• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل میں ایند ھن کا حصول آسان بنانے، وائرس سے بچائو کے لیے ادویات کی تیاری اور طویل عمر کے جنین دریافت کرنے کے لیے سائنس داں کوشاں ہے، اس ضمن میں اب تک کیا تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے ذیل میں چند تحقیقات اور دریافتوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔

مائیکروب سےایندھن کا حصول

فوسل فیول یا معدنی تیل کی محدود مقدار کی وجہ سے سائنس دانوں نے حیاتیاتی ایندھن ( بایو فیول ) کی تیاری کی طرف توجہ مرکوز کی ہے جو آپ کی کاریں یا جنریٹر چلانے کے کام آسکے۔ ان بایو فیول کے لئے پودوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پودے قابل کاشت زمین اور تازہ پانی کے استعمال کے محتاج ہوتے ہیں چنانچہ ان کو دوسری نقدآور فصلوں سے مقابلہ کا سامنا ہوتا ہے دوسرا بایو فیول الجی سے تیار کیا جا تا ہے۔ 

الجی سادہ نامیاتی اجسام ہوتے ہیں جو کہ ایک خلوی یاکثیر خلوی ہو سکتے ہیں ۔ (مثلاً:سمندری جھاڑیاں ) زیادہ تیل کی حامل الجی کوبرتن میں اُگایا جا سکتا ہے اور پھر ان سے بایو فیول جزونکالا جا سکتا ہے ۔ شعائی تالیف کے عمل میں الجی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سورج کی روشنی اپنے اندر جذب کرکے بایو ماس اور آکسیجن خارج کرتی ہے۔ الجی سے حاصل ہونے والا بایو فیول معدنی تیل کے مقابلے میں کافی مہنگا ہے۔ 

اس کی لاگت کو کم کرنے کے لئے تیزی سے نموپا نے اور زیادہ مقدار میں پیداوار کے لئے مسلسل تحقیق کی جا رہی ہے۔ بایوفیول کے حصول میں آنے والی لاگت میں اہم حصہ قیمتی تیل کے نکالنے کے عمل میں آنے والی لاگت ہے۔ ایری زونا اسٹیٹ میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک سبزنیلگوں الجی تیار کرکے اس مسئلے کاحل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ 

یہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ الجی ہے ،جس میں اس طرح ترمیم کی گئی ہے کہ ایک خلوی نامیا تی اجسام خود تخریب کا شکار ہوجاتے ہیں اور تیل خارج کردیتے ہیں، ماہرین اس پر مزید کام کر رہے ہیں کہ اس نامیاتی جسم (آرگنیزم) کو خودتخریبی کی ضرورت نہ پڑے جیسے ہی اس میں تیل پیدا ہو ان کے خلیات سے خود بخود باہر نچڑکر آنا شروع کردے اور تیل جمع کرلیا جائے۔

حیاتیاتی ایندھن پر جیٹ مکھی

حیاتیاتی ایندھن وہ ایندھن ہے، جس کو مائیکرو آرگینزم (خوردنی اجسام) سے بنایا جا سکتا ہے یا پھر ان کو غذائی یا نا میاتی فضلہ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ٹھوس بایو ماس، مایع، بایو فیول یا بایو گیس کی شکل میں ہوسکتے ہیں اگرچہ کہ جس مواد سے یہ بنتے ہیں عام طور پر شعاعی تالیف کے عمل سے اخذ کیا جا تا ہے۔ لہٰذا ان کوشمسی توانائی کے ماخذ سے حاصل کردہ کہا جاسکتا ہے۔ مارچ 2011 ء میں ہوا بازی کے میدان میں ایک اہم انقلابی پیش رفت عمل میں آئی ۔ ایک لڑا کا جیٹ ہوائی جہاز کو روایتی جیٹ کے ایندھن اور حیاتیاتی ایندھن کے 1.1کی شرح سے بنائے گئے آمیزے سے اڑایا گیا۔ 

یہ حیاتیاتی ایندھن سرسوں کے خاندا ن Camelina .sativa جس کو عام طور پر صرف Camelina کہا جا تا ہے۔ اس سے نکالا گیا تھا اس لڑاکا جہاز نے آواز کی رفتار سے50 فی صد زیادہ رفتار سے پرواز کی اور کامیابی سے آزمائشی پروازمکمل کی۔ جاپان ائرلائن میں سفر کرنے والے فضائی جہاز پہلے ہی بایو فیول یا حیاتیاتی ایندھن اور روایتی ایندھن کے آمیزے سے تیار کردہ ایندھن سے چلنے والے جہاز پر سفر کر رہے ہیں۔ 

