اگست ہماری آزادی اوراحتساب کا مہینہ ہے۔ چند روز بعد ریاست پاکستان اپنی خود مختاری کی 76ویں سالگرہ منائے گی۔ 1947سے 2024 تک ہمارے سفر میں سوائے ایٹمی طاقت بننے کی خوشی کے علاوہ کوئی بڑی کامیابی شامل نہیں۔ ملک دولخت ہوگیا،جمہوری نظام مضبوط نہ ہو سکا اور نہ ہی ایک فلاحی اور اسلامی مملکت کا خواب پورا ہوا۔ ہمیں دنیا بھر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے 76برسوں میں ہماری اشرافیہ نے مملکت کو کیا دیا؟ ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب کیوں گامزن رہے؟ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت ہم سے آگے کیوں نکل گیا؟ بنگلہ دیش نے ہمیں کیوں پیچھے چھوڑ دیا؟۔ آزادی کے چند برس تک مخلص حکمرانوں نے اپنی لگن سے ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا مگر بعد میں آنے والوں نے جمہوریت کے نام پر ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، وہ ملک جنہیں ہم قرضہ دیتے تھے اب ہم ان کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہیں، حصول آزادی کیلئے جو قربانیاں دی گئیں، انہیں ایک عام سی بات نہیں سمجھا جا سکتا، کتنے گھر قربان ہوئے، کتنی عزتیں لٹیں، کتنے لوگ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے، کتنے لوگوں کے وجود خاک میں ملے، تب جا کر آزادی نصیب ہوئی۔ یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آزادی ہمیں کس سے حاصل کرنی تھی، گزشتہ سات دہائیوں میں نہ تو اسلامی نظام نافذ ہو سکا اور نہ ہی یہاں جمہوری قدریں جڑ پکڑ سکیں، سات دہائیوں میں بھی قیامِ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بہت سے حوالوں سے پورے نہیں ہوئے، ہم ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا ہی تعین نہ کر سکے۔ ہر دور میں ہماری پالیسیوں میں موجود تضادات، الجھاؤ، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے اجتماعی سوچ و شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ کسی بھی قوم کیلئے اپنے آزاد اور خود مختار وطن کے حصول سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے زندہ قومیں وطن کی تشکیل کا دن پورے جوش و جذبے سے مناتی ہیں۔ اس کے استحکام کے لیے اپنا جان و مال قربان کرنےکا عزم کرتی ہیں۔ قومی قائدین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جن لوگوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا انہیں سلام ہے۔ اس لئےمختلف نوعیت کے سیاسی اختلافات کے باوجود پوری قوم متفق ہے کہ جشن آزادی اور قومی پرچم کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی سطح پر ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے، بھاری بھر کم بیرونی قرضوں کا بوجھ قوم کے کندھوں پر ہے، ہر پاکستانی لاکھوں روپے سے زائد کا مقروض ہے، نقص امن، قتل، ڈکیتی، رہزنی اور اغوا برائے تاوان معمول کا حصہ بن چکے ہیں، نظام تعلیم اور صحت یہاں ایک کاروبار اور نفع بخش صنعت بن چکے ہیں۔ اخلاقی سطح پر جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت انتہائی عروج پر ہے۔ ہم صنعتی ترقی کی وہ سطح حاصل نہیں کر سکے جہاں دنیا کے دوسر ےممالک پہنچ چکے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ بلا امتیاز سستا اور فوری انصاف، پینے کا صاف پانی، تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولتیں شہریوں کو میسر نہیں۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں صنعتکاری کا عمل رک گیا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ شعبہ زراعت جو ہماری ملکی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا، اس کی تباہ حالی کے بعد اس پر اب توجہ دی گئی ہے، سوچنا ہو گا کہ آزاد وطن میں کروڑوں افراد کے حقوق پورے کئے بغیر آزادی کا خواب کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ چین نے سی پیک میں 30ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے جو پاک چین دوستی کیلئے نئے دور کی بنیاد ہے۔ ریاست کسی بھی ملک کی ریڈ لائن ہوتی ہے، مگر پی ٹی آئی شخصیت پرستی کو ریڈ لائن بنا کر ملک کی سلامتی کو دائو پر لگا رہی ہے، ہم ایک مضبوط فوج کے مالک ہیں اور پر عزم قوم ہمارا اثاثہ ہے‘ دنیا میں امن کیلئے ہمارے کردار کو تسلیم کیا جاتا ہے، اقوام عالم میں ہم نے ہمیشہ ایک مثبت اور جاندار موقف اپنا کر اپنے وجود کو منوایا ہے، ہم اپنے پارلیمانی سیاسی نظام حکومت کیلئے ایک متفقہ آئین رکھتے ہیں اور اس کی اساس پر ایک مضبوط جمہوری و پارلیمانی نظام کے وارث ہیں۔ ہماری نئی نسل جدید علوم سے فیض یاب ہو کر نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے، اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں عوام پس کر رہ گئے ہیں،بے روزگاری، مہنگائی، لوٹ مار اور قتل وغارت گری نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا، لوگ خودکشی پر مجبور ہیں۔ توانائی کا بحران ہمارے مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے، ہمیں بیرونی دبائو سے نکل کر اسے حل کرنا ہو گا۔ قومی مسائل پر سیاست دانوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔ سیاسی تفریق سے عوام بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے۔ معیشت مگر اِس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ مل بیٹھیں اور میثاق معیشت کی بنیاد رکھیں، عالمی سطح پر بھی صورت حال تشویش ناک ہے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت، فلسطینی عوام پر اسرائیلی بر بریت، کشمیریوں پر بھارتی جارحیت سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میںشیخ حسینہ واجد حکومت کا عوامی دبائو پر خاتمہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر ہمارے حکمرانوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو پھر پاکستان بھی عوامی انقلاب کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا حکومت، اپوزیشن، تمام دیگر اداروں کو ایک پیج پر یکجا ہونا پڑے گا۔ سوشل میڈیاپر ملک دشمن مہم کے بجائے ہمیں ریاست بچائو مہم چلانا ہو گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)