اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اپنے قیام کے ابتدائی دور 2002ء سے 2008ء میں وہ شاندار ترقّی کی کہ ملکی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے میدان کی کایا ہی پلٹ دی تھی ۔ افسوس کہ یہ ادارہ آج اپنی بقا کیلئے سسک رہا ہے۔موجودہ حکومت نے 18 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں سے اعلیٰ تعلیم کیلئے صرف 4 ارب روپے جاری کئے ہیں جس کی وجہ سے جامعات فنڈز کی شدید قلّت کا شکار ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعلیم کو فروغ دینے کا دعویٰ اب تک عملی جامہ نہیں پہن سکا اور ہم اپنے GDP کا صرف 1.9% تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں ان حالات میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں رونما ہونے والی تباہی کے نظارے پوری طرح سے عیاں ہیں کیونکہ صوبہ سندھ کی حکومت نے سپریم کورٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سندھ ایچ ای سی بنالی۔ سپریم کورٹ نے 2011ء میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایچ ای سی کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا یہ وفاق کا حصّہ ہے اور آئین کی اٹھارہویں ترمیم میں اس کے حقوق پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ یہ فیصلہ میری پٹیشن دائر کرنے پر سنایا گیا تھا ۔سندھ صوبائی ایچ ای سی کے قیام کے بعد اور اسی کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے صوبے بھی الگ صوبائی ایچ ای سی قائم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ حکومتِ سندھ نے تو پہلے ہی صوبائی ایچ ای سی قائم کرنے کیلئے قانون جاری کر دیا ہے اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کی توہین اور کھلی مخالفت کی ہے ، خیبر پختونخوا حکومت اور حتی ٰ کہ پنجاب حکومت بھی اپنی صوبائی ایچ ای سی قائم کرنے کی تیاری میں ہے۔ ان کے اس قدم سے قومی سالمیت ، ہم آہنگی اور قومی ترقیاتی منصوبوں کو سخت نقصان ہو گا لیکن افسوس پاکستان کی کس کو پروا ہے یہاں نفسانفسی کا عالم ہے۔
پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیم وفاق ہی کا حصّہ ہوتا ہے چاہے وہ بھارت ہو یا کوریا، ترکی یا چین ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ملک ہو جیساکہ برطانیہ ہے ، وہ اس لئے کہ اعلیٰ تعلیم کا براہِ راست گہرا تعلق ملکی سماجی و اقتصادی ترقیاتی منصوبوں سے منسلک ہوتا ہے۔ اگر پاکستان میں علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy) قائم کرنی ہے تو ہمیں اپنی جامعات کو مضبوط بنانا ہوگا اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کیلئے اپنی افرادی قوت کو تیار کرنا ہوگا ۔یہ ایچ ای سی کی قومی سطح پر منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد سے ہی ہو سکتاہے۔ چاروں صوبائی سطح پر جداگانہ طریقے سے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس طرح سخت بدنظمی ہوگی اور انتشار پھیلے گا۔ اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر تعلیم پہلے ہی ابتر حالت میں ہے بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں کیونکہ صوبے اس کو نہیں سنبھال پائے۔ بورڈوں کی کثرت نے غیر معیاری امتحانوں کو جنم دیا ہے اور اس طرح امتیازی نمبروں سے بھی پاس ہونے والے ثانوی و اعلیٰ ثانوی سطح کے طلبہ میں علمی صلاحیتوں کا بہت فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ صوبے پہلے ہی ابتدائی، ثانوی اعلیٰ ثانوی اور تکنیکی تعلیمی نظام سنبھالنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ اب ان کی یہ خواہش کہ اعلیٰ تعلیمی شعبہ کو بھی ان کے زیرِ اختیار لا کر تباہ کر دیا جائے۔ یہ جامعات کی تباہی کے مترادف ہوگا اور گزشتہ دہائی میں جامعات نے جو مقام حاصل کیا ہے وہ بھی سب برباد ہو جائے گا اور ان نااہل اور بدعنوان صوبائی حکومتوں کے زیرِانتظام جامعات کے نظام کی جڑوں میں بھی بدعنوانی اور انتشار بھرجائے گا۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت پنجاب کے بجائے پورے پاکستان کا سوچے گی اور صوبوں کے اس قدم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو گی تاکہ ملک کو اس سے ہونے والے شدید نقصان سے محفوظ کیا جاسکے۔بدقسمتی سے گزشتہ حکومت نے اپنے دورِحکومت میں ایچ ای سی کو تباہ کرنے کی حتی الامکان کوششیں کیں۔ جعلی ڈگریوں کے حامل 200 پارلیمانی اراکین نے جن میں وفاقی وزیر برائے تعلیم و تربیت وقاص اکرم بھی شامل تھے اپنے بھرپور اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایچ ای سی کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانے کی کوششیں کیں۔ اگر میری ایچ ای سی بچائو مہم کو ,PTI,PML(Q),PML(N) MQM اور پاکستان سپریم کورٹ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو آج ایچ ای سی ختم ہو گیا ہوتا۔
