ہورہی یکساں ترقی۔ ہورہے سب خوشحال
خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہمارا بلوچستان
حکومت پاکستان کا آدھے صفحے کا اشتہار شائع ہوا ہے۔14اگست 1947نزدیک ہے۔ 77سال پہلے کے جولائی 1947میں جھانکیے۔ کیا امیدیں تھیں۔ بانیانِ پاکستان کی تگ و دو ،جدو جہد رنگ لارہی تھی۔ اب 77 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مہنگائی نے گھروں کا سکون چھین لیا ہے۔
انہی دنوں میں 77 سال پہلے ہم نعرے لگارہے تھے۔ ’بن کے رہے گا پاکستان‘۔ قیادت ایماندار تھی۔ بر صغیر کے مسلمان باشعور تھے۔ اس لیے تمام رکاوٹوں کے باوجود پاکستان بن گیا۔ قیادت کی نیت خراب ہوتی رہی، نئے جاگیردار، نئے سرمایہ دار غالب آتے رہے، ایمان کی جگہ ہوس زر نے لے لی۔ اب 77 سال بعد ہم ہر قسم کے بحران میں مبتلا ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کے ذریعے قوم کے شعور نے پھر مجھ جیسے امید پرستوں کو یہ شہادت دی ہے کہ ’’بن کے رہے گا مستحکم جمہوری پاکستان‘‘۔ 8 فروری کو بھی تمام جبر کے باوجود قوم کے ادراک نے بشارت دی تھی۔ اب بھی فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ ، الیکٹرونک میڈیا پر کبھی کبھی یہ خواہش عود کرتی نظر آتی ہے کہ ’’بن کے رہے گا مستحکم جمہوری پاکستان‘‘۔ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ اگست 1947 سے اب تک کے مختلف ادوار میں بزرگوں، نوجوانوں، اسکالرز،سیاسی کارکنوں کا شاہی قلعے،اٹک قلعے،مچھ،منٹگمری، کوٹ لکھپت، اڈیالہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے چمکتی جوانیاں گزارنے کا مقصد ’مستحکم جمہوری پاکستان‘ ہی رہا ہے۔
میں اور میری نسل واہگہ سے گوادر تک ایک شدت کا اضطراب دیکھ رہی ہے۔ جس کی آرزو اقبال نے کی تھی کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔ مفکر پاکستان! اس وقت ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب ہے۔ احساس زیاں بھی ہے۔ مگر خودی کو بلند نہیں کیا جارہا ہے۔ اس لیے خدا بندے سے نہیں پوچھ رہا کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔
حقائق یہ ہیں کہ 1۔دس کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی لائن کے نیچے ہیں۔ 2۔60 فی صد نوجوان آبادی، توانا دست و بازو کا استعمال ملک کے مفاد میں نہیں ہو رہا ہے۔ 3۔ اربوں ڈالر کے قرضے پہلے سے ہیں، ان کا سود بھی پورا ادا نہیں ہو رہا ہے، مزید قرضے لیے جارہے ہیں۔ 4۔ اکثریت بے نوا ہے، نادار ہے، پامال ہے، اس پر ٹیکس لاد دیے گئے ہیں۔ 5۔ ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل اور دوسرے مملکتی ادارے نہ تو عوام کو سہولت دے رہے ہیں۔ نہ نفع کمارہے ہیں۔ 6۔ وفاقی صوبائی ضلعی حکومتیں نہ تو اپنے لوگوں کی مشکلات آسان کر پا رہی ہیں اور نہ ہی اپنے ہمالیہ جیسے بلند اخراجات میں کمی کر رہی ہیں۔ 7۔ قومی محصولات اور قومی اخراجات میں فرق بڑھ رہا ہے۔ اس فرق کا بوجھ بھی تنخواہ داروں پر ڈال دیا گیا ہے۔ 8۔ ریکوڈک سمیت اپنے معدنی ذخائر سے ملکی آمدنی میں اضافے کیلئے کسی تدبیر کو ترجیح حاصل نہیں ہے۔9۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی زرخیز زمین عطا کی ہے۔ اس میں فی ایکڑ پیداوار نہیں بڑھائی جا رہی۔ گندم، چاول، گنے، کپاس، ٹماٹر، ادرک، سبزیاں، پھل، ملکی ضروریات بھی پوری نہیں کرپارہے ہیں۔ اس لیے برآمدات میں کیسے شامل ہوں۔ 10۔ مینو فیکچرنگ کم ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت کی چھوٹی چھوٹی اشیا بھی درآمد کی جا رہی ہیں۔ 11۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی درآمد ہورہی ہیں۔ 12۔ نوجوانوں کو مصروف رکھنےکیلئے روزگار کی اسکیمیں نہیں ہیں۔ اس لیے وہ بیرون ملک قسمت آزمائی کیلئے جا رہے ہیں۔ 13۔ ریاست اور عوام میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ 14۔ محاذ آرائی ہر قسم کی موجود ہے۔
