• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکِ عزیز ،جسے بہت سے ہم وطن طنزاََ مسائلستان بھی کہتے ہیں، اس کے مسائل میں کئی ہفتوں سے ایک اور بہت اہم مسئلے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دیگر مسائل کی طرح بلاشبہ اس نئے مسئلے نے بھی زندگی کے ہر شعبے کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ نیا مسئلہ انٹرنیٹ کی بندش اور سُست روی کا ہے۔

اس ضمن میں طرح طرح کے خدشات اور سازشی نظریات سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دھڑا دھڑ بانٹے جاتے رہے، لیکن حکومت اور متعلقہ سرکاری حکّام نے اس ضمن میں جو مبہم رویّہ اختیار کیے رکھا اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

فائر وال یا ویب مینجمنٹ سسٹم؟

بعد از خرابیِ بسیار بالآخر اکّیس اگست کو چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کے اجلاس میں اعتراف کیا کہ حکومت اور عدلیہ کی ہدایات پر انٹرنیٹ فائر وال سسٹم نصب کیا گیا ہے اور انٹرنیٹ کی سُست رفتار کا مسئلہ 27؍ اگست تک حل ہوجائے گا۔ کمیٹی نے اجلاس میں پی ٹی سی ایل اور ایس سی او حکام کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اگلا اجلاس جواب کے ساتھ طلب کیا ہے۔ 

کمیٹی نےملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش سے آئی ٹی سیکٹر کوہونے والے نقصانات کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔ رکن کمیٹی بیرسٹر گوہر نے اجلاس میں استفسار کیا کہ کیا وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے ۔ جس پر چیئرمین پی ٹی اے لاعلم نکلے اورانہوں نے جواب دینے کے لیے متعلقہ افسر کو بلالیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کا اجلاس بدھ کو رکن قومی اسمبلی سید امین الحق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ 

کمیٹی نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن لمیٹڈ کے سی ای او اور ڈائریکٹر جنرل اسپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے اجلاس میں دونوں شعبوں کے سربراہان کی عدم شرکت کا سخت نوٹس لیا اور کمیٹی کی کارروائی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ تحریری طور پر پیش کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی نے ملک میں واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا ایپس کے لیے انٹرنیٹ کے کم زور سگنلز کے مسئلے پر بھی توجہ دی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ یہ مسئلہ حالیہ دنوں میں سب میرین کیبلز میں سے ایک کے خراب ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ 

انہوں نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ مرمت کا کام جاری ہے اور توقع ہے کہ یہ مسئلہ 27اگست تک حل ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے فری لانسرز اور نجی کمپنیوں کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔

اسی روز قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے نے فائر وال کی تنصیب کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لفظ کہیں نہیں، پاکستان میں ویب مینجمنٹ سسٹم ہے اور انٹرنیٹ سب میرین کیبل میں خرابی کی وجہ سے متاثر ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فائروال گرےٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے ہے ۔ فائروال کا لفظ کہیں نہیں ہے۔

یہ آپ نے خود بنایا ہواہے۔ کس نے کہا ہے کہ یہ فائر وال ہے،یہ تو ویب مینجمنٹ سسٹم ہے۔ اس سسٹم کا صرف سوشل میڈیا سے تعلق نہیں ہے، فائر وال سے پروپیگنڈا کیسےختم کرسکتےہیں؟ یہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ججز، وزیر اعظم کے خلاف میمز چل رہی ہیں، اگر ایسے مینج ہوتا تو ہم بند نہ کردیتے۔

اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں ملک میں انٹرنیٹ سروسز متاثر ہونے اور سوشل میڈیا سروس میں خلل پڑنے پر چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وی پی این کے استعمال سے مقامی انٹرنیٹ ڈاؤن ہوا،2006 میں ویب مینجمنٹ سسٹم موجود تھا۔ مارچ2019میں فائر وال کا نظام منظورہواتھا اور 2019 میں اس سسٹم کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی۔ 

اس سسٹم کو کہیں فائروال یا کوئی اور نام دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے ویب مینجمنٹ سسٹم کہتے ہیں۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر، عمر ایوب نے سوال کیا کہ ویب مینجمنٹ سسٹم یا فائر وال سسٹم ، سوشل میڈیا اکاونٹس اور مواد کو متاثر کرتا ہے تو آپ تو بلاک کردیں گے، مگر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا انٹیلی جینس ایجنسی کے پاس یہ قابلیت ہے کہ وہ خود مداخلت کرکے چیزوں کو بلاک کردے؟ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ یہ سسٹم آپ کے دور حکومت میں ہی لایا گیا تھا۔

