تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے
گرمی ہے، مہنگائی ہے پر ہم نے قسم کھائی ہے تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے، ہر تنگی کے بعد آسانی ہے، بس اتنی سی کہانی ہے ،مصائب جھیلنے کی بھی اپنی دنیا ،اپنا مزا ہے، دستور جہاں ہے کہ مشکل راہوں کے بعد ہموار چمکتی سڑک پر چلنے میں کتنا لطف ہے ایک ایسا سورج اور شب دیجورمیں ایسا چاند ضرور طلوع ہوگا کہ ہر چمکتی چیز واقعتاً سونا ہو گی، پاکستان کٹھن راہوں پر چل کر قائد کے سنگ وجود میں آیا ۔پاکستان تو بن گیا مگر ان کےساتھ چلنے والے قافلے کی اولاد بے یارومدد گار تنگدستی کے دوزخ میں جل رہی ہے ۔76برس آس امید میں گزر گئے لیکن اب بھی جہاں تھے وہیں کھڑے اپنے حکمرانوں کی دہائیاں دے رہےہیں۔ انہوں نے خود کو تو بنا لیا مگر کروڑوں عوام کی یہ حالت ہے کہ ؎صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا ،نہ جانے کونسی حکومت ہو گی کہ شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے۔ وطن عزیز میں دو طبقے ہیں ایک عیش ونعم میں پل رہا ہے دوسرا طبقہ جسکی اکثریت حکومتیں بناتی ہے نان نفقہ کو محتاج ہے۔غریب ہے کہ روتے روتے اپنی حالت پر ہنس پڑتا ہے اور امیر ہے کہ اس کے خوشی کے آنسو تھمتے نہیں ایک اقلیت ہے جو سر تا پا سیم وزر میں ڈوبی ہوئی ہے اور ایک اکثریت ہے کہ زوال کے کنویں میںغرقاب ہے اقبال نے تنگ آکر کہا ہو گا کہ ؎
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
یہ عوام الناس کا لحاظ ہے کہ وہ امرا کو کچھ بھی نہیں کہتے مگرداورِمحشر تو یہ کیس یونہی نہیں جانے دے گا اس ملک کے حکمرانوں نے چند خاندانوں کو قیصرو کسریٰ بنا دیا اور لاتعداد گھرانوں کو غریبی میں نام پیدا کرنے پر لگا دیا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
14اگست بھی گزر گیا
مملکت خداداد پاکستان خیر سے 77ویں سال میں داخل ہو چکا ہے وطن سے محبت ہر پاکستانی کا پہلا اور آخری پیار ہے اگر وطن بول سکتا تو ہم سب کے ہوش ٹھکانے آ جاتے کہ ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا بدسلوکی نہیں کی، افواج پاکستان یعنی مجاہدین پاکستان ہی نے اس پاک دھرتی کے ساتھ انصاف کیا آج بھی و ہ محوِرزم ِحق و باطل ہیں کوئی دن ان کی شہادتوں سے خالی نہیں جاتا ،ہم نے نہ اپنی افواج کی قدر کی نہ پاکستان کی، اور خدا کا شکر ہے کہ فوج بھی ایسی سورما ہے کہ دشمنان پاکستان اس کے وجود سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ہر 14اگست ہم سے کہہ جاتا ہے کہ میں پھر آئوں تو تمہاری معیشت بہتر حالت میں ہو مگر ہم جھنڈی فروش اور جھنڈی خریدار وہیں ہوتے جہاں وہ ہمیں پچھلے سال چھوڑ کر گیا ہوتا ہے، ہماری ترقی یہ ہے کہ خیرات وصول کرتے اور نوجوانوں میں کچھ نہ کچھ تقسیم کرتے ہیں یہ نہیں کہ ہم نے صنعت وحرفت میں ترقی کی ہو یا آئی ایم ایف کو خیر باد کہا ہو۔14اگست بھی ایک تہوار ہے آتا ہے جاتا ہے اور ہم وہیں ہوتے ہیں جہاں وہ ہمیں چھوڑ کر گیا ہوتا ہے جب تک اس ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوتی ،دور کیا جانا آپ یونین کونسل سے ایک کاغذ نکلوانے جائیں تو آپ سے پہلا مطالبہ ہی یہ کیا جاتا ہے کہ ہماری چائے ،پانی کا بندوبست کر و کام اسی وقت ہو جائے گا چائے پانی کا بندوبست نہیں کرو گے تو یہ کام مہینوں میں ہوگا نہ ہو گا ہم گارنٹی نہیں دے سکتے یہی سلسلہ رشوت ستانی پورے ملک میں جاری و ساری ہے، آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جونہی حکومت آتی ہے تبادلوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے،من پسند افسران کو آخر کیوں کلیدی اسامیوں پر تعینات کیا جاتا ہے ؟سمجھداروں کیلئے اتنا ہی کافی ہے آپ لوئر عدلیہ میں جائیں تو وہاںکے نائب قاصد سے پیسہ بٹورنے کا سلسلہ شروع ہو کر اوپر تک جاتا ہے جب تک رشوت اور بیڈگورننس کا فتنہ فرو نہیں ہو تا ہم 14اگست کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوسکتے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ماحولیاتی و اخلاقیاتی آلودگی
