بدھ کے روز اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اگرچہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کاکوئی فیصلہ یا اعلان سامنے نہیں آیا مگر وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ 9؍مئی 2023ء کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ سے پاک فوج کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، اس کے خلاف بند باندھنا ہوگا۔ 9؍مئی کو پاکستان کی بنیادیں ہلانے میں ملوث ٹولہ ملک کے پرامن شہریوں اور پاک فوج کیخلاف مختلف ہتھکنڈوں اور وارداتوں میں ملوث ہے، پاکستان کے مفادات بچانےکے کازسے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میاں شہباز شریف نے ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کیخلاف منظم سازش قرار دیا۔ بدقسمتی سے افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت کئی گروپ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ کابل میں عبوری افغان حکومت کے قیام کے وقت اس سے دوحہ مذاکرات میں کئے گئے وعدوں کے بموجب افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر حملے کیلئے استعمال نہ کئے جانے کی جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ اس کیفیت کے باعث خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی چوکیوں اور اہم تنصیبات پر حملوں کی کوششیں کی جارہی ہیں جنہیں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے افسر اور جوان اپنی جانیں مادر وطن پرقربان کرکے ناکام بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ آپریشن ’’عزم استحکام‘‘ کا مقصد انہی سرگرمیوں اور انہیں تقویت دینے والے ڈیجیٹل ہتھکنڈوں کی روک تھام تھا۔ وفاقی کابینہ سے خطاب کے دوران میاں شہباز شریف نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے پوری طرح تیار ہیں، چاہتے ہیں کہ معاملات امن اور مذاکرات سے طے ہو جائیں،خطے میں امن سے ہی ترقی و خوشحالی آئے گی۔ یہ حقیقت سب کو ملحوظ رکھنی چاہئے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ہی صدیوں سے تہذیبی، ثقافتی اور دینی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ مشترکہ رسم و رواج اور تجارتی و روزگاری مفادات میں ہم آہنگی ایسی چیزیں ہیں جو انسانوں اور خطوں کو قریب لاتی ہیں۔ پھر افغانستان پر یکے بعد دیگرے دو غیرملکی مداخلتوں کے دوران اور تاحال پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود افغان بھائیوں کی جو میزبانی کی، اس کا تقاضا بھی یہ تھا کہ دونوں ممالک نہ صرف ایک دوسرے کے دست و بازو بنے نظر آتے بلکہ ہر بین الاقوامی فورم پر ہم آہنگی کا نمونہ ہوتے۔ مگر جرمنی اوربرطانیہ کے پاکستانی سفارتخانوں پر حملوں کے واقعات پیش آگئے۔ وزیراعظم کے بموجب یہ انتہائی افسوسناک واقعات ہیں اور ان کا نوٹس لیا گیا ہے۔ یہ نوٹس سفیروں کی طلبی یا احتجاجوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ کابل اور اسلام آباد کے درمیان باہمی رابطوں کے موجود میکنزم کو متحرک کیا جانا چاہئے۔ خطے کے دیگر ممالک اور اہم طاقتوں پر مشتمل کئی دوسرے ادارے بھی موجود ہیں ان کی مدد سے دراندازی کی روک تھام اور ڈیجیٹل دہشت گردی پر قابو پانے کی تدابیر کی جانی چاہئیں کیونکہ درپیش صورتحال پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے کسی ملک کے مفاد میں نہیں۔ جہاں تک معاشی صورتحال کا تعلق ہے نئے آئی ایم ایف منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان میںنئی سرمایہ کاری کے راستے کھل جائیں گے۔ جن سے کئی توقعات وابستہ ہیں۔ اس باب میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالی جائے اور مشترکہ کاوشوں سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے اقدامات بروئے کار لائے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج کی امید بے محل نہیں ہوگی۔