پاکستانی عوام خطّے کی سب سے منہگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ ماہرین کے مطابق اگر قومی سطح پر کوئی مناسب پالیسی نہیں بنائی گئی، تو عوام پر الیکٹرک بِل کا بوجھ بھاری سے بھاری تر ہوتا رہے گا۔اربابِ اختیار بجلی کی بڑھتی قیمت کا ذمّہ دار آئی ایم ایف، ڈالر کی اُڑان اور 1994ء کی توانائی پالیسی کے نتیجے میں قائم ہونے والے انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹس( آئی پی پیز) کو قرار دے رہے ہیں۔ آئی پی پیز کیا ہیں اور 1994ء کی توانائی پالیسی کیا تھی اور دس سالہ معاہدے پر وجود میں آنے والی19آئی پی پیز 28سال بعد بھی ختم ہونے کی بجائے بڑھ کر106کیوں ہوگئیں۔آئیے! اِس پوری صُورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔
توانائی، ترقّی پذیر پاکستان کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے، جو بروقت فیصلے نہ کرنے اور حکومتی پالیسیز میں عدم تسلسل کی وجہ سے آج تک بے قابو ہے۔قیامِ پاکستان کے وقت مُلک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت صرف119میگا واٹ تھی۔1967ء میں امریکی معاونت سے واپڈا ماہرین نے اگلے بارہ برسوں کے دوران سسٹم میں مزید 5700میگا واٹ بجلی شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جسے1975ء کی عوامی حکومت 12000میگاواٹ تک لے گئی، لیکن1977 ء میں حکومتی تبدیلی کے ساتھ ہی ترجیحات بھی بدل گئیں، جس کے باعث80 ء کے عشرے میں بجلی کا شارٹ فال بہت بڑھ گیا۔توانائی کی قلّت کا براہِ راست تعلق ترقّی، معیشت اور روزگار سے ہوتا ہے، اِس لیے بجلی کے پیداواری منصوبے ضروری تھے، جو عمومی طور پر منہگے ہی تھے، جب کہ ترقّی پذیر پاکستان کے لیے، جو افغان جنگ میں بھی مصروف تھا، اِن حالات میں اتنے بھاری فنڈز کا بندوبست آسان نہیں تھا۔
بہرحال،1985 ء کےغیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے عالمی بینک کے ساتھ توانائی کی طویل المیعاد پالیسی پر اتفاق کرتے ہوئے پہلی مرتبہ پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ بجلی کے منصوبوں پرغور کرنا شروع کیا اور1985 ء کی پالیسی کے مطابقxenel گروپ(سعودی عرب) نے پہلی مرتبہ1986ء سے1988 ء کے دَوران پرائیوٹ پاور پلانٹ لگانے کی تجاویز پیش کیں۔1988 ء میں حب (بلوچستان) میں 1292 میگاواٹ کے پلانٹ کی باقاعدہ تجویز سامنے آئی، تاہم مزید کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور حالات جُوں کے تُوں رہے۔ اِسی وجہ سے 1989۔90 ء میں1462 ملین یونٹ اور1990-91 ء میں621ملین یونٹ لوڈشیڈنگ ریکارڈ کی گئی تھی۔پھر1988 ء کے جماعتی انتخابات کے بعد کی حکومتوں نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔
اُس زمانے کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق1980,81ء میں واپڈا کی کُل پیداواری صلاحیت3132میگاواٹ، سپلائی13206ملین یونٹ، صارفین 32لاکھ اور ریونیو 4ارب 32کروڑ روپے تھا، جو 1990- 91 ء میں بڑھ کر7421میگاواٹ، سپلائی 34393ملین یونٹ، صارفین 72لاکھ اور ریونیو 31ارب 60کروڑ روپے سالانہ ہوگیا تھا۔1990 ء میں بجلی کی مجموعی پیداوار سات ہزار چار سو اکیس میگاواٹ میں سے پن بجلی گھروں سے 2ہزار آٹھ سوستانوے، تھرمل سے چار ہزار تین سو بانوے اور ایٹمی بجلی گھر سے137میگاواٹ بجلی فراہم ہو رہی تھی۔اس کے باوجود، مُلک کی دوتہائی آبادی بجلی سے محروم تھی۔ آبادی کا 70فی صد دیہی علاقوں پر مشتمل تھا اور45122دیہات میں سے 27ہزار 116دیہات بجلی سے محروم تھے۔
