• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ہاتھ میں اس وقت پانچ مرلے کے مکان کابجلی کا بل تھا اور یہ بل پاکستان جیسے کسی غریب ترین ملک کے کسی شہر یا گائوں کے گھر کا نہیں تھا بلکہ یہ دنیا کے مہنگے ترین ملک جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے ایک پر آسائش مکان کا تھا، جہاں تین أئرکنڈیشنر، سمیت آسائش کی ہر وہ چیز موجود تھی جو بجلی سے چلتی ہے، لیکن ان سب کے باوجود چار افراد پر مشتمل کنبے کے گھر کا بل صرف پاکستانی دس ہزار روپے تھا، بجلی کے بل پر موجود دس ہزار روپے کا ہندسہ بار بار میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا کیونکہ کل ہی میں نے پاکستان کے شہر گجرانوالہ میں31 ہزار روپے کے بجلی کے بل پر ایک بھائی کے ہاتھوں دوسرے بھائی کے قتل ہونے کی خبر سنی ہے۔ گجرانوالہ میں قتل کی یہ واردات پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت کچھ بیان کررہی ہے جسے ایک عام انسان بھی سمجھ رہا ہے لیکن اگر کوئی نہیں سمجھ رہا تو وہ ریاست ہے جو نہیں سمجھ پا رہی، جو یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ساٹھ فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جنکی ماہانہ آمدنی تیس سے چالیس ہزار روپے فی کس سے زائد نہیں اور حکومت ان گھروں میں ان کی آمدنی کے برابر یا اس سے زیادہ بجلی کے بل بھیج رہی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو غریب لوگوں کا صبر کتنے عرصے تک بھاری بجلی کے بلوں کایہ بوجھ اٹھا سکے گا؟ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عوام کو جب یہ معلوم ہوکہ جو حکومت ان غریب شہریوں کو ان کی آمدنی سے زائد بجلی کے بل بھیج رہی ہے وہی حکومت بجلی پیدا کرنے والے ارب پتی سرمایہ کاروں کو ماہانہ پچیس سے پچاس کروڑ روپے اس لیے ادا کرر ہی ہے کہ ان کے کارخانوں سے یا تو حکومت کم بجلی خرید رہی ہے یا یہ کارخانے بند پڑے ہیں لیکن ماضی میں کیے گئے معاہدوں کے سبب حکومت اس بات کی پابند ہے کہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں ان کارخانوں کو بھاری رقم ادا کرے گی، ان کارخانوں کے مالکان میں ملک کے امیر ترین سرمایہ کار اور سیاستدان بھی شامل ہیں جن کو غریب عوام کا خون چوس کر حاصل ہونے والی رقم سے ادائیگی کی جا رہی ہے، عوام کے ساتھ زیادتی کی انتہا اور کیا ہو گی کہ انکو بتایا تو یہ جاتا ہے کہ انھیں چالیس روپے سے ساٹھ روپے فی یونٹ بجلی دی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بلوں پر ایسے فارمولے لگا دیئے جاتے ہیں جس کے بعد اگر بجلی تین سو یونٹ سے زیادہ استعمال ہو جائے تو یونٹ اسی سے سو روپے تک ہو جاتا ہے، غرض ایسی کوئی ترکیب باقی نہیں ہے جسے استعمال کر کے بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام کا خون نہیں چوسا جا رہا ہو۔ جب دس دس ہزار کے بجلی کے بلوں کے لیے گھروں میں بھائی بھائی کا قتل کرنا شروع ہوجائیگا تو معاشرے میں غم و غصہ بڑھ جائیگا اور اس کا اگلاہدف حکومت اور ریاست ہو گی۔ مجھے افسوس ان سیاستدانوں اور تعلیم یافتہ بیورو کریٹس پر بھی ہے جو عوام کے مفادات کی بات کرتے نہیں تھکتے لیکن جب ذاتی مفادات کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے عوام کا استحصال کرتے ہیں، کون سوچ سکتا ہے کہ ان سیاستدانوں اور بیورو کریٹوں نے بجلی پید ا کرنے والے ا ن کارخانوں سے دو سو روپے فی یونٹ بجلی خریدنے کا ریاستی معاہدہ کیا ہو گا؟ اور بجلی کی خریداری نہ کرنے پر ماہانہ بیس سے پچاس کروڑ روپے حکومت کی طرف سے ادا کرنے کی شق بھی اس معاہدے میں شامل کی ہوگی؟ کیا ان بیوروکریٹس کو پاکستان کے عوام کی ماہانہ آمدنی معلوم نہیں تھی؟ نجی کارخانوں سے مہنگی ترین بجلی خریدنے کے معاہدے کس نے کیے؟ سیاستدان تو بدنام ہیں ہی لیکن بیوروکریٹس کو کوئی مورود الزام نہیں ٹھہراتا جو زندگی بھر اہم عہدوں پر فائز رہتے ہیں اور پانی، بجلی، گیس، پیٹرول، ملازمین، گھر اور کمیشن کے ذریعے دولت بناتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کو تباہی کے راستے پر ڈالنے میں بیوروکریسی کا سب سے زیادہ رول ہے جن کی بد عنوانی اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے آگے سر جھکانے کے سبب آج پاکستان دنیا کے غریب ترین، کرپٹ ترین ممالک کے بھی آخری نمبروں پر ہے۔ دوسری جانب ریاست کے اہم ترین اداروں کی آپس کی چپقلش کے سبب بھی عوام غربت کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بجلی کے مہنگے بلوں کے سبب گھروں میں ہونے والی قتل غارتگری گھروں سے نکل کر معاشر ے میں پھیل جائے اور جب تک ریاستی اداروں کو ہوش آئے اس وقت تک پانی سر سے اونچا ہو جائے، لہٰذا ریاستی اداروں سے درخواست ہے کہ دنیا کے امیر ترین ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور ضروریات زندگی عوام کی ماہانہ آمدنی سے اوپر نہ جانے دیں ورنہ آنے والے انقلاب کو روکنا آپ کے بس میں نہیں رہے گا۔

تازہ ترین