حکومت زبوں حال معیشت کی بحالی کیلئے مشکل فیصلے کر رہی ہے تا ہم اسے سیاسی دبائو میں اضافے کے سبب شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ دوست ممالک سے لئے گئے اربوں ڈالر قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کیلئے کوشاں ہے۔ آئی ایم ایف نے چین کو واجب الادا قرضوں کی تین سال کیلئے ری شیڈولنگ کی شرط عائد کر رکھی ہے۔ پندرہ ارب ڈالر توانائی قرضوں کی ری شیڈولنگ کے اہم ترین ٹاسک پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چین کا تین روزہ دورہ کر رہے ہیں۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ قرض کی ری شیڈولنگ کیلئے پاک چین ورکنگ گروپ قائم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان چین میں تین کروڑ ڈالر کا پانڈا بانڈ حاصل کرنا چاہتا ہے اس پر بھی چینی حکام سے بات چیت ہو گی۔ چین کے توانائی کے سرکلر ڈیٹ کا حجم پانچ سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے پرامید ہے تا ہم بعض ناقدین کے اس حوالے سے خدشات ہیں۔ ان کے خیال میں اگر چین قرضوں کی تنظیم نو کرتا ہے تو سری لنکا وغیرہ بھی بیجنگ سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو تاریخی آئی ایم ایف درکار اسٹرکچراصلاحات نافد کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ وزیر خزانہ بھی پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے ذریعے اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ کے نمائندوں سے ورچوئل ملاقات کی ہے جس نے پاکستان کے اقتصادی اشاریوں کی بہتری کا اعتراف کیا ہے ۔ حکومت نے پچاس ارب روپے اکٹھا کرنے کیلئے نئی ریٹیلر اسکیم بیالیس شہروں میں نافد کر دی ہے۔ ریٹیلر ٹیکس کا تعین دکان کے کرائے اور سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہو گا۔ کم سے کم ٹیکس بارہ سو روپے سالانہ ہو گا۔ تاجروں کی ایک بڑی تعداد کو نئی اسکیم کے دائرے سے باہر کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ محض تاجروں کے ایک محدود طبقے سے پچاس ارب کا ٹیکس حاصل ہو سکے گا؟