ہماری زمین مختلف ماحول میں بنی ہوئی کئی اقسام کی چٹانی ذرّوں کا ایک ٹھوس مجموعہ ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلّق رسوبی ماحول سے ہے، جس سے مراد سطح زمین پر واقع ایک ایسی علاقائی اکائی جس میں موجود خارجی طبعی وکیمیائی اور حیاتیاتی عوامل ایک خاص مدّت تک یکساں رہتے ہوئے اثر انداز ہو ،جس کے نتیجے میں ایک خصوصی رسوب (چٹانی ملنے) سطح زمین پر تشکیل پاسکیں جو نقل و حمل کے توسط سے اپنے حتمی مقام یعنی سمندری طاس میں اوپر تلے جمع ہوکر اور ایک طویل مدّت سے گذرنے کے بعد ٹھوس تہہ دار جسم میں تبدیل ہوجائے۔ یہی ’’رسوبی چٹانیں‘‘ ہوتی ہیں۔
مثلاً ریت کے مُنتشر ذرّوں سے ایک ٹھوس اور پائیدار چٹان ریت پتھر کی تشکیل ہوتی ہے، جس کی شناخت اس میں موجود تہہ اور نامیاتی اجزاء کی موجودگی سے کی جاتی ہے۔ رسوبی چٹانیں قبل از تاریخ زمین پر بے نقاب (Exposed) بھی تھیں اور زمین کے نیچے غیر مرئی (Un-exposed) بھی لیکن بنی نوع انساں ان قدرتی وسیلوں کی اہمیت اور استعمالات سے نا آشنا تھا۔
ان کےتصور میں یہ صرف سنگ ریزوں اور مٹی کے تودوں کے انبار کے سوا کچھ نہیں، البتہ ،ان کے ذہن میں یہ بات ضرور تھی کے ان چٹانی تودوں کو بودوباش کے لئے غار بنانے، شکار کے لئے آوزار بنانے اور دوپتھروں کو آپس میں رگڑ کر آگ حاصل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ضرور تھا۔
چنانچہ 1932ء میں ماہر ارضیات ویڈل نے رسوبی ذخائیر سے تشکیل پانے والی رسوبی چٹان کو رسوبیات (Sedi mentology) سے تعبیر کیا جو بہت ہی ضخیم معنوں میں لیا گیا، جس میں تجربہ گاہوں کے تجربات اور ساتھ ہی میدانی شواہد بھی شامل تھیں جن میں ساخت بافت اور کمپوزیشن کے حوالے سے رسوبی چٹان کے جسم میں موجود ادھاتی (Non-metallic) اوردھاتی (Metallic) ذخائیر کی افادیت کے ساتھ اس کے پہلو کو بھی توجہ حاصل ہوتی ہےکہ یہ زیرِ زمین پانی اور کازی ایندھن (Fossil Fuel) کے حصول کا ایک ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
چناں چہ ایساہی ہوا۔ قدیم انسان نے سب سے پہلے رسوبی چٹانوں سے جو پتھر یا اشیاء حاصل کیا، اسکی نوعیت ادھاتی تھی جس میں ’’کلے‘‘ یعنی چکنی مٹی سرِ فہرست ہے۔ ابتداء میں اسے برتن بنانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد اسے وسیع پیمانے پر پہلے کوزہ گری اور بعد میں اینٹیں بنانے کے لئے بکثرت استعمال کیا جانے لگا اور اس طرح آغاز میں ’’کلے‘‘ ہی بڑے پیمانے پر معدنی صنعت کی بنیاد بنی۔ ایک ایسی صنعت جو زمانے کی ترقی یافتہ تبدیلیوں کے باوجودآج بھی قائم ہے۔
ارتقائے وقت کے ساتھ دیگر رسوبی چٹانوں کی واقفیت اور استعمال سے اس کی قدروقیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ مثلاً چونا پتھر ایک ایسی رسوبی چٹان ثابت ہوئی جسے بڑے پیمانے پر تعمیراتی پتھر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ جدید سیمنٹ کی صنعت میں گارا (Mortar) اور بجری (Conerete) بنانے کے لئے اس کے سفوف کو بنیادی جُز کی حیثیت حاصل ہوتی گئی۔ امریکا اور دوسرے ممالک کے مرطوب علاقوں میں تیزابی تراب کو بے اثر کرنے کے لئے اس کے سفوف کو استعمال کیا جاتا ہے۔