ان میں دیہی کچّی آبادیاں شامل نہیں تھیں، جن کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ صرف صوبہ سندھ میں 50ہزار دیہی کچّی آبادی بجلی سے محروم تھی۔ 6فروری 1991ء کو سسٹم میں803 میگاواٹ کمی ریکارڈ کی گئی اور طلب میں سالانہ 9فی صداضافے کا اندازہ لگایا گیا۔ماہرین کا خیال تھا کہ اگر یہی صُورتِ حال برقرار رہی، تو 1999 ء سے2000 ء تک طلب بڑھ کر 13395 میگا واٹ اور اس کے اگلے دس سال بعد2009 ء سے2010 ء تک مزید دُگنی ہو جائے گی۔اِس چیلنج سے نمٹنے کے لیے واپڈا کے پاس مطلوبہ سرمایہ نہیں تھا، لہٰذا حکومت نے سرمایہ کاری کے لیے پرائیوٹ سیکٹر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔دنیا کے کئی ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک80 ء کے عشرے ہی سے توانائی منصوبوں میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔
نیوزی لینڈ نے1987 ء، انڈونیشیا نے1990ء، چین نے 1994ء، فلپائن نے1992ء، بھارت نے1993ء، آسٹریلیا نے 1991، برطانیہ نے1990ء، ہنگری نے1991ء، ناروے نے1991 ء، فِن لینڈ نے1995ء، مراکش نے1996ء اور لاطینی امریکی ممالک، ارجنٹائن، برازیل، پیرو، میکسیکو، وینزویلا، چلی، کولمبیا اور بولیویا نے1990ء کے عشرے کے دَوران غیر مُلکی سرمایہ کاری سے نجی پیداوار کا آغاز کر دیا تھا۔جب کہ غیرمُلکی سرمایہ کاروں میں امریکا، سوئیڈن، فرانس، اسپین اور کینیڈا کی کمپنیز شامل تھیں۔
میاں محمّد نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں، جو 1990 ء سے1993 ء پر محیط تھا، ڈی نیشنلائزیشن کو فروغ ملا اور اسی دَور میں پرائیوٹ پاور پالیسی کا اعلان کیا گیا۔سرمایہ کاری کی ترغیب کے لیے کارپوریٹ ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور امپورٹ سرچارج سے استثنا جیسی سہولتیں دی گئیں۔نیشنل ڈیویلپمنٹ فنانس کارپوریشن کے ذریعے قرضوں کی فراہمی، افراطِ زر، قیمت میں اُتار چڑھاؤ اور مستقبل کے خطرات سے تحفّظ فراہم کرنے کے لیے سیکیوریٹی پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
لہٰذا کئی کمپنیز نے دل چسپی کا اظہار کیا، جن میں حب پاور پلانٹ، جام شورو 11، فوجی فاؤنڈیشن، کبیر والا، اُچ پاور پلانٹ، لبرٹی پاور اور کمبائنڈ سائیکل پلانٹ شامل تھے۔ اُسی دَور میں افغانستان کے راستے تاجکستان سے بجلی حاصل کرنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا اور اِس سلسلے میں17اپریل1992 ء کو ایک سمجھوتا بھی طے پا گیا۔یہ پہلا موقع تھا، جب پاکستان نے کسی دوسرے مُلک سے بجلی خریدنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن افغانستان کی خراب صُورتِ حال ٹرانسمیشن لائن بچھانے میں رکاوٹ بن گئی۔
اس کے ساتھ، پرائیوٹ پاور سیکٹر کے ساتھ برقی سہولتیں اور پلانٹس نجی شعبے میں دینے کے بھی منصوبے بنائے گئے۔ یوں پاکستان میں پرائیوٹ پاور سیکٹر کی بنیاد رکھ دی گئی۔90ء کی دہائی سرکاری اداروں کی نج کاری اور نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا دَور تھا۔ طلب اور رسد میں نمایاں فرق کی وجہ سے بے تحاشا لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی،جس سے گھریلو اور کمرشل دونوں ہی صارفین پریشان اور صنعتی پیداوار میں پچاس فی صد تک کمی دیکھی جارہی تھی۔