ان جہازوں میں استعمال ہونے والا حیاتیاتی ایندھن Camelinaسے حاصل کیا جاتا ہے، مگر پہلی دفعہ اس کو کامیابی سےفائیٹر جیٹ کو اڑانے کے لئے استعمال کیا گیا ۔Camelinaامریکا میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے اور یہ گندم کی فصل کے ساتھ متبادل فصل کے طور پر کاشت کی جاتی ہے۔ Camelinaسے حاصل کیا جانے والا حیاتیاتی ایندھن قیمتوں کے لحاظ سے بھی بالکل مناسب ہے جو کہ روایتی ایندھن کے مقابلے میں سستا ہے۔

سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والا بایو فیول اور گرین ہاؤس گیس

پیٹرولیم اور دوسرے معدنی ایندھن کے چلنے سے مختلف گرین ہاؤس گیس مثلاً کاربن ڈائی آکسائڈ بنتی ہے۔ یہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ کا سبب ہے۔ کیا ہم اس عمل کو الٹا کرسکتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکساءڈ کو بایو فیولز تیار کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ اس طرح فضاء سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی کا عمل واقع ہوگا جوکہ ایک اچھی چیز ہے۔

 یہ مقصد ایسی فصلوں کی افزائش سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جو حیاتیاتی ایندھن (بایوفیول )بناتی ہیں۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے سائنس دان پروفیسر ویکٹ اور ان کے ساتھیوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ کام دو بیکٹیریا کو استعمال کرکے کیا جا سکتا ہے۔ 

پہلا بیکٹیریم Staphilococci کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سورج کی روشنی کی موجودگی میں استعمال کرتے ہوئے شکر میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ شکر دوسرے بیکٹیریا Shewanella کی مدد سے ایسے مرکبات میں تبدیل ہوجاتی ہے ،جس کو حیاتیاتی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس پروڈکٹ کو Renewable Petrolium کا نام دیا گیا ہے۔

حیاتیاتی بیٹری

حیاتیاتی ایندھن سے بنائے گئے خلیے تقریباً ایک صدی سے تحقیق کا موضوع ہیں۔ یہ جراثیمی(بیکٹیریائی) عمل کی نقل کرتے ہیں اور اس عمل کو بجلی پیدا کرنے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ بیکٹیریا سے بجلی پیدا کرنے والا پہلا فرد یونیورسٹی آ ف درھم، برطانیہ کے نباتیات کے پروفیسر تھے۔ جنہوں نے ایک جراثیمی اسٹرین سے ایک صدی قبل کامیابی سے بجلی بنائی تھی۔

اس کے بعد1970ء میں جاپانی سائنس دان سوزوکی نے اس کام کوآگے بڑھایا۔ اس حوالے سے نئی اہم پیش رفت 2011ء میں عمل میں آئی جب یونیورسٹی آف ایسٹ انیگلیا ، برطانیہ کےسائنس دانوں کی ایک ٹیم نے جراثیمی پروٹین کی درست ساخت معلوم کرلی جوکہ برقی کرنٹ پیدا کرتی ہے ۔ قدرت نے یہ ساخت اس طرح بنائی ہے کہ یہ الیکٹرون کو جراثیمی سیل کے اندرونی حصے سے بیرونی حصے میں جانے کے لئے سہولت فراہم کرتی ہے اور الیکٹرون کی اس حرکت کی وجہ سے برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ یہ حیاتیاتی بیٹری جلد ہی اہم مقام حاصل کرلے گی، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ قدرت جراثیمی (بیکٹیریائی) سیل کے اندر اس قسم کا فعل کس طرح انجام دیتی ہے۔

انسانی سانس سے بجلی پیدا کرنا

حیاتیاتی پیوند کاری (Biological Implant) کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ توانائی کے قابل بھروسہ ماخذ کا ہے جو پیوند کے کام کو جاری رکھنے میں مدد کرے۔ اس کے لیے اگر بیٹری کا استعمال کیا جائے گا تو مریض کو بیٹری لگانے اور بیٹری کی مدت ختم ہونے کے بعد تبدیل کرنے کے لیے آپریشن کے مرحلے سے گذرنا پڑے گا۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے محققین Piezoelectircal آلے کو استعمال کرتے ہوئے ایسا میکنزم تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے ذریعے جسم کی اپنی میکانی حرکت سے توانائی حاصل کی جاسکے ۔Piezoelectricity وہ چارج ہے جو کہ ایک خاص مواد پر میکانی دباؤ کے نتیجے میں جمع ہوتا ہے۔ 