اجلاس میں سید امین الحق نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ انٹرنیٹ سروسز کیوں متاثر ہیں؟ فائروال لگا ہے یا نہیں ؟ میڈیا کو پی ٹی اے آگاہی دے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جاتا رہے۔ چیئرمین پی ٹی اے نے اجلاس کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے حکم دیاہے کہ فائر وال لگائی جائے، پی ٹی اے اس حکم پر عمل کررہا ہے، یہ معلوم نہیں کہ فائروال کی وجہ سے سسٹم سست ہوا۔

فائروال کی اپ گریڈیشن پہلی بار نہیں ہورہی، مگر فائروال سے متعلق مکمل وضاحت وفاقی حکومت دے سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وی پی این ہم بند ہی نہیں کرسکتے، یہ خبر غلط ہے کہ وی پی این بند ہورہا ہے۔ بعد ازاں کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیکریٹری آئی ٹی سے فائروال پرتیکنیکی بریفنگ طلب کرلی تھی۔

اس سے قبل سترہ اگست کو وزیر مملکت برائے آئی ٹی، شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ حکومت سسٹم کو اپڈیٹ کر رہی ہے۔ پوری دنیا میں حکومتیں سائبر سکیورٹی کے لیے فائر وال انسٹال کرتی ہیں۔ فائر وال سے پہلے ہمارے پاس ویب منیجمنٹ سسٹم تھا۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ سائبر سکیورٹی کے حملوں سے بچنےکے لیے فائر وال انسٹال کی جاتی ہے۔ جلد آگاہ کریں گے کہ اب تک کتنے سائبر حملے ہو چکے ہیں۔

اسی اثنا میں ٹیلی کام کے شعبے کے ذرائع سے یہ خبر آچکی تھی کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں پر فائر وال انسٹال کردی گئی ہے اور سوشل میڈیا سروسز دو سے تین روز میں معمول پر آجائیں گی۔

ذرائع کا بتانا تھا کہ ملک میں انٹرنیٹ فائر وال کی تنصیب کا دوسرا آزمائشی مرحلہ کام یابی کے ساتھ مکمل کرلیا گیا ہے اور فائر وال سے موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ سروس کو بھی ڈاؤن کیا گیا تھا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ قومی سلامتی کے پیش نظر فائر وال کی تنصیب کی جارہی ہے اوریہ ڈیپ پیکٹ انسپیکشن کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔

خبر تو بہت پہلے سے گرم تھی

پاکستان میں جون 2024 میں ہی انٹرنیٹ کی نگرانی کے لیے فائر وال نصب کرنے کی خبریں سامنے آچکی تھی۔ گیارہ جون کو یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے فائر وال کی تنصیب کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا تھاکہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیز سے فائر وال تنصیب کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کردیا ہے۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ ذرائع نے بتایا ہے کہ فائر وال خصوصی فیچر ،ڈیپ پیکٹ انسپیکشن کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔ ڈیپ پیکٹ انسپیکشن سے ڈیٹا کی لیئر7تک دیکھا جاسکے گا اور سوشل میڈیا کےڈیٹا کو فلٹر کیا جاسکے گا۔ فائر وال ایپلی کیشن کے بجائے آئی پی لیول پر ڈیٹا بلاک کرسکے گی۔

فائر وال سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا پوائنٹس کی نشان دہی کرسکے گی اور آئی ڈیزکو بلاک کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوگی۔فائر وال کی تنصیب کی کچھ قیمت حکومت ادا کرے گی اور باقی قیمت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیز ادا کریں گی۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیزغیر قانونی مواد روکنے اور لائسنس کی شق کے مطابق غیر قانونی مواد کی روک تھام کے لیے اقدامات کی پابند ہیں۔ تاہم فائر وال کی تنصیب پی ٹی اے کا دائرہ اختیار ہے۔

اگرچہ مذکورہ وزیر اور چیئرمین پی ٹی اے نے مبہم انداز میں بہت بعد میں فائر وال کی تنصیب کی تصدیق کی لیکن گزشتہ ماہ کی پچّیس تاریخ کو روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ فائر وال کو تجرباتی بنیادوں پر چلائے جانے سے ملک میں سوشل میڈیا کی رفتار کم ہوگئی ہے اور یہ بات اس صورت حال سے آگاہ باخبر حکام نے بتائی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ پر مبنی کاروبار کے مستقبل کے حوالے سے خوف پیدا ہوگیا ہے۔