توانائی کے پیداواری منصوبوں میں شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔یہ نظام چار مراحل پیداوار، ترسیل، تقسیم اور قیمت کی وصول یابی سے گزرتا ہے۔کوئی حکومت فوری پاور پلانٹ لگانے کا ارادہ کرے بھی، تو تیل اور گیس سے چلنے والے300 سے 1200میگاواٹ کے پاور ہاؤس تین سے پانچ سال، پانی سے بجلی پیدا کرنے والے600 سے1500 میگاواٹ منصوبے5 سے 8سال،100سے 300 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور ہاؤس 3سے5 سال، 300 سے1200 میگاواٹ والے4 سے6 سال اور300 سے 600میگاواٹ ایٹمی توانائی والے پاور ہاؤس 5سے 8 سال کا وقت لیتے ہیں۔ 1992 ۔93 ء کے اکنامک سروے کے مطابق واپڈا کی پیداواری صلاحیت کچھ یوں تھی: تربیلا2614 میگاواٹ، منگلا 800 میگاواٹ، وارسک 240، اسمال ہائیڈلز 107، ملتان اسٹیم 260، فیصل آباد اسٹیم 132، فیصل آباد گیس ٹربائنز200، شاہدرہ گیس ٹربائنز85، گدو اسٹیم640، کمبائنڈ سائیکل گدو600، سکھر اسٹیم50، کوٹری گیس ٹربائنز 130، کوٹ ادّو گیس ٹربائنز400، جام شورو آئل یونٹ 880، کوئٹہ 83، پسنی17 اور میسکو20میگاواٹ ۔ اِسی اسٹڈی اور کوششوں کے دَوران مسلم لیگ نون کی حکومت ختم کر دی گئی۔اکتوبر1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹّو کے زیرِ قیادت پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، تو حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔
نومبر1993 ء میں وفاقی کابینہ کے ابتدائی اجلاس ہی میں معاونِ خصوصی، شاہد حسن کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔مارچ1994 ء میں ٹاسک فورس کی توانائی پالیسی رپورٹ میں درپیش مسائل کے خاتمے کے لیے شارٹ ٹرم، مِڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں کا ذکر کیا گیا۔
اِس رپورٹ میں بجلی کے پیداواری منصوبوں میں نجی شعبے کی شراکت، غیرمُلکی سرمایہ کار کا رُخ پیکیج پالیسی کی طرف موڑنا، پاور ڈیویلپمنٹ پراجیکٹس کے لیے مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ، ڈیبٹ سیکیورٹیز مارکیٹ کی حوصلہ افزائی، غیر پیداواری اخراجات کی روک تھام اور آپریشنل امپرومنٹ جیسے امور شامل تھے۔
اس میں بتایا گیا تھا کہ مُلک میں پِیک آورز میں دو ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی اور طلب میں تقریباً14فی صد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سسٹم میں پانچ سال میں سات ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا اور اگر فوری رقم مل بھی جائے، تب بھی ضرورت پوری کرنے میں چار سال درکار ہوں گے۔ واپڈا میں نقصان کی شرح 23اعشاریہ 22فی صد اور کے ای ایس سی(کے-الیکٹرک) میں 33اعشاریہ چھے فی صد ہے، جسے بتدریج کم کیا جائے گا،پن بجلی اور مُلکی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر زور ہوگا تاکہ خود کفالت حاصل کی جاسکے۔
ترغیبات میں دس سال کے لیے فی کے ڈبلیو ایچ چھے اعشاریہ پانچ سینٹ کا ٹیرف،100میگاواٹ سے زیادہ کا منصوبہ1997 ء تک چل پڑے گا، تو اس پر25سینٹ فی کے ڈبلیو ایچ کا بونس دیا جائے گا۔ رپورٹ میں پاور پلانٹ لگنے کے ساتھ ہی1994 ء سے1996 ء تک ہر سال200 سے250 میگاواٹ کے صنعتی پراجیکٹس قائم کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔
ٹاسک فورس نے لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لیے مختلف ترغیبات کی بھی سفارش کی، جس میں منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کے خاتمے، منصوبوں کے لیے مقامی سطح کے ڈیزائن اور پیداوار کو اہمیت دینے، قومی اتفاقِ رائے سے ایک بڑے ہائیڈرو اسٹوریج پراجیکٹ کے قیام، اعلیٰ حکمتِ عملی کے تحت تیل کی فراہمی اور بجلی کی خریداری کے معاہدے، دس سال کے لیے بین الاقوامی طور پر چھے اعشاریہ پانچ سینٹ کے ڈبلیو ایچ کے بلک ٹیرف، (جو پاکستانی روپے میں ادا کیے جائیں گے)، نجی سرمایہ کاروں کو پاور پلانٹس کے لیے ایندھن کی اپنے طور پر درآمد اور نقل و حمل کے اختیار، پاور بورڈ، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیز کو اشتراکی بانڈز کے اجرا کی اجازت، بجلی منصوبوں کے لیے اقرا سرچارج، فلڈ ریلیف سرچارج اور امپورٹ لائسینس فیس کسٹم ڈیوٹی تصوّر کرنے اور غیر مُلکی بینکس کو نجی پاور پراجیکٹس سے غیر فروخت شدہ حصص خریدنے کی اجازت دینے جیسی ترغیبات شامل تھیں۔
