بابا اپنا ہو یا بدیشی ،بابا تو صرف بابا ہی ہوتا ہے اور جو سالک نہ ہو وہ بابا نہیں ہو سکتا جبکہ سالک وہ ہوتا ہے جس کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ لوگ اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اپنے حسنِ سلوک سے خوش رکھے۔
میں نے کبھی کسی بابے کی مجلس نہیں چھوڑی۔ شرط یہ ہے کہ مجھے خبر ملنی چاہئے۔ ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ ہر بابے کا بوڑھا اور باریش ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ اس بات کی تصدیق وہ سارے دوست اور کامریڈ کریں گے جنہوں نے پنجابی زبان کے منفرد لہجے والے عوامی شاعر بابا نجمی کی جوانی دیکھی ہے۔ جو لوگ عوام میں رہ کر عوام کے لئے جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے ۔ یہاں جوانی سے میری مُراد یہ ہے کہ جب بابا نجمی کے کاندھے پر لہرانے والے اُن کے بال کالے تھے۔ آج کل اُن میں چاندی گُھس گئی ہے۔ کچھ دن پہلے میں تربیلہ ڈیم کے پیچھے پہاڑوں کے عین درمیان عمر خانہ گائوں گیا۔ جہاں بابا حمید خان رہتے ہیں۔ میں تھکا ہوا تھا اس لئے اُن کی چارپائی پر لیٹتے ہی اُونگھ آ گئی۔بابا جی صفا چٹ چہرے کے ساتھ کمرے میں آئے۔ کہنے لگے بارش نے نالے کا بند توڑ دیا تھا۔ تم وہیں آجاتے پتھر لگانے میں میرا ہاتھ بٹاتے۔ اِن کے ہاتھوں پر پتھر سے بھی زیادہ سخت نشان دھرتی ماں کی تابعداری کا ثبوت ہیں۔ صبح چار بجے سے رات بارہ بجے تک لنگر چلتا ہے، لنگر کے لئے فصل اپنے ہاتھوں سے اُگاتے ہیں۔ آٹھ عشروں کی عمر میں آج بھی بیل اور بھینسے خود پالتے پھر انہیں ذبح کر کے مخلوقِ خدا کی روزانہ مہمان نوازی کرتے ہیں۔نہ کوئی طلب نہ کوئی خواہش نہ کوئی ضرورت۔ ایک جوڑا کپڑے اور چپل تب تک چلتے رہتے ہیں جب تک پھٹ نہیں جاتے۔ عوام کے لئے جینے اور انہیں جگانے والے ایک اور بابے شاعرِ عوام حبیب جالب کی برسی کے موقع پر لاہور کے کچھ بے تخت و تاج دوستوں نے اُن کی آخری آرام گاہ پر حاضری کرائی۔ اِن میں سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل الیاس خان، اچھرہ کے سابق نائب ناظم شکیل پاشا۔ ڈسٹرکٹ بار لاہور نائب صدارت کے اُمیدوار ساجد منور قریشی، سابق جج میاں حنیف طاہر، حبیب جالب کے بیٹے ناصر جالب ۔ اس موقع پر وکلاء اور اہلِ دانش کے علاوہ شاعرِ عوام کے چاہنے والوں کی ایک اچھی تعداد اور علاقے کے لوگوں سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔ جالب فاونڈیشن کے کارکنوں سمیت سب کو ایک ہی شکایت تھی۔ وہی جو رئوف کلاسرا نے میرا نام لکھ کر اپنے کالم میں بطورِ یاد دہانی بیان کی۔ پنجاب کو ملنے والے 700ارب روپے کا وہ خزانہ جو نیشنل فنانس کمیشن نے بھجوایا ہے۔ جالب کے چاہنے والے اُس وقت بہت خوش ہوتے ہیں جب کوئی سیاسی رہنما جالب کے اشعار بازو لہرا لہرا کر پڑھتا ہے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر اُداس ہو جاتے ہیں کہ جس مال روڈ پر جالب نے عوام کی حکمرانی کے لئے سر پر لاٹھیاں کھائیں وہاں نہ اُس کی کوئی یادگار ہے نہ ہی اُس کی قبر پرچھپر۔ سرائیکی وسیب کے لیّہ سے لے کر ایٹم ساز کہوٹہ تک کے عوام انتظار کر رہے ہیں کہ 700ارب سے اُن کی تقدیر بدلنے کے لئے حصہ کب پہنچے گا...؟