خبر میں کہا گیا تھاکہ حکام کا کہنا ہے کہ ٹرائل ختم ہونے کے بعد انٹرنیٹ ٹریفک اور رفتار معمول پر آجائے گی، حکومت نے یہ فلٹرنگ سسٹم حاصل اور اسے نصب کرنےکے لیے ترقیاتی بجٹ میں 30 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی ہے۔ ایک عہدے دار کا کہنا تھا کہ فائر وال پر کام رواں سال جنوری سے جاری ہے جس میں سسٹم کی خریداری اور اسے نصب کیے جانے کے امور شامل ہیں۔ 

اب یہ سسٹم نصب ہوچکا ہے اور اسے شروع کیا جا رہا ہے اور متعلقہ حکام کو اس سسٹم کا کنٹرول دینے میں کچھ ہفتے لگیں گے۔ جب اس عہدےدار سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اس فائر وال کی وجہ سے انٹرنیٹ سے منسلک کاروبار متاثر ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کا خطرہ ہوسکتا ہے، لیکن اس سسٹم کا ہدف کاروبار یا تجارتی سرگرمیاں نہیں ہیں۔

ایک اور عہدے دار کا کہنا تھا کہ اس سسٹم کا مقصد سوشل میڈیا کے ایسے انفلوئنسرز کو کنٹرول کرنا ہے جو حکومت کی نظر میں جعلی خبریں پھیلانے میں ملوث ہیں۔ فائر وال کا مقصد ان انفلوئنسرز کے مواد کو چھپانا یا اسے بلاک کرنا ہے۔

خبر میں بتایا گیا تھا کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ 2016 کے ذریعے پہلے ہی یہ اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس قانون کے تحت پکڑے جانے والے افراد کے مقدمات چلانے کے لیے عدالتیں بھی قائم کی جا رہی ہیں۔ اب جب یہ فائر وال آزمائشی مراحل میں ہے، دو ہفتے قبل پی ٹی اےکے ایک اشتہار کے ذریعے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ جیسے یہ کام ہونے والا ہے اور اس کی کاغذی کارروائی اب شروع کی جا رہی ہے۔ 11 جولائی کو ایک اشتہارکے ذریعے’’نیکسٹ جنریشن فائر والز ‘‘ (سابق چینی برانڈ - LOT A) کی فراہمی، تنصیب اور ترتیب کے لیے ٹینڈرز طلب کیے گئے تھےجس میں کہا گیا تھا کہ ویب ایپلی کیشن فائر وال (WAF) LOT Bپانچ سال کے لیے ہارڈویئر وارنٹی نیکسٹ بزنس ڈے (NBD) اور سپورٹ (سال کے تمام دن اور دن کے ہر گھنٹے)، ٹینڈر جمع کرانے کی آخری تاریخ 26 جولائی ہے۔تاہم پی ٹی اے کے ترجمان کا کہنا تھاکہ یہ ایک علیحدہ فائر وال ہے۔ 

اس میں باعث حیرت بات یہ ہے کہ ایک سے زائد فلٹرز کے لیے آخر کتنے فنڈز مختص کیے گئے ہیں، کیوں کہ مذکورہ بالا سامان کی خریداری کے لیے30 ارب روپے سے زائد کا بجٹ مختص کیا گیا تھا۔

خبر کے مطابق حکّام کا کہنا تھا کہ ٹینڈر کا مقصد فائر والز کا حصول ہے جو پی ٹی اے کے اندرونی آئی ٹی انفرااسٹرکچر کے واحد استعمال کے لیےہے۔ خریداری کا مقصد پی ٹی اے کے اندرونی نظام کی حفاظت بڑھانا ہے اور اسے خصوصی طور پر پی ٹی اے کے بنیادی ڈیٹا سینٹر اور اس کی ڈیزاسٹر ریکوری سائٹ پر استعمال کیا جائے گا۔

یادرہے کہ پی ٹی اے نے چار نیکسٹ جنریشن فائر والز اور دو ویب ایپلی کیشن فائر والز کے حصول کے لیے یہ ٹینڈر جاری کیا تھا۔