گزشتہ چھ سال میں ایچ ای سی نے بہت کڑا وقت دیکھا ہے۔ میں نے اکتوبر 2008ء میں احتجاجاً چئیرمین ایچ ای سی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ PPPحکومت نے بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجے گئے طلبہ کا وظیفہ اچانک بند کر دیا تھا۔بیگم شہناز وزیر علی اور ڈاکٹر جاوید لغاری نے ایچ ای سی کو سنبھالنے کی کافی کوششیں کیں مگر اس ادارے کو فنڈز اور اختیارات کی کمی سے لگے شدید دھچکے سے باہر نہ نکال سکے پھر ڈاکٹر سہیل نقوی جو کہ ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے اور اس کے نظام کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے ان کے جبری استعفیٰ کاسانحہ پیش آیا۔ اوپر سے ستم یہ کہ ایچ ای سی ملازمین گروپوں کے آپس میں جھگڑوں نے بھی اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس ادارے کو بغیر رکاوٹ چلانے کے لئے اس میں موجود نکمّے لوگوں کو نکالنا ہوگا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اس ادارے کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مقصد کو عمدگی سے پورا کرے۔میں امید کرتا ہوں کہ میاں شہباز شریف یہ چیمپئن بن سکیں گے۔ اس شعبے کو تنزّلی کی گہرائیوں سے وہ نکال سکتے ہیں۔ ایک اہم عمل یہ ہے کہ’چانسلروں کی کمیٹی‘ "Chancellors Committee" کی بحالی ہو جس کی صدارت صدرِ پاکستان کرتے ہیں اور اس کے اراکین میں وزیراعظم ، چاروں گورنر، چاروں وزیرِاعلیٰ، وزیر خزانہ اور ڈپٹی چئیرمین برائے پلاننگ کمیشن شامل ہیں۔ یہ کمیٹی صدر پرویز مشرف کے دور میں باقاعدگی سے ملتی تھی اور اعلیٰ سطح پر اہم فیصلے لئے جاتے تھے جن کی بجا آوری میں افسر شاہی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرا اہم قدم یہ بھی لیا جانا ہوگا کہ Departmental Development Working Party (DDWP) کی سطح پر ایچ ای سی کو پھر سے 100کروڑ روپے تک کے پروجیکٹ منظور کرنے کے اختیارات دیئے جائیں ۔2003ء سے2008 ء کے دوران ایچ ای سی میںDDWP کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے تھے لیکن گزشتہ چھ سالوں سے یہ اجلاس نہیں ہوئے کیونکہ پچھلی حکومت ایچ ای سی کو برباد کرناچاہتی تھی۔
پہلے چھ سال کے عرصے میں نہایت شاندار ترقی کے بعد آج اعلیٰ تعلیمی کمیشن ایک تباہی کے دوراہے پر کھڑا ہے ۔اِس تیز ترین ترقی کی بدولت بین الاقوامی تحقیقاتی اشاعت کا شمار 2001ء کی 700 اشاعت سے بڑھ کر 2013ء میں9000 بین الاقوامی تحقیقاتی اشاعت تک پہنچ گیا تھا اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کی تعداد بھی اسی تناسب سے بڑھی تھی لیکن جس ظالمانہ انداز سے اس شعبے کو زخمی کیا گیا یہ گاہے بگاہے ختم ہورہاہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس کے پورے نظام پر نظرثانی کی جائے۔ ایک اہم قدم یہ ہے کہ اس ادارے کا سربراہ بین الاقوامی نامور اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کا مالک ہو جیسا کہ ایچ ای سی کے آرڈیننس میں بھی درج ہے۔ یہ قدم قانونی طور پر بھی پورا ہونا لازمی ہے لیکن صرف اچھے چیئرمین کی تقرری ہی کافی نہیں ہو گی کیونکہ نااتفاقی کا جو بیج PPP حکومت نے ایچ ای سی کے ملازمین میں بویا ہے اسے بھی موجودہ حکومت کی مکمل حمایت اور مدد سے بہت جرأت مندانہ انداز سے پاک کرنا ہوگا۔
320 صفحاتی علم پر مبنی معیشت قائم کرنے کاایک قومی منصوبے کا مسوّدہ (Technology Based Industrial Vision and Strategy for Socio-Economic Development )جو میری قیادت میں تیار کیا گیا تھا اسے 30 اگست 2007ء کو کابینہ نے منظور کیا۔ اس میں بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیاہے کہ پاکستان اپنے مختلف شعبوں کو کس طرح علم پر مبنی معیشت میں منتقل کر سکتا ہے اور غربت کے بھنور سے نکل سکتا ہے۔اس مسوّدے کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کیلئے ایک بین الوزارتی کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن اس مد میں اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔اس مسوّدے کے مطابق ایچ ای سی کو ایک کلیدی ادارے کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ علمی معیشت کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ علمی تربیت یافتہ لوگ مختلف اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں تاکہ پاکستان اعلیٰ تکنیکی مصنوعات جن میں الیکٹرانکس، انجینئرنگ کا سامان اور دوا سازی شامل ہے، تیار کرکے برآمد بھی کر سکے۔
پاکستان میں ایچ ای سی کی غیر معمولی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت نے بھی اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک مرکزی ادارہ ’قومی کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ بھارت کے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جگہ قائم کیا جائے گا اس کی بھارتی کیبنٹ منظوری دے چکی ہے۔ افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت تو پاکستان کے HEC کی نقل کرتے ہوئے اس طرز کا ادارہ قائم کررہا ہے لیکن ہم اس HEC کو تباہ کرکے صوبائی سطح پر چھوٹے چھوٹے ایچ ای سی بنانے کی فکر میں ہیں۔اگر ہم بھوک اور غربت کے بھنور سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور دوسری اقوام کی صف میں باوقار طریقے سے کھڑے ہونا چاہتے ہیں تو پاکستان میں ایچ ای سی کو دوبارہ جلا بخشنے میں مدد کرنی ہوگی۔
کیا موجودہ حکومت اس چیلنج کو قبول کرے گی اور ایچ ای سی کی مالی حمایت کے ساتھ ساتھ اس کی مکمل خود مختاری کی ضمانت دے گی جس کا وعدہ اس نے اپنے منشور میں بھی کیا ہے؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