاکستانی نژاد امیدواروں کا برطانوی انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ حالیہ برطانوی الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران معیشت، مہنگائی، امیگریشن، NHS اور ماحولیات جیسے مسائل سرفہرست رہے۔ الیکشن سے قبل ہی مختلف ایگزٹ پول میں لیبر پارٹی کی فتح کی پیش گوئی کی جارہی تھی جو صحیح ثابت ہوئی اور لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے 14 سال بعد برسراقتدار آئی۔ الیکشن نتائج کے مطابق لیبر پارٹی نے 412، کنزرویٹو نے 121 اور لبرل ڈیموکریٹس نے 72نشستیں حاصل کیں۔ برطانوی الیکشن میں کئی حلقوں میں غزہ کا ایشو سب سے اہم رہا جہاں پڑنے والے ووٹوں نے پارٹیوں کے نتائج پر بھی اثر ڈالا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابات میں 15 برطانوی نژاد پاکستانی اور 5 فلسطین کے حامی آزاد امیدوار کامیابی حاصل کرکے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بنے۔

برطانیہ کی لیبر پارٹی کو پاکستانیوں اور مسلمانوں کی پارٹی تصور کیا جاتا ہے۔ لیبر پارٹی کی پالیسیاں ہمیشہ سے برطانیہ میں مقیم مسلمان تارکین وطن کی حمایت میں رہی ہیں۔ اس پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پاکستانی نژاد مسلمانوں کو الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ دیئے اور برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایشین اور پاکستانی نژاد مسلمان محمد سرور کامیاب ہوئے جنہوں نے قرآن پاک پر حلف اٹھایا۔ اسی طرح لیبر پارٹی کے دور حکومت میں برطانیہ میں پہلی مرتبہ ایک پاکستانی نژاد شاہد ملک کو وزیر بنایا گیا جبکہ لیبر پارٹی نے ہی ایک پاکستانی نژاد لارڈ نذیر کو ہائوس آف لارڈ کا رکن منتخب کیا۔ اسلام، برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ برطانیہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلم آبادی اور ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ 1971میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 26 ہزار تھی جو 2021 کی مردم شماری کے مطابق 6.5 فیصد کی شرح سے بڑھ کر 40 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے جن میں پاکستانیوں کی تعداد 16 لاکھ ہے جبکہ برطانیہ میں مساجد کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کی وجہ سے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی مسلمان اراکین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ 2010میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہونے والے 10مسلم امیدواروں میں پاکستانی نژاد مسلمان برطانوی رکن پارلیمنٹ کی تعداد 7تھی جبکہ حالیہ برطانوی انتخابات میں کامیاب 19مسلمان برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ میں 15 پاکستانی نژاد ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے ان مسلمان برطانوی ارکان پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر اور فلسطین پر غیر قانونی طور پر قابض ممالک بھارت اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ واضح رہے کہ لیبر پارٹی کے منشور میں حماس، اسرائیل فوری جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور اسرائیل، فلسطین دو ریاستی حل شامل ہیں۔

بریگزٹ سے نکلنے کے بعد برطانیہ اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے اور برطانیہ کا امیر طبقہ ملک چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت دوسرے ممالک میں منتقل ہورہا ہے جبکہ مہنگائی نے نچلے طبقے کو شدید متاثر کیا ہے اور ایک خبر کے مطابق حالیہ دنوں میں صرف لندن میں 12 ہزار سے زائد افراد سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ حالیہ برطانوی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی بدترین شکست کی اہم وجہ بھی ناقص معاشی پالیسی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری تھی جس پر بھارتی نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سونک قابو پانے میں ناکام رہے۔ ایسے سخت حالات میں لیبر پارٹی کے لیڈر اور نومنتخب وزیراعظم کیئر اسٹارمر ’’تبدیلی کا وقت آچکا ہے‘‘ کا نعرہ لے کر میدان میں اترے اور کنزرویٹو پارٹی کے 14سالہ راج کا خاتمہ کردیا جس نے حالیہ الیکشن میں صرف 121نشستیں حاصل کیں۔ انتخابات میں کامیابی اور برطانیہ کے پرنس چارلس سوم سے ملاقات کے بعد لیبر پارٹی کے سربراہ اور نومنتخب برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ نئے برطانوی وزیراعظم کیلئے طاقتور عالمی معیشت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنا اور معیشت کی بحالی جیسے بڑے چیلنجز ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کیئر اسٹارمر کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے جبکہ اُن کی اہلیہ اور بچے یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ الیکشن نتائج منظر عام پر آنے کے بعد سبکدوش وزیراعظم رشی سونک کا خندہ پیشانی سے اپنی شکست تسلیم کرنا، مخالف پارٹی کے لیڈر کیئر اسٹارمر کو کامیابی پر مبارکباد دینا اور نئی حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلانا تھا۔ الیکشن نتائج کے بعد مخالفین کی جانب سے الیکشن کی شفافیت پر نہ تو کوئی سوال اٹھایا گیا، نہ دھاندلی اور ووٹ چوری کا الزام لگایا گیا اور نہ ہی احتجاج کی کوئی کال دی گئی۔ افسوس کہ پاکستان میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کاش کہ پاکستان میں بھی مغربی طرز جمہوریت کی کوئی روایت قائم ہوجائے۔

تازہ ترین