• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے محترم بزرگ شریف صاحب جو پاکستان ائرفورس کی ملازمت چھوڑنے کےبعد سعودی عرب میں خانہ کعبہ کے ’’وائرلیس کنٹرول سسٹم‘‘ کےانچارج بنے۔ ایک مرتبہ کچھ علمائےکرام کے ساتھ کھانے کی ایک محفل میں شریک تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا میں نے ان سے سوال کیا کہ حضور پوری دنیا میں کروڑوں مسلمان ہر سال عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، مقدس مقامات و زیارات وغیرہ پر حاضری دیتے ہیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو تمام ممالک کےمسلمان، مسلم اُمہ کی سربلندی، امریکہ اور اسرائیل کی گرفت اور کشمیر، فلسطین سمیت مقبوضہ مسلم ممالک کی آزادی کے لئے دن رات دعائیں مانگتے ہیں لیکن اس قدر دعاؤں کے باوجود فلسطین آزاد ہوتا ہے اور نہ ہی امریکہ اور اسرائیل برباد ہوتے ہیں ۔ہماری دعائیں کیوں بے اثر ہیں ؟۔ کیوں ہماری دعاؤں کو اللہ ربّ العزت نہیں سنتا…؟

انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ سوال ہے جو سعودی عرب کے علمائے کرام بھی اکثر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم اُمہ کی دعاؤں میں اثر نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری گفتار اور کردار میں واضح فرق ہے۔ ہم جہاں دعا مانگنے کے آداب سے ناواقف ہیں، وہاں محض اپنی دعاؤں کے طفیل دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ہم لوگ فقط اپنے رب سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ آسمانوں سے فرشتوں کے لشکر اتار کر ہماری مدد کرے گا۔ کہتے ہیں حجاج بن یوسف نے اپنے دور میں تقریباً سوا لاکھ علمائے کرام کو شہید کیا تھا، جس پر لوگ حضرت خواجہ حسن بصریؒ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ دُعا فرمائیں کہ عوام کو اللہ اس حاکم کے عذاب سے نجات دلائے تو آپ نے جواب دیا کہ یہ سب اللہ کا تم پر ایک قہر ہے کہ جو دعا سے نہیں ٹلے گا۔ جب تک تم اپنے آپ کو نہیں بدلو گے۔

اسی طرح جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں کے مسلمان مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے وہ خدا سے دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! ہمیں ہلاکو خان کے عذاب سے بچا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب اس نے بغداد فتح کیا تو وہاںلاشوں کے سروں سے بنائے گئے مینار پر وہ کھڑا ہوا۔ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی، اس نےلوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’قرآن پاک میں لکھا ہے کہ جب قومیں بداعمال ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرتا ہے۔ مجھے بھی تم پر عذاب بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔

معروف دانشور اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ’’مسلمان اورمومن میں فرق یہ ہے کہ مسلمان اللہ کو مانتا ہے اور مومن اللہ کی مانتا ہے‘‘۔ آج ہم اگر معاشرے میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف جھوٹ، منافقت، دھوکے بازی، رشوت ستانی، بے ایمانی، مطلب پرستی، ملاوٹ اور چور بازاری کا راج نظر آتا ہے۔ تفرقہ بازی، لسانیت، صوبائیت نےملک میں محبت اور اخوت کے ماحول کو پراگندہ کر رکھا ہے، فرائض سے غفلت، لاپروائی، ظلم و ناانصافی، منشیات کا فروغ، نوجوان نسل میں بے راہ روی، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی منافقتیں اور جھوٹ و فریب، یہ سب ایسی باتیں ہیں کہ جنہوں نے ہماری دعاؤں کو بے اثر کر رکھا ہے۔

المیہ یہ ہےکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت علم سے دور ہوچکی ، اخلاقی بے راہ روی کا دور دورہ ہے، بااختیار لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن ہو کر رہ گئے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک مسلمانوں نے علم کو اپنی میراث سمجھا اور اسے تھامے رکھا انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی۔ اسلامی دنیا کی عظیم شخصیات محمد عبداللہ الخوازمی، عمر بن خیام، ابن الہیثم، بوعلی سینا، ابو جعفر اور الرازی نے تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنا آپ منوایا، لیکن جب مسلمانوں نے علم کو چھوڑا، کتابوں کو آگ لگا دی۔ رقص و سرود، شراب وشباب میں ڈوبنے لگے، تاج محل آگرہ اورمقبرہ جہانگیر جیسی عمارتیں بنانےلگے تو زوال ان کا مقدر بن گیا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری دُعائیں قبول فرمائے تو سب سے پہلے ہمیں گڑ گڑاکر اللہ سے معافی مانگنا ہو گی، اپنے آپ کو بدلنا ہو گا، کردار وعمل کی درستی کرنا ہو گی۔ جھوٹ، مکر وفریب، بے ایمانی اور ریا کاری کی زندگی کو ترک کرنا ہو گا۔ علم کو اپنی میراث بنانا ہو گا۔ اس دن اللہ ہماری دعاؤں کو قبول کرنا شروع کر دے گا۔ جس دن ہم نے خود کو اچھاانسان اور اچھا مسلمان بنا لیا تو اللہ تعالیٰ غیب سے ہماری مدد کرے گا۔ فلسطین اور کشمیر بھی آزاد ہو گا اور ہمارا ملک پاکستان بھی بحرانوں سے نکل کر ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔

تازہ ترین