کون نہیں جانتا پیارے پاکستان میں دو قسم کی مخلوق آباد ہے۔ پہلی وہ جس کے ناز اُٹھانے کے لئے اربوں کھربوں کے قیمتی تحفے ملتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تحفے پر اصلی تے وڈی’’اپوزیشن‘‘ کو کچھ شکوک پیدا ہو گئے تھے۔ قوم کو مبارک ہو اب وہ شکوک وزیراعظم صاحب نے دُور کر دیئے ہیں۔ ہر شک دُور کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ماہرِ امراض پوشیدہ کی دوا استعمال ہوتی ہے۔ یہاں استعمال ہونے والی دوا عربی تھی، دیسی یا فارسی...؟ یہ مریض جانے یا طبیب۔ عوام تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اُن کا مرض دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ بھوک کا مرض، افلاس کا مرض۔ بے روزگاری کی بیماری اور جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں بیوہ جیسا یرغمالی نظام۔ عام آدمی کا مرض لا دوا ہے۔اب یہ مرض ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے نہ کوئی دوا دینے والا ہے اور نہ ہی دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے والا۔ جنہوں نے عوام کے درد کی بات کرنے کے لئے حزبِ اختلاف کے عہدوں پر حلف اُٹھائے ہیں۔ وہ ظالم نظام سے پوچھ کر نظریہ ضرورت کے عین مطابق کلمہ حق کہتے ہیں۔ اس قبرستانی ماحول میں مراعات، عہدوں، انعامات اور تمغوں کے پیچھے لگی ہوئی میراتھن ریس کا کوئی کھلاڑی بھی وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ایسے میں بابا نجمی نے اسٹیٹس کو والے بڈھے راوی کے مفادات سے آلودہ پانی میں نوکیلا پتھر مارا ہے۔ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے نام پنجابی زبان میں لکھا گیا یہ توجہ دلائو نوٹس(call attention notice)پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کا کچھ خوردہ لنگر سمجھ کر قبول کر لیں:۔
چھے دی روٹی، دس دا نان
بدل گیا جے پاکستان
دو دی روٹی کتھے گئی ...؟
ساڈی بوٹی کتھے گئی
میری ڈکّے کون زبان
بدل گیا جے پاکستان
ساڈا ہویا ککھ روپیہ
لبھدی پھردی اکھ روپیہ
بندے ایتھے بھُکھاں کھان
بدل گیا جے پاکستان
کھیڈ حیاتی اوکھی ہوئی
پُتر دے نال دھی وی جوئی
ساہنواں دا وی دیاں لگان
بدل گیا جے پاکستان
گھر گھر پئی یتیمی اُگے
ڈھنیدے، نالے سڑدے جُھگے
راکھے ساڈے مرن جوان
بدل گیا جے پاکستان
ایک بدیشی بابے نے بمبئی میں اپنی سی مہم شروع کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے نئے ممبئے میں سارے وسائل کارپوریٹ ہندوستان یعنی کاروباری لوگوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ اس سرکاری پالیسی کے ری ایکشن کے طور پر بابا تاب ناک انڈیا کی وہ کٹی ہوئی ناک میڈیا پر دکھاتا ہے ۔ جہاں بڑے بڑے انٹرچینج کے نیچے لاکھوں لوگ فیملی سمیت رہتے ہیں۔ یہیں بچے پیدا ہوتے ہیں، یہیں سے ارتھیاں اور جنازے اُٹھتے ہیں۔ یہ بابا سورگ میں جائے گا یا اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا لیکن اُس کے دور میں جینے والے لوگ جہنم میں زندگی کیوں گزاریں اس بغاوت کا فیصلہ بابے نے خود کر دیا ہے۔
بابا نجمی سچ کہتا ہے۔ پاکستان بدل گیا ہے۔ لوگ اپنے آپ کو چوراہے میں کھڑا دیکھتے ہیں۔ ایک طرف بابا نجمی کا بدلا ہوا پاکستان ہے۔ دوسری طرف مفاہمت برانڈ جمہوریت کی سیاست۔ جہاں اسلامی اور تبدیلی والے جمہوریہ کے بچے برستی بارش میں ایک ہاتھ سے چھتری پکڑ کر کھلے میدان میں سالانہ امتحان کا پرچہ لکھتے نظر آتے ہیں۔ جہاں تھر کو دیکھ کر تبدیلی تھر تھر کانپتی ہے۔
جٹ گائوں کے سانحے پر ساحر لدھیانوی نے جو نوحہ لکھا تھا میں اُسے بابا نجمی کی نذر کرتا ہوں۔ اس اُمید کے ساتھ کہ جو کوئی اور بابا خاموشی توڑنا چاہے وہ اسے طرح مصرعہ سمجھے...!
ٹوٹتے دیکھ کے دیرینہ تعطل کا فسوں
نبضِ اُمیدِ وطن ابھری، مگر ڈوب گئی
پیشوائوں کی نگاہوں میں تذبذب پا کر
ٹوٹتی رات کے سائے میں سحر ڈوب گئی