معاملے کی شدّت

عام آدمی کے لیے بہ ظاہر یہ معاملہ انٹرنیٹ کی بندش یا سست روی کاہے،لیکن اس سے بنیادی انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار متاثر ہونےکے ساتھ ملک کی اقتصادیات اور بہت سے لوگوں کی معاشیات پر بھی گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ چناں چہ یہ معاملہ اعلی عدالتوں تک بھی پہنچا۔

جہاں اس معاملے میں کارروائی جاری ہے۔بتایا جارہا ہے کہ تھری اور فور جی سروسز کی بندش سے 1.3 ارب روپے یومیہ کا نقصان ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی بندش اور فائر وال کی تنصیب سے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہوئی ہے جس سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرو وائیڈرز ایسوسی ایشن کا کہناہے کہ اگر انٹرنیٹ پر بندش برقرار رہی تو اس کے ناقابل تلافی سنگین اقتصادی نتائج برآمد ہوں گے۔ پندرہ اگست کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بندش کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ دو ہفتوں میں انٹرنیٹ سے جڑے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔ یہ ہدایات کمیٹی کے ارکان کی جانب سے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے متاثر ہونے کا معاملہ اٹھائے جانے کے بعد سامنے آئی تھیں۔

ادہر پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) نےایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ فائر وال سے ہونے والی انٹرنیٹ کی سستی سے پاکستانی معیشت کو 30 کروڑ ڈالر تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ پاشا کے سینیئر وائس چیئرمین، علی احسان کا کہناتھاکہ فائر وال پہلے ہی سے انٹرنیٹ میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی بندشوں کا باعث بن چکی ہے اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی غیر یقینی کارکردگی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ ہے۔

اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام پیش ہوئے تھے۔ کمیٹی کےارکان نے آئی ٹی انفرا اسٹرکچر پر منحصر کاروبار (ڈیجیٹل معیشت) خاص طور پر’’ای کامرس‘‘سے منسلک اداروں کے جاری نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے انٹرنیٹ پر بندش کی مذمت کی تھی۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکم راں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہاتھا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث یومیہ کم از کم 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور بہت سے ’’ای کامرس‘‘سے منسلک عالمی کاروباری اداروں نے پاکستان سے کاروباری روابط بھی ختم کر دیے ہیں۔

سینیٹر افنان نے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنےسے متعلق عوام کی شکایات کا بھی ذکر کیا اور کہاتھا کہ اس سے کاروباری طبقات کے علاوہ عام صارفین بھی یک ساں طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا تھاکہ اگر قومی فیصلہ ساز نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکتے تو انہیں حاصل آن لائن خدمات فروخت کرنے کی سہولت واپس نہ لی جائے۔

اجلاس میں اٹھائے گئے خدشات کا جواب دیتے ہوئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نمائندگی کرنے والی سیکریٹری عائشہ حمیرا چوہدری نے کہاتھا کہ موبائل آپریٹرز کی سروسز انٹرنیٹ کی سست روی سے متاثر ہوئی ہیں اور اس کی وجہ ممکنہ طور پرتیکنیکی مسئلہ ہے۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کے اراکین کو یقین دلایاتھا کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل کر لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی سست روی سےموبائل فون کےصارفین کو مسئلہ ہے، لیکن براڈ بینڈ کےصارفین اس سے متاثر نہیں ہیں۔ اس موقعے پر حیران کن بات یہ سامنے آئی تھی کہ پاکستان ٹیلی کمیوننی کیشن اتھارٹی کےحکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایاتھا کہ ملک کے کسی بھی حصے سے انٹرنیٹ سروس کے بارے میں انہیں کسی بھی قسم کی شکایت موصول نہیں ہوئی ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت اورپاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے نمائندوں نے تو انٹرنیٹ پر پابندی کی تردید کردی تھی، لیکن اس سے قبل ہی وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ڈبلیو آئی ایس پی اے پی) نےایک بیان میں انٹرنیٹ کی سست روی کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیا اور اس کی بھرپور مذمت کی تھی۔

مذکورہ تنظیم نے اس مسئلے کا ذمہ دار اُس حکومتی پالیسی کو قرار دیاتھا جس کا تعلق سکیورٹی اور نگرانی میں اضافے سے ہے۔ تنظیم کی جانب سے کہا گیا تھاکہ اگر یہ حکمت عملی برقرار رہی تواس کے ناقابل تلافی اقتصادی نتائج برآمد ہوں گے۔ جاری کردہ بیان میں ڈبلیو آئی ایس پی اے پی کے چیئرمین شہزاد ارشد نے انکشاف کیا تھاکہ انٹرنیٹ کی رفتار تیس تا چالیس فی صد کم کر دی گئی ہے، جس سے آن لائن کاروباری اداروں اور آن لائن روزگار کرنے والے افراد متاثر ہو رہے ہیں اور اگر قابل اعتماد انٹرنیٹ رابطے فوری بحال نہ کیے گئے تو ڈیجیٹل معیشت کو مزیدمالی نقصانات ہوں گے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے یہ مسئلہ ایسے وقت میں اٹھایا گیا تھاجب ملک بھر میں لاکھوں افراد کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود کر دی گئی تھی اور انہیں عمومی رابطےیا سوشل میڈیا کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا۔ تادمِ تحریراس مسئلے سے خاص طور پر پاکستان کے طول و عرض میں ایسے دیہی و شہری علاقوں کے صارفین زیادہ متاثر ہیں، جو موبائل فونز کے ذریعے انٹرنیٹ (ڈیٹا کنکشن) استعمال کرتے ہیں۔

اب انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)انڈسٹری سے وابستہ فری لانسرزنےبھی حکومت سے انٹرنیٹ کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کردیاہےاور کہاہے کہ ہمارا 50 لاکھ ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فری لانسر، ثاقب اظہر کا کہنا تھا کہ 18 لاکھ لوگ ای کاروبار سے وابستہ ہیں،حکومت انٹرنیٹ سے متعلق مسائل حل کرے ۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے وابستہ لوگوں کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔

گردش کرتی خبریں

کئی ہفتوں سے ذرایع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی کا تعلق درحقیقت سیاسی مخالفین کو دبانے اور سوشل میڈیا کو لگام دینے کے لیے ہے، جسے انٹرنیٹ فائر وال کی مبینہ ٹیسٹنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔ پاکستان بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی میں رکاوٹ کی مذمت کرنے والے وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے بھی اسے غیرضروری سکیورٹی اور لامحدود نگرانی میں اضافہ قرار دیتے ہوئے اس کے سنگین معاشی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

اسی اثنا میں پندرہ اگست کو لاہور ہائی کورٹ میں انٹرنیٹ کی بندش کوچیلنج کر دیا گیا تھا۔ عدالت عالیہ سے رجوع کرنے والے درخواست گزارکا کہنا تھا کہ پاکستان میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر انٹرنیٹ سست کر دیا گیا ہے اور انٹرنیٹ کی بندش سے آن لائن (آئی ٹی) کاروبار کرنے والے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف دنیا جدید ترین ٹیکنالوجیز پر انحصار کر رہی ہے اور تیز ترین انٹرنیٹ ایجاد ہو رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی گئی ہے، جس سے ڈیجیٹل معیشت کے شعبے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

شکیل احمد نامی درخواست گزار نےعدالت سے استدعا کی تھی کہ سوشل میڈیا وسائل پر بندش اور انٹرنیٹ کی سست روی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ اس بارے میں جب وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) شزا فاطمہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے سست ہونے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں اور حکومت جانتی ہے کہ ڈیجیٹل اکانومی اور ڈیجیٹل گورنمنٹ کا انحصار انٹرنیٹ کی اچھی رفتار پر ہوتا ہے۔پی ٹی اے سے دو ہفتوں کا ڈیٹا طلب کیا گیا ہے۔ ڈیٹا ٹریفک کو دیکھ کر انٹرنیٹ ا سپیڈ کے بارے میں علم ہو گا کہ یہ کس قدر کم ہوئی ہے۔

فائر وال کا تعلق سائبر سکیورٹی سے ہے اور صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھرمیں تمام ممالک میں فائر وال استعمال کی جا رہی ہے۔ بہ قول شزا فاطمہ فائر وال سے پہلے ویب مینیجمنٹ سسٹم تھا۔ حکومت اس پرانے سسٹم کو اپ ڈیٹ کر رہی ہے تاکہ مستقبل قریب میں زیادہ سنگین نوعیت کے سائبر سکیورٹی حملوں سے بچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فائروال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پر جس قدر سائبر حملے ہوئے ہیں ان کے بارے میں اعداد و شمار جلد جاری کیے جائیں گے۔