برطانیہ کے علماء نے ملک میں مذہبِ اسلام، مسلمانوں اور ایشیائی و افریقی نژاد شہریوں سے بڑھتی ہوئی نفرت کے نتیجے میں شروع ہونے والے فسادات کی مذمت کی ہے۔
برطانوی علماء نے اس حوالے سے جاری کیے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ذریعے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف گفتگو کے انداز اور کثیر الثقافت کی مبینہ ناکامی کی وجہ سے قدامت پسند سیاست دانوں کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ ایشیائی و افریقی نژاد شہری اور بالخصوص مسلمان ایک مسئلہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو نظر انداز کرنے، حالیہ انتخابی مہم کے دوران امیگریشن سے متعلق تشویش کے اظہار اور بالخصوص بنگلہ دیشی کمیونٹی کے بارے میں موجودہ وزیر اعظم کے خیالات کی وجہ سے ملک میں حالیہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
بیان میں یہ مزید کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر غاصب اسرائیل کی جانب سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی ان پالیسیوں سے جُڑی ہوئی ہے۔
برطانوی علماء نے بیان میں کہا ہے کہ مشتعل صیہونی افراد جیسے ٹومی رابنسن اور دیگر جو ماضی میں امریکا اور برطانیہ میں اسرائیل نواز قدامت پسندوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، وہ لوگوں کو فلسطین کے حامی مظاہرین پر اُکسا رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے جرائم اور یکے بعد دیگرے برطانوی حکومتوں کی وسیع ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ مشتعل افراد اپنے نیٹ ورکس میں اسلام مخالف پروپیگنڈے اور جھوٹ کو پھیلا رہے ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس صورتحال نے انتہائی دائیں بازو کے دشمنوں کو حوصلہ دیا ہے اور تشدد کے واقعات میں چونکا دینے والی حد تک اضافہ کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے ہجوم نے مساجد، مسلمانوں اور سیاہ فام شہریوں پر حملے کیے، ہوٹلوں میں آگ لگائی اور یہاں تک کہ سٹیزن ایڈوائس بیورو کو جلا دیا ہے۔
برطانوی علماء نے بیان میں کہا کہ مسلمان فطرتاً ہی بہادر ہیں، وہ اپنا، اپنی مساجد اور اپنی املاک کا دفاع کریں گے لیکن ہماری کمیونٹیز اپنے تمام لوگوں کی حفاظت کے لیے بھی فکر مند ہیں اس لیے ہمارے مہذب رویّے کو ہماری بزدلی نہ سمجھا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اسے اسلام دشمنی کا نتیجہ قرار دینے میں برطانوی حکومت کی ناکامی پر ہم حیران ہیں، موجودہ صورتحال فورڈ کی رپورٹ کا اعادہ کرتی ہے جس کے مطابق لیبر پارٹی میں درجہ بندی کا ایک نظام ہے جس کے تحت سیاہ فام نسل پرستی اور اسلام دشمنی کے مسئلے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جتنی سنجیدگی سے یہود دشمنی کے مسئلے کو دیکھا جاتا ہے۔
بیان میں مسلمانوں کو موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لیے اللّٰہ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
برطانوی علماء نے بیان میں کہا کہ اسرائیل کے ہولناک جرائم اور ان میں ملوث افراد کو بے نقاب کرتے رہیں اور غزہ، مغربی کنارے اور مسجد الاقصی سے اپنی توجہ ہٹانے کے لیے بچھائے گئے اس جال میں پھنسنے سے بچیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ حکّام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے کہ نشانہ بنائے گئے تمام لوگ اور عبادت گاہیں محفوظ رہیں تاہم سیکیورٹی کی عدم موجودگی میں عام لوگوں کو اپنی اور اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے تمام قانونی اقدامات کرنے چاہیئں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونے والی نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کے لیے بنیادی قانون سازی کریں اور ان تمام لوگوں کا محاسبہ کریں جو غلط معلومات اور اسلام دشمنی کو پھیلانے میں ملوث ہیں۔
علماء نے بیان میں کہا ہے کہ نسلی اور مذہبی اشتعال انگیزی سے متعلق قانون سازی کو مساوی اور ملک میں میڈیا ریگولیشن کو بہتر بنائیں۔