15فروری1994 ء کو محترمہ بے نظیر بھٹّو نے قوم سے خطاب میں توانائی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ’’ حکومت کو بجلی کی تیاری، تیل و گیس کی تلاش کے لیے اگلے پانچ سال میں سات سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، تین سو تیس ارب روپے کی سرمایہ کاری حکومت اور باقی سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبے کی تلاش جاری ہے۔حکومت نجی سرمایہ کار سے بجلی بلک میں 6اعشاریہ پانچ سینٹ فی کلو واٹ خریدے گی۔
اگلے تین سال تک بجلی پلانٹ مکمل کرنے والے سرمایہ کاروں کو خاص پریمیم دیا جائے گا۔ توانائی منصوبوں پر اقرا سرچارج اور فلڈ ریلیف سرچارج کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ہے، بجلی چوری روکنے کے لیے قید اور جرمانوں پر مبنی قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے اور اِن اقدامات سے بجلی کی پیداوار کے ضمن میں تقریباً ساڑھے گیارہ ارب سالانہ کی بچت ہوگی، جب کہ لوڈ شیڈنگ برائے نام رہ جائے گی۔‘‘
توانائی پالیسی کے تحت اعلان کردہ پیکیجز بہت متاثر کُن تھے اور بیرونِ مُلک اِس کی خُوب تشہیر بھی کی گئی۔ پالیسی واضح تھی، لہٰذا فیڈ بیک بھی اچھا ملا اور 100سے زاید درخواستیں موصول ہوئیں۔ ابتدا میں حکومت کا خیال تھا کہ2500 سے2800 میگاواٹ تک پیداواری منصوبے کی اجازت دی جائے گی۔24ستمبر1994 ء کو امریکی وزیرِ توانائی، ہیزل اولیری کے زیرِ قیادت80رُکنی کاروباری وفد نے 4ارب ڈالرز کے 3507میگا واٹ کے سولہ معاہدوں پر دست خط کیے۔
اُن دنوں ڈالر کی قدر31روپے کے قریب تھی۔معاہدے تھرمل، پن بجلی پیدا کرنے، تیل و گیس کی تلاش، بجلی ٹرانس میشن اور تقسیم سے متعلق تھے۔ وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹّو نے بتایا کہ’’ چار ارب ڈالرز مالیت کے معاہدے پانچ برس میں مکمل ہوں گے، لوڈشیڈنگ سے جو یومیہ 500ملین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے، تو ان معاہدوں سے غریبوں، بے روزگاروں اور مزدوروں کو وسیع فوائد حاصل ہوں گے۔‘‘امریکی وزیرِ توانائی کا کہنا تھا کہ’’پاکستان کو بجلی کی پیداوار کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور سمجھوتے کے مطابق تمام منصوبے1997 ء کے اختتام تک مکمل ہوجائیں گے۔‘‘یہ مشترکہ منصوبے کچھ اس طرح تھے:
29 نومبر 1994 ء کو وفاقی وزیر پانی وبجلی، غلام مصطفیٰ کھر نے سینیٹ کو بتایا کہ’’ یہ منصوبے ستمبر1998ء تک مکمل ہوجائیں گے۔‘‘وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی، سلمان فاروقی کا کہنا تھا کہ’’ ہم برآمدی ایندھن کے ذریعے قلیل المیعاد منصوبوں اور طویل المیعاد منصوبوں کے لیے مقامی وسائل کوئلے اور ہائیڈرو الیکٹرک سٹی پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
اگر پاکستان چھے فی صد مجموعی قومی پیداوار کا ہدف برقرار رکھے، تو سالانہ نو سے دس فی صد بجلی پیدا کرنی ہوگی۔‘‘6 اکتوبر 1994 ء میں ہانگ کانگ کی فرم، کنسالڈیٹڈ الیکٹریکل پاور ایشیا کے مینیجنگ ڈائریکٹر، مسٹر گورڈن وو نے وفد کے دیگر ارکان کے ساتھ تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے 8ارب ڈالرز کے منصوبے پر دست خط کیے۔ فرم، تھر کے کوئلے سے5280 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ساتھ تھر میں کان کنی، سڑکیں اور ریلوے لائن تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی۔