یہ چارج کئی کارآمد ڈیوائس کو طاقت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔یونیورسٹی آ ف وسکوسن میڈی سن کے محققین کے میٹریل سائنس اور انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر Zudong Wang کی سربراہی میں بجلی پیدا کرنے کا ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا گیا ہے۔ 

اس ٹیکنالوجی میں80Piezoelectric خصوصیات کا حامل انتہائی باریک مواد استعمال کیا گیاہے ،جس کو انسانی ناک کے اندر لگادیا جاتا ہے او رپھر سانس کے عمل سے پیدا ہونے والے ہوا کے بہاؤکی میکانی توانائی کو مائیکرو واٹس میں برقی توانائی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ توانائی سنسرز کو طاقت فراہم کرتی ہے ۔ تیار کی جانے والی ڈیوائس میں پلاسٹک کی مائیکرو بیلٹ کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ 80Piezoelectrical مواد سے بنی ہے اور یہ سانس لینے کے عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے برقی توانائی پیدا کرتی ہے۔

مصنوعی حیاتیات سنسنی خیز نئی سرحدیں

کیا زندگی تجربہ گاہ میں تخلیق کی جا سکتی ہے ؟کیا ایک نئے حیاتی جسم میں انجینئرنگ کے ذریعے ایسی خصوصیات پیدا کی جا سکتی ہیں جو قدرتی حیاتی جسم میں موجود نہیں تھیں ؟ کیا موجودہ حیاتیاتی اجسام میں اس طرح تالیف کے ذریعے ترمیم کی جا سکتی ہے کہ ان کے اندر ایسی خصوصیات پیدا ہوجائیں جو قدرت میں موجود نہیں تھیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو Synthetic Biologyیا تالیفی حیاتیات کے میدان میں بہت زیادہ اٹھائے جا رہے ہیں اور ان پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس تیزی سے وسعت پذیر موضوع کے پہلے ہی بہت سے اطلاقات و استعمالات تلاش کرلیے گئے ہیں ۔ پودوں کی جینیاتی ساخت میں ترمیم کرکے ادویات کے میدان میں موجودہ دوائیں مزید موثر انداز میں تیار کی جاسکتی ہیں۔ 

مثلاً ملیریا کے خلاف کام کرنے والی ایک دوا artemisine کو sweet wormwood کے پودے سے بنایا جاتا ہے جو کہ جنوب مشرقی ایشیاء کے ساحلی جنگلات میں پائے جانے والے مینگرووز ہیں۔ اس دوا کی طلب بہت زیادہ ہے لیکن اس پودے کی پیداوار بہت محدود ہوتی ہے ۔تاہم، سائنس داں تین مختلف حیاتیاتی اجسام سے حاصل کیے گئے بیکٹیریا جینE.coli بیکٹیریا میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 

جو کہ ایک پیش رو مواد بناتا ہے، جس کو بعد میں artemisine میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ نیز یہ پودے براہ راست حاصل کیے گئے مواد کے مقابلے میں کہیں سستے ثابت ہو تے ہیں، مختلف نا میاتی اجسام کے مرض کے خلاف دواؤں کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس میں ہائیڈروجن کو بطور توانائی کے ماخذ تیار کیا جائے گا جو کہ خراب زمین سے بھاری دھاتوں اور دوسرے آلودگی پیدا کرنے والے اجزاء کو نکال دے گا یا پھر حیاتیاتی مائیکرو سب میرین تیار کی جائے گی جو کہ خون کی نالیوں میں تیرتی ہوئی جائے گی اور ٹیو مر کی جگہ پر واقع کینسر کے خلیات کو ختم کردے گی۔

طویل عمر کے جنین کی دریافت

’’ہمیشہ جوان رہنے کا راز‘‘ صدیوں سے کہانیوں اور انسانوں کا موضوع رہا ہے۔ اب حیاتیاتی سائنس اس کو حقیقت میں تبدیل کرنے جارہی ہے۔ ادویاتی کیمیاء اور جنیومکس میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ہم اس میکنزم کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے حیاتیاتی گھڑی ہمارے اندر ٹک ٹک کررہی ہے۔ یہ فہم بیکٹیریا، مکڑیوں، کیڑے مکوڑوں، حشرات الارض، چوہوں اور دوسرے جانوروں پر تحقیق کے بعد حاصل ہوا ہے۔

