جولائی کے آخری ہفتے شروع ہونے والے نسلی فسادات جو سائوتھ پورٹ برطانیہ میں تین کم عمر بچیوں کے بے رحمانہ قتل کے بعد شروع ہوئے چند روز میں پورے برطانیہ میں پھیل گئے جن کا مرکزی ہدف برطانوی مسلمان تھے۔ حالیہ جنرل الیکشن میں غیر معمولی کامیابی کے نشے میں سرشار لیبر پارٹی حکومت کی غفلت اور قاتل کی شناخت کے عمل میں تاخیر نے سفید فام نسل پرست گروہوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط اطلاعات اور پروپیگنڈے کو تقویت دی کہ سائوتھ پورٹ واقعے سمیت اکثر بڑے جرائم میں امیگرنٹس خصوصاً مسلمان ملوث ہوتے ہیں۔برطانوی پولیس سترہ سالہ قاتل کی شناخت ظاہر کیے بغیر صرف اس کی مذہبی وابستگی سے متعلق عوام کو آگاہ کر دیتی تو شاید حالات اس قدر کشیدہ نہ ہوتے اور مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر متعصب نسل پرستوں کے حملے نہ ہوتے۔ گزشتہ ماہ برطانیہ کے شہر لیڈز میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے امیگرنٹس کے بچوں کی تحویل سے شرو ع ہونے والے احتجاج کو بھی مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈے کیلئے سوشل میڈیا پر استعمال کیا گیا۔ اس واقعے میں احتجاج کرنیوالے امیگرنٹس نے ایک بس اور پولیس کار کو آگ لگا دی تھی۔ چند روز بعد مانچسٹر ایئر پورٹ پر برٹش پاکستانی نوجوانوں پر پولیس تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد پاکستانی کمیونٹی نے مقامی پولیس کے خلاف شدید احتجاج اور پولیس ہیڈ کوارٹر کا گھیرائو کیا تاہم پوری ویڈیو سامنے آنے کے بعد حقیقت سامنے آئی کہ ان نوجوانوں نے پہلے پولیس والوں پر حملہ کیا اور اس جھگڑے میں ایک خاتون پولیس آفیسر کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔ اگرچہ برصغیر پاک و ہند سے لوگوں کی برطانیہ آمد کا سلسلہ جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد شروع ہو گیا تھا مگر پاکستانیوں کی اکثریت جن کا تعلق میرپور اور قریبی اضلاع سے تھا ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران برطانیہ آئے اور لنکا شائر ،یارک شائر اور مڈلینڈ کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں ملازمت اختیار کی۔ آج برطانیہ کے تقریباً تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں پاکستانیوں کی تین نسلیں رہائش پذیر ہیں۔ برٹش پاکستانی برطانیہ کی دوسری بڑی اقلیت ہیں اور مقامی سیاست میں بڑے فعال ہیں۔ حالیہ انتخابات میں پندرہ پاکستانی نژاد برطانوی ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور موجودہ حکومت کی وزیر انصاف شبانہ محمود کے آبائو اجداد کا تعلق بھی میر پور آزاد کشمیر سے ہے اور وہ خود برمنگھم سے 2010ءسے مسلسل ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو رہی ہیں۔ پاکستانی نژاد صادق خان کی بطور میئر لندن دوسری مرتبہ فقید المثال کامیابی، لیبر پارٹی کی جیت، مسلم ووٹوں سے جیتنے والے پانچ آزاد ممبران اور لاکھوں افراد کے سیز فائر اور غزہ مارچوں نے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو ،جو جنرل الیکشنز میں بری طرح ہار گئے تھے ،پریشانی اور ہزیمت سے دو چار کر دیا تھا اور وہ مسلسل کوشش میں تھے کہ عام برطانوی شہریوں کو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کر سکیں۔ سوشل میڈیا پر اور کچھ حد تک مین سٹریم میڈیا پر مسلسل پرچار کیا گیا کہ مسلمان ان کا کلچر تبدیل کر کے برطانیہ میں شریعہ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارتی نژاد ہندوئوں نے بھی اس مہم میں انتہا پسند برطانویوں کا ساتھ دیا حالانکہ ماضی میں وہ خود نسلی تعصب کا نشانہ بن چکےہیں۔ تاہم انگریزوں کی بھاری اکثریت نے نسل پرست انتہا پسندوں کے نظریے اور احتجاج کو رد کر دیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں قانونی و غیر قانونی امیگریشن اور سیاسی پناہ کے خواہشمند غیر سفید فام لوگوں کی بھاری تعداد کی اقتصادی کساد بازاری کے شکار ملک برطانیہ میں آمد نے سسٹم پر دبائوبڑھا دیا ہے۔ ملازمتوں کے مواقع میں کمی، تعلیم اور صحت کے گرتے ہوئے معیار، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے اور سوشل مراعات میں کمی نے برطانیہ کے عام شہریوں اور حکومت کو نئے آنے والے تارکین وطن کے خلاف اقدامات پر مجبور کر دیا ہے چنانچہ برطانیہ آنیوالوں کیلئے ملک میں مستقل رہائش کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے غیر قانونی رہائشیوں اور اسٹوڈنٹ ویزوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ملک سے بے دخل کرنے کیلئے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود محنت سے کام کر کے اپنے حالات بہتر کیے، پاکستان میں جائیدادیں بنائیں اور اپنے عزیزوں میں بچوں کی شادیاں کر کے بہووں ، دامادوں کو برطانیہ لا کر سیٹل کیا، تاہم ایک آزاد خیال معاشرے اور اوپن سوسائٹی سے خوفزدہ ہجرت کرنے والوں نے اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو اپنے قریبی سرکل اور مذہبی حلقوں میں متحرک رکھا اور مقامی لوگوں کے ساتھ زیادہ میل ملاپ سے گریز کیا۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، طاقت اور طرز زندگی نے برطانیہ کے نیشنلسٹ طبقے کو تشویش میں مبتلا کر دیا جو پہلے ہی بتدریج معاشی بدحالی کی طرف جا رہے تھے اور مسائل کی تقسیم سے نالاں تھے۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں برٹش نیشنل پارٹی، انگلش ڈیفنس لیگ، انگلینڈ فرسٹ اورنیشنل فرنٹ سفید فام لوگوں کو دوسری قومیتوں ، نسلوں اور مذاہب کے لوگوں سے بچانے کی جدوجہد کرنے کی دعویدار ہیں جن کو فی الحال پذیرائی اور عوامی حمایت حاصل نہیں مگر مستقبل میں بیرونی امیگریشن جاری رہی اور برطانیہ میں نئے آنے والے اور دو تین نسلوں سے بسنے والوں نے اپنا طرز زندگی اور رسم و رواج مقامی آبادی کے ساتھ ہم آہنگ نہ کیے اور فاصلے برقرار رکھے تو دونوں اطراف سے شدت پسندی بڑھ جائے گی اور تفریق گہری ہو جائے گی۔
آخری بات بغیر تصدیق مسلمان لڑکے کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرانے والی ویب سائٹس اور فیک نیوز سوشل میڈیا پر دینے والے بھلے برطانیہ میں ہوں، روس، بھارت یا پاکستان میں ان کا انٹرپول کے ذریعے سراغ لگا کر قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)