یہ صورت گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے بد تر ہورہی ہے۔ اس لیے تاریخ اور منطق یہ کہتی ہے کہ پاکستان والوں کو آئندہ کم از کم پندرہ سال کا روڈ میپ بنانا چاہئے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کرنے کیلئے اشتراکِ عمل ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں اقتصادی ماہرین ہیں۔ جنہیں بین الاقوامی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں ماہرین تعلیم ہیں۔ وائس چانسلرز ہیں۔ پروفیسرز ہیں۔ کارپوریٹ ادارے ہیں۔ دوا ساز کمپنیاں ہیں۔ تحقیقی ادارے ہیں یونیورسٹیاں ہیں جہاں سوشل سائنسز پڑھائی جاتی ہیں دینی مدارس ہیں۔ جہاں جدید و قدیم علوم کی تدریس ہورہی ہے۔ سابق وزرائے خزانہ۔ سابق وزرائے منصوبہ بندی۔ یہ سب اپنے وطن کو ترقی یافتہ اپنے عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ باشعور نوجوان جو اسٹارٹس اپ کی حیثیت سے اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دو تین عشروں میں نئے کاروبار متعارف ہوئے ہیں۔ وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ ٹی وی ڈراما انڈسٹری بن چکا ہے۔ اس میں بھی قوت تخلیق کا مظاہرہ ہورہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف مقبولیت کی بلندی پر ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس کی سرکار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) وفاق اور پنجاب میں حکمران ہے۔ اس کا 38 سالہ تجربہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو 1971 سے مختلف ادوار میں حکمران رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام بھی جہاندیدہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ہے، جماعت اسلامی کی جمہوری جدو جہد کی اپنی ایک تاریخ ہے۔بائیں بازو کی کئی پارٹیاں ہیں۔
فلاحی تنظیموں کا ایک بہت بڑا دائرہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر عبدالباری ہیں۔ امجد ثاقب ہیں۔ بشیر فاروقی ہیں۔ فیصل ایدھی۔ رمضان چھیپا۔ کیا یہ سب مل کر پاکستان کو اس بحران سے نہیں نکال سکتے۔ پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ بلوچستان میں ہو۔ خیبر پختونخوا میں۔ سندھ میں ،پنجاب میں جنوبی پنجاب میں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں۔ ہر ایک کے پاس آئندہ پندرہ بیس سال کا روڈ میپ ہے۔ 14 اگست ہمارا یوم آزادی آرہا ہے۔ کیا ہم سب اپنے ادراک سے ایک روڈ میپ نہیں بناسکتے۔ کیا 14 اگست کو سب قیادت کے دعویدار، قومی اسمبلی کے سامنے اکٹھے تصویر بنواسکتے ہیں۔ ہمارے ذہن، ہمارے دریا، سمندر، کھیت، پہاڑ سب زرخیز ہیں۔ کوئی عقل کل نہیں ہے۔ سب وطن کی سلامتی چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں قیادت کی دعویدار ہیں۔ سب اپنے اپنے ماہرین کی مدد سے روڈ میپ تیار کریں۔ جولائی کے آخری ہفتے میں سب اپنے اپنے لائحہ عمل قوم کے سامنے لائیں۔ قرضے کیسے اتریں گے۔ اپنے وسائل سے آمدنی کیسے اور کتنی ہوگی۔ نوجوانوں کی ذہنی۔ جسمانی توانائی ملکی خوشحالی کیلئے بروئے کار لائی جائے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں یہ روڈ میپ پیش کیے جائیں۔ مجھے یقین ہے ۔
’’بن کے رہے گا مستحکم جمہوری پاکستان‘‘