گردن کٹی نماز کے دوران آہ آہ
سجدے میں ہوگیا کوئی قربان آہ آہ
رہتا ہے تازہ سانحۂ کربلا کا غم
آتا نہیں قرار کسی آن آہ آہ
پانی نہ دے سکے وہ سکینہ کو پیاس میں
عباس ہوں گے کتنے پشیمان آہ آہ
زینب کے بیٹے ماں سے اجازت پہ ہیں بضد
گو واپسی کا قصد نہ امکان آہ آہ
انسان، اور بے حِس و بے رحم اِس قدر؟
بخشی نہ شیر خوار کی بھی جان آہ آہ
ہیں ظالموں کی زد پہ رفیقوں کے ساتھ امام
خیموں میں بی بیاں ہیں پریشان آہ آہ
تنہائی میں نہ پُوچھئے صغریٰ کی بے دلی
گھر کیا، تمام شہر ہے سنسان آہ آہ
کیوں ذکرِ کربلا پہ نہ بھر آئے دل شعورؔ
وہ دشت آہ آہ، وہ میدان آہ آہ