جیولن تھرو کے عالمی چیمپئن ارشد ندیم کی فقیدالمثال کامیابی پر جہاں ساری قوم کے سر فخر سے بلند ہو گئے وہیں’’تبدیلی‘‘ کے جعلی نعروں کی بنیاد پر تباہی کے اندھیروں میں دھکیلی جانے والی نوجوان نسل میں عمران خان کے 1992 کے ورلڈ کپ اور ارشد ندیم کے پیرس اولمپک 2024 میں جیولن تھرو میں انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے لئے گولڈ میڈل جیت کر لانے پر بحث چھڑ گئی ہے۔ملکی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایک کھلاڑی کا والہانہ استقبال ائرپورٹ پر اس کا طیارہ اترنے پر’’واٹر کینن سیلیوٹ‘‘ پیش کر کے کیا گیا وہ لوگ جو 1992اور 2024کے معرکوں کے عینی شاہدین ہیں، ارشد ندیم کو عمران خان پر فوقیت دیتے ہوئے قرار دے رہے ہیں کہ ویسے تو عمران خان کسی طور ارشد ندیم کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اہل نہیں اس کے باوجود دونوں کی کامیابیوں کا تقابلی تجزیہ کیا جائے تو ارشد ندیم نے عمران خان کو اتنا پیچھے چھوڑا ہے جتنا جیولن تھرو میں سلور میڈل حاصل کرنے والے بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑہ کو 92.97 میٹر جیولن پھینک کر چھوڑا تھا۔نکتہ چین کہتے ہیں 1992کے ورلڈ کپ مقابلوں میں شرمناک ناکامیوں کے باوجود عمران خان کا رعونت انگیز رویہ دیدنی تھا جبکہ کسی میچ میں کامیابی پر کبھی کسی نے عمران خان کو میدان میں اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہو کر شکرادا کرتے نہیں دیکھا اور ارشد ندیم نے ہر موقع پر اپنے رب کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا جس نے اسے بے پناہ عزت عطا کی اور اسے قوم کے سامنے سرخرو کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان نےاپنی ساری جوانی بے راہروی میں گزاری جس کا وہ خود بھی تذکرہ کرتے رہتے ہیں، کبھی مذہب یا مذہبی اقدار کو اہمیت نہیں دی، پاکستانی ہونے یا پاکستان سے محبت کا اظہار تو کجا، کرکٹ میں عروج کے دور میں ساؤتھ افریقہ میں اس وقت کیری پیکر نے اپنے نام سے کرکٹ کے عالمی میلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا جب اقوام متحدہ نے ساؤتھ افریقہ میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بائیکاٹ کا فیصلہ کر رکھا تھا اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا جسے اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی پاسداری کرنا تھی لیکن عمران خان نے پاکستان کے کسی بھی فیصلے کا ماننے
سے انکار کرتے ہوئے صرف پیسوں کے لالچ میں کیری پیکر کے اس میلے میں شرکت کی تھی۔عمران خان میں پائی جانے والی’’خوبیوں‘‘ ایک احسان فراموشی ہے۔عمران خان نے جیسے ہی کرکٹ کے میدان میں اپنے پیر جمائے اور کچھ اختیارات عطا ہوئے، ان کا شکار ان کا پہلامحسن ماجد خان تھا جن کا عمران کو اس مقام تک پہنچانے میں اہم کردار تھا۔ دوسری جانب ارشد ندیم تن تنہا ملک و قوم کے لئے لڑا اور انتہائی محدود وسائل میں پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا جبکہ عمران خان 1992میں معذوروں کی طرح ایک طاقتور اور پرعزم ٹیم کے ساتھ میدان میں اترا اور اپنی کمزور حکمت عملی اور ناکام ذاتی کارکردگی کی وجہ سے پاکستان تقریباً تمام ابتدائی میچ ہار گیا اس دوران ایسے بڑے مقابلوں میں شرکت سے اجتناب کرتے رہے جن میں ہار یقینی ہوتی تھی اس کے باوجود ٹیم میں شامل تجربہ کار کھلاڑیوں جاوید میاں داد، وسیم اکرم، وقار یونس، عامر سہیل، انضمام الحق، معین خان اور عاقب جاوید شامل تھے، ہمت نہیں ہاری اور ٹیم نے انفرادی اور اجتماعی کارکردگی کی بنیاد پر ورلڈ کپ جیت لیا تو اس وقت باہمی اختلافات اور رنجشیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں جب عمران خان نے بحیثیت کپتان اجتماعی کی بجائے انفرادی سوچ کا مظاہرہ اور ذاتی مفادات اٹھانے کے لئے جیت کا تمام تر کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی اور اس سازش میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی جب انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف سے بلامعاوضہ پلاٹ حاصل کر کے اس کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھ دی اور یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے کہ اس ہسپتال میں غریبوں کامفت علاج کیا جائے گا، اس کی تعمیر اور تکمیل کے لئے عالمی مہم شروع کردی جن میں بھارت اورانگلینڈ کے کئی ایسے متنازع ممالک نے بھاری فنڈز کیش کی صورت میں براہ راست فراہم کئے۔کہتے ہیں اسرائیل سمیت بعض پاکستان دشمن ممالک نے بھاری رقوم اس ہسپتال کی تعمیر کے لئے بھجوائیں۔ لالچ اور خودغرضی کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ عمران خان نے اپنا ’’مشن‘‘ مکمل کرنے کے لئے میدان سیاست میں قدم رکھا اور قوم نے دیکھا سیاست کے میدان میں نوجوان نسل کو گمراہ کرنا اور اسے ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنا اس مشن کا اہم نکتہ تھا۔اس کے بعد 2014 کے دھرنے کے ذریعے ملک میں بغاوت اور سول نافرمانی متعارف کرائی گئی اور پھر 9مئی 2023 کو عوام نے عمران خان کا وہ روپ دیکھا جب ملک فتح کرنے کے لئے فوج اور حساس اداروں پر حملے کئے گئے اور آئین پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور دشمنوں کے ایجنڈے کو مکمل کرنےکی کوششیںجاری رکھیں۔کیا یہ اعمال غداری نہیں؟؟