اس کی وجہ وہ عمل ہے، جس کے ذریعے خلیات زندہ رہتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے Walk Institute of Biological Studies کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ پھلوں کی مکھی کی آنتوں میں پائے جانے والے خلیات کے ایک جین میں ترمیم کرکے پھلوں کی مکھی کی آنت کی زندگی میں اضافہ کیا جاسکتاہے ۔ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس طریقے سے پھلوں کی مکھی کی اوسط عمر میں 50 فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

ایسی جینیاتی ترمیم جو کہ صرف ایک عضو کو جوان اور صحت مند رکھتی ہے،وہ پورے کیڑے کی زندگی کو بڑھا سکتی ہے ۔یہ جین انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ سوئیڈش سائنس دانوں نے اس سال کے2000 ء کے آغاز میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کم کھا کر زندگی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ہمارے خلیات میں بعض مائی ٹو کونڈریا ہوتے ہیں جو کہ ہماری خوراک سے شکر اور چکنائی کو لے کر اس کو توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ 

اگر کم کیلوری والی خوراک استعمال کی جائے تو ان Power Plants کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس سے ہماری زندگی کے دورانیے میں اضافہ ہوگا ۔ ان خلوی پاور پلانٹ کی تعداد میں اضافے کا ایک طریقہ جین کومروڑنا ہے، جس کے ذریعے جین کو زیادہ کام کے موڈ میں رکھا جاتا ہے، اس سے زندگی طویل ہوتی ہے۔

مستقبل میں ہونے والی وائرل بیماریوں کے لیے اینٹی وائرل دوائیاں

بعض وائرس مثلاً HIV، سارس امبولا اور H1N1 میں اچانک نمودار ہونے والی تبدیلی سائنس دانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہےجو کہ اس سے قبل انسانی تاریخ میں سامنے نہیں آیا تھا جیساکہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سال یا آگے آنے والے سالوں میں کون سا وائرس نشوونما پا سکتا ہے۔

اس قسم کے وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسین کی تیاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ DARPA(پینٹاگون کی تحقیقی شاخ) میں حیاتیاتی دفاع کے سربراہ Micheal Godblatt نے اینٹی وائرل دواؤں کی نئی قسم پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بارے میں اُمید کی جارہی ہے کہ یہ ویکسین نہ صرف اس وقت معلوم شدہ وائرس کے لیے موثر ہو گی بلکہ مستقبل میں آنے والے وائرس کے خلاف بھی موثر ثابت ہو گی۔ 

تاہم، Gathersburgh میری لینڈ کی ایک بایوٹیک کمپنی Functional Geneticsمیں بھیجے جانے کے بعد وہاں کی ٹیم نے بعض دوائیں تیار کی ہیں جومطبی آزمائش کے مرحلے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان کے کام کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ اگر میزبان کے بغیروائرس بے بس ہوتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں میزبان خلیات کو وائرس کے ذریعے بڑھنے والے خلیات کی نقل تیار کر کے دھوکا دیا جاتا ہے لیکن اگر کسی نے میزبان میں موجود ایسی پروٹین کو شناخت کرلیا اور روک لیا جو کہ تقسیم کے عمل کے لیے ضروری ہے تو کیا ہو گا؟ اس سے نہ صرف صحت مند خلیات کی ہلاکت رک جائے بلکہ اس سے وائرس کے multiplication کا عمل بھی رک جائے گا۔ 

یہ ایک خاص پروٹین (TSG101) کو ہدف بناتا ہے ،جس کی ضرورت وائرس کو میزبان خلیات سے پھوٹ پڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ ایک دوا (FGI - 104) بڑی تعداد میں وائرس کے خلاف فعال نظر آئی۔ (ایڈز، ہیپاٹائٹس سی، ای بولا) او ریہ وائرس کے خلاف کام کرنے والی ادویات کی تیاری میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ دوسرے کئی گروہوں نے اس تصور کو دواؤں کی تیاری کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وائرس کا ارتقاء اس طرح ہوجائے کہ وہ اس نئے خطرے پر قابو پا لیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید