• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام ! ہم سب کی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے کوٹ کوٹ کر محبت و عقیدت قابل قدر قومی اثاثہ اور اٹل ہے، لیکن آئیں!جاری ماہ آزادی میں یہ تلخ ترین حقیقت تو مانیں کہ، قیام پاکستان سے تادم ہمارا مجموعی نظام ریاست و حکومت اصلاً و عملاً، وائے بدنصیبی تباہ کن ثابت ہوا۔ اپنی پیدا کردہ اور دشمن کی مداخلت سے انتہا پر پہنچایا گیا داخلی سیاسی انتشار، پارٹیشن آف متحدہ پاکستان سے بنگلہ دیش کے قیام اور آج کے ابتر و مضطرب پاکستان کا باعث بنا۔فلاح عامہ اور اقوام کے ترقیاتی عمل کا اوپن سیکریٹ اور پاکستان میں محروم و مقہور عوام اور دھڑلے سے ریاست سنبھالی اولیگارکی (مافیا راج) کے خواص کو ملین ڈالر ٹپ یہ ہے کہ سنجیدہ منطقی اور وسیع تر سوچ کے حامل سوالوں کے درست جوابوں سے ہی گھمبیر مسائل کی تشخیص بھی ہوتی ہے اور علاج بھی، اس حقیقت کو ثابت کرنے کیلئے کامیاب ترین اور ناکام ترین اقوام کے ڈیٹا اورینٹڈ اور مفصل حقائق پر مشتمل کیس اسٹڈیز بڑی تعداد میں ڈویلپمنٹ سائنس اور گورنمنٹ اینڈ پالیٹکس کے علوم (ڈسپلنز) کے تحقیقی لٹریچر میں موجود ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد تلخ ترین و تاریخی حقیقتوں میں سے ایک بڑی اور بہت بنیادی یہ ہے کہ ہمارے ترقیاتی پروجیکٹس اور ریاستی حکومتی و سیاسی نظام و انتظام کا کوئی تعلق مطلوب اطلاقی علوم سے پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ اس بڑی غفلت میں حکومتوں کی بدنیتی اور نااہلی کا دخل غالب اور قریب قریب برابر ہی نظر آتا ہے ہر مخصوص کیس میں ثابت شدہ ہے، بہت سیدھی مکمل واضح اور بنیادی سیاسی شعور کے حامل ہر پاکستانی شہری کیلئے قابل فہم کہ سیاسی و معاشی استحکام کے حوالے سے بھارت ترقی پذیر دنیا میں مثال بن گیا۔ بھارت اور پاکستان کی موجودہ صورتحال پر بنا عالمی، خود اپنے شہریوں اور قومی و بین الاقوامی سطح کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے بیانیے اور امیج سے تشکیل پایا ہے کہ بھارت اور پاکستان ساتھ ہی آزاد ہوئے تو ہر دو میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کا اتنا بڑا فرق کیسے ہو گیا؟ جبکہ دو اڑھائی عشروں میں پاکستان کئی شعبوں میں بھارت سے آگے نکل گیا تھا۔ آج پاکستان کی مضطرب کیفیت میں اور بڑے ہمسائے کے ’’داخلی سیاسی و معاشی استحکام‘‘ کی حد تک تو یقیناً اس کا مکمل درست جواب بھی پورے برصغیر میں بلند درجے پر اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں اور پاکستان و بھارت کے خیر خواہوں کے نظر و فکر میں ایک ہی ہے یہ کہ ’’بھارت ابتدا سے ہی ریاستی آئین پر کاربند ہو گیا اور پاکستان ہر دور میں آئینی بحران میں مبتلا رہا بھارت اپنی جملہ داخلی و خارجی قباحتوں اور کھوٹے کردار کے باوجود اپنے اس (پابند آئین) کے تشخص پر نازاں اور پاکستان کا ہرشہری اب اس سارے کھیل کھلواڑ کو سمجھ کر مضطرب ہے، اب جواب درست کے عام ہونے کے باوجود ہر پاکستانی پریشان و بے بس ہے کہ آئین تو ہمارا بھی ہے متفقہ بھی ہے، مقاصد پاکستان کے مطابق بھی، تشکیل و نافذ بھی نصف صدی پہلے ہو گیا تھا تو پھر کیا ماجرا ہے؟ یہ بھی ہر پاکستانی کو معلوم ہو گیا کہ کیا کیا ،کب کب آئین سے کھلواڑ مچا۔ قدرے گہری اور علم سے جڑی بات اتنی ہے کہ بھارت نے آئین سازی کا کارِ عظیم آزاد ہوتے ہی آئین سازی کے متعلقہ علم کی سب سے باعلم بھارتی شخصیت ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کے سپرد کر دیا بھارتی اولیگارکی کسی سرخیل ’’ٹاپ برہمن لابی‘‘ نے ڈاکٹر صاحب کے دلت (اچھوت) تشخص کو ہضم کرتے انہیں پہلی کابینہ میں ہی وزیر قانون پارلیمانی امور بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے والد ریاست بڑودہ کے مہا راجہ کی ریاست میں چوکیدار تھے ’’باباجی‘‘ (یہ ڈاکٹر امبیڈکر کو دلت کمیونٹی کا دیا ٹائٹل ہے) امبیڈکر نے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے پہلے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی پھر لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ گریز این سے بار ایٹ لا کیا۔ واپس دیس پہنچے تو مہاراجہ بڑودہ نے انہیں اپنے ملٹری سیکرٹری (چیف سیکورٹی آفیسر) کی ملازمت دے دی جلد ہی ان پر رہائش نہ ملنے اور ماتحتوں کے ساتھ بے ادبی کے الزامات لگے تو وہ ملازمت چھوڑ کر درس وتدریس میں آگئے مختصر دورانیہ ملازمت میں وہ اپنے والد کے چھوٹے سے کوارٹر میں ہی رہائش پذیر رہے۔ بعدازاں جب قانون و سیاسیات کے سب سے تعلیم یافتہ انڈین کی حیثیت سے ان کا انتہائی اہم نیم سیاسی کردار واضح ہونے لگا تو پارٹیشن آف انڈیا تک برہمنوں نے ان کے علمی و فکری و سیاسی کردار کو دبانے کے لئے جو کچھ اونچی جاتی کے برہمنوں نے سلوک سیکولر ڈیموکریٹک انڈیا کے حقیقی بانی (باباجی) کے ساتھ کیا وہ اک الگ دلخراش داستان ہے لیکن یہی بھارتی برہمنی اولیگارکی جو روز اول (بعد از آزادی) سےکمال فن کاری و مکاری سے بھارت کی ’’اصل حکمران‘‘ رہی اور ہے، اس بھارتی جوہر کی قدر تو جانتی تھی بڑی تاریخ ساز ضرورت پڑی تو ڈاکٹر امبیڈکر کی دلت حیثیت کو فوری ہضم کرتے بھارت کو ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ اور (ذات پات پر قائم رہتے بھی) چانکیہ چال چلتے نئی ریاست کے سیکولر تشخص کو دنیا میں اجاگر کرنے کیلئے ان سے دنیا کا سب سے مفصل اور اسمارٹ کانسٹی ٹیوشن تیار کرانے کا کام نکلوانے میں ذرا تاخیر نہ کی، کابینہ کی تشکیل کے ساتھ ہی وزارت کے ساتھ بابا جی کو آئین سازی کی ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے نتیجہ خیز بھارتی آئین کی تیاری کا تقریباً سب اور اصل کام ہی ڈاکٹر امبیڈکر نے انجام دیا 26نومبر 1949ء کو بھارتی آئین کا اطلاق ہو گیا ساتھ ہی برہمن اولیگارکی نے انہیں قومی سیاست میں آگے آنے سے روکا ہی نہیں، ڈاکٹر صاحب کی اس جدوجہد میں رکاوٹیں ڈالنا بھی شروع کر دیں، یہ بھی جدید اور سیکولر بھارت کی ذات پات غلبے کی دردناک کہانی ہے بڑا ثبوت یہ کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندو مت ترک کر کے دل برداشتہ ہو کر مرنے سے پہلے بدھ مت قبول کر لیا ان کی تقلید میں بھارتی دلتوں نے بدھ مت کی قبولیت کا جو سلسلہ شروع کیا، لاکھوں ہوئے، پھر اس میں اولیگارکی رکاوٹ جدید بھارتی تاریخ کی ایک اور سیاہ داستان ہے لیکن امبیڈکر کا بنایا آئین اور اس کا بڑے فیصد میں اطلاق اور عملداری بھارتی سیاسی استحکام کی ضمانت اور کسی بھی بحران پر قابو پانے کا شاک آبزروبن گیا۔(جاری ہے)

تازہ ترین