اس موقعے پر گورڈن وو کا کہنا تھا کہ’’ تھرمل، ایٹمی بجلی سے بہت سستی ہوتی ہے،جب کہ سندھ کے کوئلے کا معیار اور مقدار حوصلہ افزا ہے۔ ہم ذاتی طور پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے، جب کہ باقی رقم ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے فراہم کریں گے۔ساری بجلی واپڈا خریدے گا، ابتدا میں قیمت ساڑھے چھے سینٹ ہوگی، جو بتدریج کم ہو کر 5.91 ہوجائے گی۔
ہمیں 20فی صد منافع حاصل ہوگا،جب تک تھر سے کوئلہ نہیں مل رہا، اسے درآمد کیا جائے گا اور پلانٹ کا ہر یونٹ 660میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔‘‘ماہرین کا خیال تھا کہ اِس منصوبے کا ایک یونٹ دسمبر1997ء اور دوسرا اس کے تین ماہ بعد کام شروع کردے گا، جس میں ابتدائی طور پر پانچ ہزار افراد کو روزگار ملنے کی بھی توقّع تھی۔19جنوری 1995 ء کو وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹّو نے ٹھاریو ہالیپوٹہ کے مقام پر کوئلے کی پہلی کان کی کُھدائی اور1320 میگاواٹ کے بجلی گھر کا سنگِ بنیاد رکھا۔
اِس موقعے پر اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ’’ اِن منصوبوں سے پاکستان، بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہوگا اور عوام کو لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی۔ مَیں اگست 1997 ء میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے سب سے بڑے منصوبے کی تکمیل کے بعد بجلی فراہمی کا افتتاح کروں گی، جو قوم کے لیے بڑا تحفہ ہوگی۔‘‘29اپریل1995 ء کو قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی، جس کے مطابق قومی ہائیڈل پالیسی کے تحت نجی شعبے کے زیرِ انتظام جتنے بھی پن بجلی گھر قائم کیے جائیں گے، اگلے 25سال بعد اُن کے مالکانہ حقوق حکومتِ پاکستان کو خود بخود منتقل ہوجائیں گے، واپڈا اُن کی بجلی ایک روپے اکتالیس پیسے سے بڑھا کر ایک روپے 95پیسے کلو واٹ کے نرخ پر 25سالوں کے لیے خریدے گا۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہائیڈرو پاور پلانٹ کے کام شروع کرنے کے 25سال بعد حکومتِ پاکستان اسے اپنی ملکیت میں لے لے گی اور اس کا کوئی معاوضہ سابقہ مالک کو نہیں دیا جائے گا، کیوں کہ وہ25 سال میں پن بجلی بیچ کر لاگت سے کئی گُنا زاید منافع کما چُکا ہوگا۔ اِسی دوران اگست 1995 ء میں عالمی بینک نے غازی بروتھا پراجیکٹ کے لیے350ملین ڈالرز کی منظوری دی، جس کے مطابق یہ منصوبہ اگلے چھے سال میں مکمل ہو جانا تھا اور اس منصوبے سے 1450میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کا بتایا گیا تھا۔
نومبر1996 ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی میعاد سے پہلے ختم کردی گئی اور اگلی حکومت نے ان منصوبوں کے معاہدات کی شفّافیت، توانائی پالیسی اور بجلی کی زیادہ قیمت پر اعتراضات شروع کردیئے۔ نجی سرمایہ کاروں نے سَستی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر، جن میں ہائیڈل شامل تھی، کام نہیں کیا۔ جون 1997 ء میں مُلکی وسائل اور مقامی کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا تھر پاور پراجیکٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کیوں کہ حکومت نئے ڈیم بنا کر بجلی کی پیداوار کے منصوبے میں دل چسپی رکھتی تھی،جب کہ حکومت نے توانائی پالیسی کی ترغیبات کے سبب سرمایہ کاری کرنے والی 19آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کا ازسرِنو جائزہ لینے کے لیے دبائو بھی ڈالنا شروع کردیا۔