غور کریں تو ماحولیاتی و اخلاقیاتی تبدیلی کے ہم خود ہی خالق ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاند جیسی زمین عطا فرمائی اور نیک فطرت پر پیدا کیا ۔ہم نے زمین کو بھی آلودہ کر دیا اور اخلاقیات کو بھی برباد کر دیا مغلظ ماحول اور خوش اخلاقی کو ضائع کرکے بیماریوں نے گھیر لیا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ بداخلاقی ہمارا شیوہ بن گیا حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ ؎
لےسانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
دومسلمان گھنٹوں بس سٹاپ پرکھڑے ہوتے ہیں اور نہ دعا نہ سلام اس لئے کہ ہم سلام بھی واقفیت کی بنیاد پر کرتے ہیں، ہمارا اخلاق اچھا ہوتا تو ماحول بھی صاف ستھرا ہوتا، کارخانوں، بھٹوں کی چمنیاں دن رات دھواںاگلتی ہیں محفل میں بیٹھ کرسگریٹ نوشی کرتے ہیں، چلو نوشی تو پھر بھی گوارا ہے مگر سگریٹ قبول نہیں ۔آج سے کوئی پچاس برس پہلے ماحولیاتی آلودگی تھی نہ اخلاقی تنزل،سچ پوچھیں تو بااخلاق ڈرکے مارے بداخلاق سے دور رہتا ہے ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لاہور کی ایک نیٹ ورکنگ پرائیویٹ کمپنی میں ایک ایسا آدمی اہم پوسٹ پر کام کرتا ہے جس کا اوڑھنا بچھونا گالم گلوچ ہے کتنے ہی ماتحت افراد اس کی بدزبانی سے تنگ آکر کمپنی چھوڑ چکے ہیں یہی حال جگہ جگہ ہے اگر باپ گھر میں گالی دیکر بات کرے گا تو کیا اولاد بااخلاق رہے گی، تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کا ایک پیریڈ ہونا چاہئے، رہی بات ماحولیاتی آلودگی کی تو اس کے حوالے سےپارلیمنٹ قانون سازی کرے اس طرح پارلیمنٹ بھی مچھلی منڈی بننے سے بچ جائےگی، بداخلاقی کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دینا چاہئے اپنا کوڑا دوسروں کے دروازے پر ڈالنا بھی عام ہے یہ ہے وہ حق ہمسائیگی جو ہم اس طرح ادا کرتے ہیں مسلمان صفائی پسند اور خوش اخلاق ہوتا ہے وگرنہ وہ امت سے خارج ہو جاتا ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
حکومت قومی بچت پر بھی چڑھ دوڑی
٭وزیر اعظم:نوجوان نسل ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے 10لاکھ نوجوانوں کو میرٹ پر اسمارٹ فون دیں گے۔
یہ تو بڑا ہی آسان نسخہ ہے کہ 10لاکھ اسمارٹ فون ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔
٭ٹریفک پولیس کیلئے چیلنج:اس وقت لاہور کی تنگ گلیوں میں دو رویہ کاریں کھڑی کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ٹریفک پولیس کے آئی جی نوٹس لیں۔
٭جنرل فیض فوجی تحویل میں
فوج واحد ادارہ ہے جس میں خود احتسابی کا عمل جاری رہتا ہے ۔
٭قومی بچت اسکیموں کی شرح منافع میں کمی کا اعلان
حکومت کے ’’کارناموں‘‘ میں ایک اور اضافہ مبارک ہو غریب ملازمین بزرگ پنشنرز کا ایک سہارا بھی چھین لیا گیا اب خیر سے کوئی قومی بچت اسکیموں کا رخ نہیں کرے گا ،یوں لگتا ہے حکومت عوام کے گردن کی رسی مزید ٹائٹ کرنے کے درپے ہیں منافع بڑھانے کے بجائے گھٹا دیا واہ واہ!
٭٭ ٭ ٭ ٭