گرمی کی شدت میں حالیہ اضافے کے باعث شمالی علاقوں کا رخ کرنے والے شہریوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ سیاحوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کو مقامی ٹورازم انڈسٹری کیلئے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں سیاحت کیلئے شمالی علاقوں کا رخ کرنے والے شہریوں کو پیش آنے والے حادثات اور ہنگامی حالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں سیاحت کے فروغ سے زیادہ سیاحتی مقامات پر انفراسٹرکچر اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بہتر بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں مقامی آبادی کی طرف سے سیاحوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ سیاحوں کیساتھ مقامی افراد بالخصوص ہوٹل مالکان اور دکانداروں کی جانب سے غیر مناسب سلوک کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک کے مختلف شہروں سے سیاحت کیلئے شمالی علاقہ جات کا رخ کرنے والے شہریوں کی جانب سے مقامی افراد کی ثقافت اور رسم و رواج کا احترام نہ کرنا یا سیاحتی مقامات پر کچرا پھیلانے کی روش کو بھی تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیاحت کیلئے شمالی علاقہ جات کا رخ کرنیوالے بہت سے افراد وہاں پر مقامی آبادی میں گھروں کے باہر اور پھلوں کے باغات میں لگے ہوئے درختوں سے اس بیدردی کے ساتھ پھل توڑتے ہیں کہ اس سے یا تو پھلدار درختوں کی شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں یا انہیں اتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے کہ اس سے انکی پھل دینے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مقامی آبادی کی طرف سے ردعمل آنا فطری ہے جس کی وجہ سے اکثر ناخوشگوار واقعات پیش آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ہمیں سیاحت کے فروغ سے زیادہ شہریوں کو سیاحت سے متعلق انکی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی سیاحت کیلئے ان علاقوں کا رخ کرنیوالے افراد کو قدرتی ماحول کیلئے نقصان دہ عوامل سے بچنے کی تلقین ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت ان علاقوں کے نئے مقامات سے متعارف ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد وہاں کا رخ کر رہی ہے لیکن اس لحاظ سے ان علاقوں میں انفراسٹرکچر اور سہولیات دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر مقامات پر سیاحت کیلئے درکار بنیادی ڈھانچہ غیر معیاری ہے اور بہت سے خوبصورت علاقے دن میں کئی کئی گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ ان علاقوں میں فون اور انٹرنیٹ کی بنیادی سہولت بھی مناسب طور پر دستیاب نہیں جبکہ پینے کے پانی کی بھی قلت ہو رہی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ماحول دوست اور پائیدار انفراسٹرکچر بنانے کیلئے بین الاقوامی اور تجربہ کار مقامی سرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے۔ اس طرح بیرون ملک سیاحت کیلئےجانیوالے پاکستانی شہریوں اور غیر ملکی سیاحوں کو بھی ان علاقوں میں جانے پر راغب کیا جا سکے گا۔ اس وقت مجموعی قومی آمدنی میں سیاحت کا شیئر تقریباً چھ فیصد کے قریب ہے جسے 20 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے سکیورٹی اور روڈ انفراسٹرکچر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں سیاحتی اہمیت کے حامل علاقوں میں عالمی معیار کے ائیرپورٹ بنانے اور پہلے سے موجود ائیرپورٹس کو اپ گریڈ کرنا چاہئے تاکہ بیرون ملک سے سیاح براہ راست ان علاقوں میں آ سکیں۔
اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت اور فوج کے اشتراک سے گرین ٹورازم کمپنی نے شمالی علاقہ جات میں 150ہوٹلوں کی تعمیر پر کام شروع کر دیا ہے۔ یہ تمام ہوٹل ایسے مقامات پر تعمیر کئے جا رہے ہیں جو پہلے ویران پڑے تھے اور سیاحوں کی وہاں تک رسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر ان علاقوں میں ایک مربوط پالیسی کے تحت انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی بجائے ماحولیاتی تحفظ کے ضابطوں پر عمل کئے بغیر سڑکوں اور ہوٹلوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے مقامی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ حالیہ چند سال کے دوران لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے پہاڑی علاقوں کی مقامی آبادی کی معاشی خوشحالی میں اضافہ ہوا ہے لیکن سیاحوں کی بہتات اور غیر ذمہ دار رویوں کی وجہ سے ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کے مقابلے میں مقامی آبادی کو ہونیوالے معاشی فوائد عارضی ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وسائل سے محروم یہ علاقے ہر سال لاکھوں مقامی سیاحوں کی آمد کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں اس کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مربوط پالیسی کے تحت انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ہماری پہاڑی علاقے درجہ حرارت میں اضافے، برف باری میں کمی، گلیشیرز کے پگھلنے، برفانی تودے ٹوٹنے سے آنے والے اچانک سیلابوں کے باعث پہلے ہی شدید قسم کے ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔ ایسے میں لاکھوں سیاحوں کی آمد کیلئے ہزاروں گاڑیوں کی آمدورفت اور کھانے پینے و دیگر اشیائے ضرورت کی فراہمی ان علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بے ہنگم طریقے سے بڑے پیمانے پر سیاحت جہاں مختصر مدت میں مالی فوائد فراہم کر رہی ہے وہیں طویل مدت میں یہ قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد سیاحت کو محدود کرنا یا اس میں کمی لانے کی بجائے اس حوالے سے ذمہ دار طرز عمل کو اپنانے پر زور دینا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیاحتی شعبے کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ ماحولیات کے نقطہ نظر سے ذمہ دار سیاحت یا ’’ایکوٹورازم‘‘ کو فروغ دیا جائے تاکہ پہاڑی علاقوں کی مقامی آبادیوں کو معاشی مواقع کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کے قدرتی ماحول اور ثقافتی تنوع کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