• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میں آپ سے کچھ شیئر کرنا چاہتاہوں۔ میرا مطلب ہےکہ آج میں آپکو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ آپ کو بتانے کیلئے میرے پاس کچھ بھی غیرمعمولی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے، میری یہ بات آپ نےپہلے بھی کسی سے سن رکھی ہو۔ اس لئے آپ اس وقت ملک کی بے مثال مالی اور اقتصادی ترقی کیلئے جو کام کررہے ہیں، اس کام میں لگے رہئے۔ دلجمعی سے ملک کو معاشی دلدل سے نکال کے اپنی بے لوث خدمتیں جاری رکھیں۔ نیک نیت لوگوں کا اللہ سائیں حامی و ناصر ہوتا ہے۔ستتر برسوں سے ملک کیلئے ترقی کی کوششوں میں آپ جیسے لوگ مثالی کردار ادا کرتے ہیں۔ آنے والی نسلیں آپ کے نیک کاموں سے متاثر ہوکر آپ کے نقش قدم پر چل پڑتی ہیں۔ ایسے لوگ دبئی میں نہیں، بلکہ آپ کے دل میں گھر بناتے ہیں۔ اسلئے آپ ملک کی ترقی کیلئے اپنا نیک نیتی پر مبنی کام جاری رکھیے اور فرصت کے اوقات میں تگڑم کہانی پڑھیے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ اپنا قیمتی وقت جھوٹی کہانیاں پڑھنے میں ضائع کریں۔ یہاں پر ایک کام کی بات بتادوں آپ کو۔ جھوٹی کہانیاں صرف پڑھنے کیلئے ہمیں نہیں ملتیں۔ جھوٹی کہانیاں ہم بڑی دلچسپی سے سنتے بھی ہیں۔ اس لیے آپ لکھی ہوئی کہانیاں پڑھنے سے گریز کریں، آپ زبانی کلامی جھوٹی کہانیاں سننے سے اجتناب کریں۔ ایسی بے سروپا کہانیاں آپ کو سننے کیلئے سینہ بہ سینہ ملتی ہیں۔ سنی سنائی کہانیوں سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے، بلکہ ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے سنی سنائی کہانیاں اگر ایک مرتبہ گلے پڑجائیں تو پھر ایسی کہانیاں مرتے دم تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ آپ اور میں مر جاتے ہیں، ہم ختم ہوجاتے ہیں مگر سنی سنائی کہانیاں ختم نہیں ہوتیں۔اصل بات بتانے سے پہلے، میں آپ سے ایک اور بات شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ ملک اپنا ملک لگتا ہے۔ یہ بات میں نے خرانٹوں کو خوش کرنے یا خرانٹوں سے ڈرکر نہیں لکھی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جہاں پر اور جس ملک میں ہم جنم لیتے ہیں، وہ ملک جنم بھومی ہونے کے ناطے ہمیں اپنا ملک لگتا ہے۔ پر، میرے ساتھ یوں نہیں ہے۔ یہ ملک میری جنم بھومی نہیں ہے۔ میں اس ملک میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں نے جس جگہ اور جس ملک میں جنم لیا تھا، اس ملک کا نام برٹش انڈیا تھا۔ تب دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام و نشان نہیں تھا۔ میں، جنم کے حوالے سے برٹش انڈین ہوں۔ اس لحاظ سے چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے جنم لینے والے ہم سب لوگ برٹش انڈین British Indian تھے۔ میں آپ کو چونکانا نہیں چاہتا۔ مگر احتراماً عرض ہے کہ ہمارے اپنے، پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح برٹش انڈین تھے۔ لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین بھی پیدائشی طور پر برٹش انڈین تھے۔ مہاتما گاندھی، موتی لعل نہرو، جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد بائے برتھ By Birth برٹش انڈین تھے۔ یہ کوئی شرمندہ ہونے والی بات نہیں ہے۔ آپ کسی ملک کے بننے اور وجود میں آنے سے پہلے اس ملک میں جنم نہیں لے سکتے۔ یہ امکان کی سرحدوں سے بہت دور کی بات ہے۔ میں نے جب جنم لیا تھا، تب ہندوستان پر انگریز کا راج تھا۔ پاکستان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس لیے میرا پاکستان میں جنم لینا ممکن نہیں تھا۔ جو ملک بنا ہی نہیں، اس ملک میں آپ جنم نہیں لے سکتے۔

اب کرتے ہیں آج کی بات۔ اصل بات کرنے سے پہلے میں اپنے وجود کو بے چین کردینے والی کھلبلی اور خدشوں سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اصل بات جو کہ ہر لحاظ سے تاریخی حقیقت ہے، بیان کرتے ہوئے گھبرا رہا ہوں۔ ایک ڈر، خوف مجھے اندر سے کھائے جارہا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ آج سے ساٹھ ستر برس پہلے ملک میں اظہار کی مکمل آزادی تھی، قطعی غلط بات ہے۔ کرنے والوں نے جب بانی پاکستان قائداعظم کی پہلی تقریر ایڈٹ Edit کرڈالی تھی، تب واضح ہوچکا تھا کہ ہمارے ہاں اظہار کی آزادی نہیں ہے۔ کچھ بولنے، کچھ لکھنے کی پاداش میں آپ دھر لیے جاتے ہیں۔ آپ اچانک غائب ہوجاتے ہیں۔ عدالتیں بے بس لگتی ہیں۔ جج صاحبان ریٹائر ہوجاتے ہیں، یا پھر ٹرانسفر ہوجاتے ہیں، مگر قانون بھی آپ کو تلاش نہیں کرسکتا۔ آپ کو عدالت میں پیش نہیں کرسکتا۔ دیکھنے والے ستر پچھتر برس سے قانون کی بے بسی دیکھ رہے ہیں، مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ کدو پیدا کرنے والے ملک میں جب کدو چھ سو روپے کلو بکتے ہوں اس ملک میں قانون کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کیا لکھنے یا کیا نہ لکھنے سے اجتناب کرکے چین کی بانسری بجاکر زندگی گزار سکتے ہیں۔ آپ حکومت وقت کی ثنا میں تعریفوں کے اٹوٹ پل باندھ لیتے ہیں۔ اچانک حکومت وقت کے رخصت ہونے کے فوراً بعد آپ کو ملک سے غداری کے الزام میں پکڑ لیا جاتا ہے۔ پکڑ کر آپ کو غائب کردیا جاتا ہے۔ آپ کو اس طرح گم کردیا جاتا ہے کہ اگر موت کا فرشتہ آپ کی تلاش میں تشریف لے آئے، اس کو بھی ناکام دنیا سے لوٹ جانا پڑتا ہے۔ آپ اسکو نہیں ملتے۔بات کچھ اس طرح کی ہے کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے دنیا کے نقشہ پر کہیں بھی پاکستان کا نام و نشان نہیں تھا۔ پاکستان کسی جابر ملک کے قبضہ قدرت میں بھی نہیں تھا۔ پاکستان کسی ملک کی کالونی نہیں تھا۔ کسی طاقتور ملک کا غلام نہیں تھا۔ اگست انیس سو سینتالیس میں پاکستان نے کسی طاقتور ملک سے آزادی نہیں پائی تھی۔ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے روز پاکستان نے دنیا کے نقشہ پر جنم لیا تھا۔ اگست چودہ پاکستان کا یوم پیدائش ہے۔ نہ کہ اس روز کسی ملک کی غلامی سے پاکستان آزاد ہوا تھا۔ ہم یوم پیدائش کی بجائے یوم آزادی کیوں مناتے ہیں؟ کس کی قید میں تھے ہم؟

تازہ ترین