ریاست دشمن عناصر کے خلاف ملکی تاریخ کے بڑے کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد تحریک انصاف کے’’جزو وقتی رہنما‘‘ خزاں رسیدہ درخت کے نحیف پتوں کی طرح ایک ایک کرکے جھڑنے لگے۔عمران خان کی شطرنج کی بازی الٹ گئی، اور’’کنگ‘‘کےساتھ’’کوئین‘‘بھی نشانے پر ہے۔حالات حاضرہ سے پوری طرح باخبر لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ثبوت اور شواہد اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جو 9؍مئی کی ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرانے میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے جبکہ یہ بھی یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جو پورے خاندان سمیت عمران خان کے سحر میں گرفتار تھے، لیگل کور کے علاوہ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے۔اس بارے میں ان کے اور ان کےاہل خانہ کی آ ڈیو لیکس کے علاوہ بعض’’قابل گرفت‘‘ شواہد حاصل کر لئے گئے ہیں جن کا تجزیہ کیا جارہاہے تاہم ابھی سابق چیف جسٹس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ نہیں ہوا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جناب سابق چیف جسٹس شاید اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی قدم کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے روپوش ہیں اور شاید یورپ کے کسی ملک میں موجود ہیں۔اس ضمن میں دی نیوز کے شعبہ تحقیق و تفتیش سے وابستہ فخر درانی نے جب ان کے روپوش ہونے کے حوالے سے گردش کرنے والے سوالات کے بارے میں ان کا مؤقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ سوچے بغیر کہ وہ اب چیف جسٹس آف پاکستان نہیں اور اب’’طاقت کا سرچشمہ‘‘ نہیں رہے اور وہ تحریک انصاف اور اس کےبانی کو غیر قانونی ریلیف دینے کے اہل نہیں، انتہائی تکبرانہ اور توہین آمیز انداز میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ تفریحی دورے پر یورپ میں ہیں لیکن اس سوال کا عام تاثر ہے کہ آپ نے مقدمات کے ڈر سے ملک سے فرار ہونے کا آپشن اپنایا ہے، ثاقب نثار نے انتہائی غیر مہذب انداز میں’’حکم‘‘ دیا کہ آئندہ انہیں ٹیلیفون کرنے کی جرات نہ کریں اور ان کی جانب سے یہی پیغام جنگ، جیو اور دی نیوز کے نمائندوں کو بھی پہنچا دیں کیونکہ وہ ان کے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند نہیں۔سراغ رساں اداروں نے بانی پی-ٹی-آئی کے فوج کے اندر اور باہر کے تمام رابطوں کا سراغ لگا لیا۔عمران خان کے ملک کے اندر اور بیرون ملک رابطوں کا سراغ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ (ایگزیکٹو )محمد اکرم کے ٹیلیفون کی ٹی- ڈی-آر کے ذریعے لگایا گیا ہے جس میں رابطوں حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی سلامتی کے خلاف تیار کی جانے والی سازش کی کمانڈ عمران خان نے سنبھال رکھی تھی اور وہ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لئے اپنے پیروکاروں کو ہدایات جاری کرتے اور مقررہ مدت میں دئیے گئے ٹاسک کی تکمیل کی ہدایت کرتے تھے۔بانی پی-ٹی-آئی کے ایجنڈے کے مطابق فوج کوتقسیم کرنے کی سازش بھی جنرل (ر) فیض حمید کی کمانڈ میں پروان چڑھی۔عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے تمام شواہد حاصل کر لئے گئے ہیں۔یہ خیال نہیں حقیقت ہے کہ عمران خان کا اہم منصب پر فائز وہ واحد رازدار جس کے پاس بغاوت کی مکمل منصوبہ بندی کی دستاویزات یا بلیو پرنٹ موجود ہیں، ایجنسیوں کے نشانے پر ہے لیکن اس کے اہم منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے اسے فوری طور پر شامل تفتیش نہیں کیاجائے گا تاہم مناسب وقت پر اس کی گرفتاری کا قوی امکان ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ وہ ریاست دشمنی کے ایجنڈے کی تصنیف و تائید اور پیروی میں شامل ہے۔تحقیقاتی ادارہ عمران خان اور سابق آئی-ایس-آئی چیف کے حوالے سے حاصل کئے جانے والے بعض ٹھوس شواہد عوام کے سامنے لانے کے قانونی اور انتظامی پہلوؤں پر غور کررہا ہے۔اگرچہ یہ اقدام ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس کے بعض اقدام کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لیا جا سکتاہے۔تحقیقاتی ایجنسی مشکوک افسران کو تحویل میں لے کر ضروری اور مطلوبہ معلومات حاصل کرکے واپس بھیج رہی ہے۔ باخبراور تحقیق کار حلقوں کو یقین ہے کہ سابق آئی-ایس-آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری پہلے اور بعد سامنے آنے والے بعض اہم انکشافات کی بنیاد پر 52 مزید ایسے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جو تختہ الٹنے کے منصوبے کا براہ راست حصہ تھے جن میں حاضرسروس اور ریٹائرڈ آفیسرز کے علاوہ اہم اور حساس اداروں کے اہلکاروں سمیت جنرل فیض حمید کے نیٹ ورک کا براہ راست حصہ تھے۔اس نیٹ ورک کے قیام کا آغاز عمران خان کے دور میں ہی ہو گیا تھا جس میں سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے 2500 نوجوانوں کو فوج اور عمران مخالف قوتوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بیانیہ پھیلانے کے لئے روس اور ترکی کے آئی ٹی ماہرین سے ٹریننگ دلائی گئی جس کے بعد اس سوشل میڈیا بریگیڈ کو فوج، اسلام، تہذیب اور ریاست کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے اور یہودیت نافذ کے لئے استعمال کیا گیا۔