حالاں کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کسی بھی شعبے کی قومی پالیسی پر حکمتِ عملی سے عمل درآمد نہ کیا جائے، تو منصوبے کے ثمرات تبدیل ہوکر مضرات بن جاتے ہیں۔ سو، پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ اگر پالیسی کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ مقامی وسائل کے حامل کوئلے کے پاور منصوبے بھی مکمل کیے جاتے، تودرآمدی ایندھن والے منہگے پاور پلانٹ سے اگلے دس سال بعد نجات نہیں، تو کم ازکم اپنی شرائط پر معاہدے ممکن تھے۔عالمی سیاست، ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو نقصان اور مافیاز کو فائدہ پہنچایا۔
ناقص منصوبہ بندی کے سبب حکومتوں نے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والے مقامی وسائل کے منصوبوں پر وقت صَرف کرنے کی بجائے منہگے درآمدی ایندھن والی آئی پی پیز سے معاہدے کرکے عام آدمی کی زندگی مشکل بلکہ اجیرن کردی ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ فوری طور پر ان منہگے آئی پی پیز معاہدوں کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور عوامی مفاد کے فیصلے کیے جائیں کہ قوم کی بقا اسی طور ممکن ہے۔
سرکاری اور نجی آئی پی پیز کی فہرست
ایکٹ ونڈ پاور لمیٹڈ، AJپاور پرائیوٹ لمیٹڈ، المعیزانڈسٹریز، آلٹرن انرجی، اپالو سولر ڈیویلپمنٹ پاکستان لمیٹڈ، آرٹسٹک انرجی، اٹلس پاور لمیٹڈ، اٹک جنرل لمیٹڈ، آزاد جمّوں کشمیر پاور ڈیویلپمنٹ، بیسٹ گرین انرجی پاکستان، جین کو 2، چنار انرجی، چائنا پاور حب جنریشن، چینوٹ پاور لمیٹڈ، کریسنٹ انرجی پاکستان لمیٹڈ، ڈیوس انرجی، اینگرو پاورجن قادر پور،اینگرو پاورجن تھر، ایف ڈی کیسکو، فاطمہ انرجی، فوجی کبیروالا، ایف ایف سی انرجی، فاؤنڈیشن پاور کمپنی ڈھرکی، فاوئنڈیشن ونڈ انرجی وَن اینڈ ٹو، گل احمد ونڈ پاور، گلف پاورجن، حبیب اللہ کوسٹل پاور، ہالمور پاور جنریشن، حمزہ شوگر ملز، ہڑپا سولر، ہوا انرجی، ہوانینگ شین ڈونگ روئی انرجی، ہائیڈرو چائنا دائود پاور، جام شورو پاور کمپنی، جاپان پاور جنریشن،JDW شوگر ملز، جھمپیر پاور، کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ،کوہِ نور انرجی، کوٹ ادّو پاور، لاڑکانہ پاور جنریشن، لال پیر پاور، لاریب انرجی لمیٹڈ، لبرٹی پاور ٹیک لمیٹڈ، ماسٹر ونڈ انرجی لمیٹڈ، میٹرو پاور، میرا پاور، نارووال انرجی لمیٹڈ، نیشنل پاور پارک، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور، نشاط چونیاں لمیٹڈ، ناردرن پاور جنریشن، اورینٹ پاور کمپنی،PAEC چشمہ نیوکلئیر پاور پلانٹ، پاک جنرل، پختون خوا انرجی مالاکنڈ، پختون خوا انرجی (پیڈکو)، پاکستان اسٹیٹ آئل، پورٹ قاسم الیکٹرک پاور، قائدِ اعظم سولر پاور، قائدِ اعظم تھرمل پاور، ریشماں پاور جنریشن، Rouschپاک پاور،RYK ملز لمیٹڈ، صبا پاور کمپنی، سچّل انرجی، سیف پاور، سفائر الیکٹرک، سفائر ونڈ پاور، سرحد ہائیڈل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن، سائودرن الیکٹرک پاور، اسٹار ہائیڈرو پاور، تنویر ایران، ٹیناگاجراسی لمیٹڈ، تھل انڈسٹریز، حب پاور، تھری گورجیز ونڈ فارم وَن، ٹو اور تھری، ٹی این بی لبرٹی، ٹرائی کون بوسٹن، اوچ پاور وَن اور ٹو،UEPونڈ پاور، واپڈا ہائیڈل، یونس انرجی لمیٹڈ، زیفائر پاور پرائیوٹ لمیٹڈ، زورلو انرجی پاکستان لمیٹڈ۔