پچھلے چند سال میں جو کچھ پاکستان میں وقوع پذیر ہوا، لگتا اس سے یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ون پارٹی سسٹم نافذ کرنے کا کوئی ارادہ موجود تھا۔ پاکستان پہ ہر قسم کے تجربے اگرچہ ہو چکے ہیں لیکن ابھی صدارتی نظام اور ون پارٹی سسٹم کی گنجائش باقی ہے۔ون پارٹی سسٹم کیا ہے؟ ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت کرتی رہے۔ باقی جماعتیں اگر موجود بھی ہوں تو نیم مردہ حالت میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین میں یہ سسٹم کامیاب ہوا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور چین میں بہت فرق ہے۔ پاکستان کے برعکس چین الیکشن کے نتیجے میں معرض وجود میں نہیں آیا۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان آزاد پریس بالخصوص ٹی وی چینلز کا ذائقہ چکھ چکا ہے جو چین میں شجرِ ممنوعہ ہے۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی طرف سے ون پارٹی سسٹم نافذ کرنے کی کوشش بھی آخر بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی۔ ون پارٹی سسٹم اس ملک میں کامیاب ہو سکتا ہے، جہاں خلقِ خدا میں مکمل ڈسپلن پر چلنے کا نہایت مضبوط رجحان پایا جاتا ہو۔ جو معاشرے آزادی کا ذائقہ چکھ چکے ہوں، ان میں ارتقا کا پہیہ الٹا نہیں چلایا جا سکتا۔ ایجادات کا مزہ لینے والا انسان اب واپس درختوں اور غاروں میں نہیں جا سکتا۔
شیخ حسینہ اور پرویز مشرف کے انجام سے ملنے والا سبق یہ ہے کہ معاشی ترقی وہ واحد کنجی نہیں، جس سے معاشرہ مستحکم ہو اور ایک مضبوط حکومت قائم رہ سکے۔ عوامی امنگیں اگر ملحوظ نہ رکھی جائیں۔ ایک بڑی تعداد میں مخلوق کو اگر آپ مشتعل کر دیتے ہیں تو آپ کی معیشت کسی روز منہ کے بل آرہے گی۔ کسی گھر میں بھی صرف اخراجات کا پورا ہو جانا کافی نہیں ہوتا۔ باہمی رویے اگر ٹھیک نہ ہوں تو بڑے سے بڑے مالدار جوڑے بھی بالآخر طلاق تک جا پہنچتے ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ جس طرح ہجوم بنگلہ دیش میں فیصلے کر رہے ہیں، معاشی ترقی کی شرح شاید کم ہوتی چلی جائے۔ اس کے باوجود ذمہ دار شیخ حسینہ ہی ہیں، جن کے پیدا کردہ سیاسی حبس سے طوفان آ کر رہا۔ تو اس ملک میں مارشل لاؤں کا تجربہ ناکام رہا۔ اگر یہ ناکام مارشل لا کے تجربات ہماری یادداشت میں محفوظ نہ ہوتے تو ملک میں شاید اس وقت تک ایک اور مارشل لا نافذ ہو چکا ہوتا۔ اس کے علاوہ فوجی نرسری میں اُگانے والے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے تجربات بھی تلخ ثابت ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی حکمران کو چلتا کیا۔ ملک ٹوٹ گیا۔ جس سیاستدان کو اسٹیبلشمنٹ نے محض ایک خوشامدی معاون کردار ادا کرنے کا سوچا تھا، وہ اپنی طاقت سے وزیرِ اعظم بن گیا۔ اسے پھانسی دینے کا تجربہ بھی ناکام ہوا کہ دو بار اس کی بیٹی اقتدار میں آئی۔ میاں محمد نواز شریف والا تجربہ بھی ناکام رہا۔ 2007ء کی دہائی میں وقتی طور پر وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گئے۔ بعد ازاں حکومت سے نکالے جانے پر بھی جنرل قمر باجوہ کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔
عمران خان کے ساتھ جس طرح طاقتوروں نے معاملات چلائے، وہ بھی گلے پڑ گئے۔ اس وقت ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ طاقتور سوشل میڈیا سے نالاں ہیں لیکن فائر وال کے نفاذ سمیت اسے بند یا ٹھنڈا رکھنے کی کوششیں بھی بار آور نہ ہو سکیں۔ معاشی بد حالی میں ملک ڈوب رہا ہے۔ ڈالر اور تیل کی قیمتیں آسمانوں میں ہیں۔ بجلی کے بل ادا نہ کر سکنے کے سبب مخلوق خود کشیاں کر رہی ہے۔ طاقتور کبھی خواب دیکھتے ہیں کہ زراعت سے ترقی لائی جائے، کبھی معدنی ذخائر کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک میوزیکل چیئر کا کھیل چل رہا ہے۔ جو سیاسی لیڈر اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں، انہیں تخت پہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ مخالفت کرنے والے جیل جاتے ہیں۔ جب آپ ایک دفعہ طاقت کا مزہ چکھ لیتے ہیں تو پھر اس سے دستبردار ہونا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کسی شخص سے بڑی لگژری گاڑی چھین کر اسے موٹر سائیکل پہ بٹھا دیا جائے۔ تجربات کا نتیجہ مگر یہ بھی ہے کہ مارشل لا لگے گا تو سیاسی قوتیں متحد ہو کر اسے اکھاڑ پھینکیں گی۔
طاقتور طبقات مگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہنوز اس ملک میں کئی تجربات کی گنجائش باقی ہے۔ تجربے کرنے والوں کو البتہ یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ شمالی کوریا، چین اور پاکستان میں بہت فرق ہے۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا: زندگی دنیا کا سب سے مشکل امتحان ہے۔ کئی لوگ دوسروں کے پرچوں سے نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہر شخص کا سوالیہ پرچہ مختلف ہے۔ چین یا شمالی کوریا کا چہرہ اگر سرخ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے منہ پر چپیڑیں مارنا شروع کر دیں۔