سندھ، جو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا صوبہ ہے، حالیہ برسوں میں ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ 2019ءمیں، سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)اور مقامی صحت کے حکام نے لاڑکانہ کے مختلف علاقوں میں ایچ آئی وی کے ٹیسٹ کیے جن میں سینکڑوں افراد بشمول بچوں کے ایچ آئی وی مثبت نتائج سامنے آئے۔ اس کالم میں ہم سندھ میں ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ کی وجوہات پر تفصیلی نظر ڈالیں گے۔ پاکستان میں صحت کے نظام کی کمزوریاں اور غیر محفوظ طبی عمل ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی کمی اور غیر تربیت یافتہ میڈیکل اسٹاف کی موجودگی میں غیر محفوظ انجکشن اور دیگر طبی عمل کے دوران استعمال ہونے والے آلودہ آلات ایک اہم مسئلہ ہیں۔ 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں 70 فیصد طبی عملے نے انجکشنز کے دوران غیر محفوظ طریقہ استعمال کیا، جس سے ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا۔سندھ کے دیہی علاقوں میں غیر قانونی اور غیر تربیت یافتہ عطائی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد موجود ہےان کو روکنے کا کوئی قانون عمل میں نہیں ہے ۔ یہ "جعلی ڈاکٹر" اکثر غیر محفوظ طبی عمل کرتے ہیں، جس سے مریضوں میں ایچ آئی وی کا انتقال ہوتا ہے۔ 2019 میں لاڑکانہ کے قریب رتو ڈیرو میں بچوں میں ایچ آئی وی کی وبا پھیلنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس علاقے میں غیر تربیت یافتہ ڈاکٹرز غیر محفوظ طریقے سے انجکشنز لگا رہے تھے، جس سے وائرس پھیلا۔اگر یہ عطائی ڈاکٹر صرف محفوظ اور سرلائز انجکشن کا استعمال کرتے تو یہ مرض اتنی تیزرفتاری سے نہیں پھیلتا ۔خون کی منتقلی کے دوران غیر محفوظ عمل بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔ سندھ میں خون کی منتقلی کے مراکز کی نگرانی کی کمی اور غیر معیاری خون کی منتقلی کے عمل نے وائرس کے پھیلاؤ کو مزید تقویت دی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 20 فیصد خون کی منتقلی غیر محفوظ طریقے سے کی جاتی ہے۔منشیات کا استعمال بھی سندھ میں ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ کا ایک اہم سبب ہے۔ نشے کے عادی افراد اکثر مشترکہ سرنجوں کا استعمال کرتے ہیں، جو ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ سندھ میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں، جس سے ایچ آئی وی کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔پاکستان میں جنسی تعلیم اور آگاہی کی کمی کے باعث غیر محفوظ جنسی عمل بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس ضمن میںغیر ازدواجی تعلقات ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ قومی ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان میں 38فیصد ایچ آئی وی کے کیسز غیر محفوظ جنسی عمل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔سندھ میں سماجی اور ثقافتی عوامل بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں کے دیہی علاقوں میں غربت، ناخواندگی، اور صحت کی سہولیات کی کمی کے باعث لوگ علاج معالجے کے جدید طریقوں سے بے خبر ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ غریب اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ عطائی ڈاکٹروں کے علاج کو ہی مکمل علاج سمجھ لیتے ہیں ۔ مزید برآں، ایچ آئی وی/ایڈز سے جڑے سماجی داغ اور شرم کے باعث لوگ مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے آگے نہیں بڑھتے جس سے مرض کا پھیلاؤ بڑھتا ہے۔بین الاقوامی سطح پر بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے اسباب سندھ میں موجود مسائل سے مشابہت رکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے 25 فیصد کیسز انجیکشنز کے ذریعے پھیلتے ہیں، جبکہ 36 فیصد کیسز غیر محفوظ جنسی عمل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں صحت کے نظام کی کمزوریاں، غربت، اور عوامی آگاہی کی کمی ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ میں بنیادی عوامل ہیں۔سندھ میں ایچ آئی وی/ایڈز کے پھیلاؤ کوروکنے کیلئے حکومت کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات، طبی عملے کی تربیت، غیر قانونی ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی اور خون کی منتقلی کے مراکز کی سخت نگرانی کے ذریعے ہم اس وبا کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے بین الاقوامی تجربات سےبھی مدد مل سکتی ہے۔واضح رہے کہ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے، جس کا حل مشترکہ کوششوں اور عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے جس میں عطائی ڈاکٹروں کو کڑی سزا کے تعین کا قانون بنایا جائے تاکہ سندھ کے عوام کو اس خطرناک مرض سے بچایا جا سکے۔