جپسم، فاسفورس اورنائیٹریڈ کو آج کے ترقی یافتہ دور میں کھاد بنانے کے لئے بڑی فوقیت دی جاتی ہے جو رسوبی چٹان سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئلہ، تیل، گیس ،پیٹرولیم اور زمین دوز پانی کا مخزن بھی یہی چٹانیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دھات اور معدنی ذخائیر کسی دوسرے ماحول میں بھی تخلیق پاسکتی ہیں لیکن تیل، گیس اور زیرِ زمین ذخیرہ اندوز پانی صرف اور صرف رسوبی چٹانوں سے ہی دریافت ہوتی ہیں، کیوں کہ اس کی تخلیق اور تکمیل کے لئے چٹانوں میں مسام (Voids) کا ہونا لازمی شرط ہے۔
چوں کہ ان چٹانوں کے گرد ایسی غیر مرئی خوردبینی خلاء یا مسام پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں جو کسی سیال (تیل، گیس، پانی، ہوا) کو اپنے اندر جذب کرنے اور پھر اس کی معاشی نقطۂ نظر سے ترسیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیت کسی اور قسم کی چٹان میں نہیں ہوتی۔
1932ءمیں جب رسوبی چٹانوں کے حاصل کردہ نمونوں کے بعد ان کا خوردبینی مطالعہ کیا گیا تو اس حقیقت سے آگاہی حاصل ہوئی کہ خوردبینی نامیاتی اشیاء اور پانی وافر مقدار میں ان رسوبی چٹانوں کے مسام اور خلاء میں پوری طرح پیوست ہوتے ہیں۔ چناں چہ جدید ارضی علوم کی ایک شاخ ’’اطلاقی ارضیات‘‘ کو جب فروغ حاصل ہوا تو رسوبی ذرّات سے متعلق مزید اہم حقائق حاصل ہوئے،کیوں کہ اس علم کا تعلق خصوصی طور پر رسوبی چٹانوں میں موجود مساموں کی مقدار اور معیار کے اعداد و شمار کے حصول پر ہوتا ہے۔
اسی بنیاد پر بین الاقوامی طور پر سائنسی حلقوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اس قسم کی چٹانوں میں دو ایسی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو کسی اور چٹانوں میں نہیں ہوتی نفوذ پذیری (Permeability) یعنی منسلک مساموں والی چٹانیں اور غیر نفوذ پذیری (Non-Permeability) یعنی غیر منسلک مساموں والی چٹان۔ یہ دونوں خصوصیات ابتداء سے لے کر آخرتک گراں قدر سیال( تیل، گیس اور پانی) کی مرکوزیت کے لئے اہم ترین ہے۔ ان دونوں کا مشاہدہ بہتے ہوئے پانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
چونکہ تیل، گیس اور پانی زیرِ زمین اتھلے گہرائی میں تخلیق پاتی ہیں اور زیرِ زمین ایسی کوئی جگہ نہیں ہوتی جہاں سے تیل، گیس یا پانی اس طرح سے گزر ے جیسے سطح زمین کے اوپر سے دریا گذرتا ہے سوائے ان علاقوں میں جہاں زیرِ زمین نفوذ پذیر چٹانیں موجود ہوں، کیوں کہ ان کے درمیان منسلک مسام موجود ہوتے ہیں جو ترسیل کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ایک چھوٹے سے کھلے ہوئے پائپ کو ریت سے پُر کردیا جائے اور اس کے نیچے سطح پر اسکرین لگادیں اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس کے اوپر پانی ڈالیں تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری ریت گیلی ہوجائیگی اور پھر پانی قطرہ قطرہ کر کے پائپ کے نیچے سے ٹپکنے لگتا ہے اور ریت کے حجم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
گویا پانی ریت میں کسی ایک مرکز پر جمع ہونے کے بجائے ریت کے پورے جسم میں پھیلتا چلاجاتا ہے۔ اس طرح پوری ریت حجم میں اضافہ کئے بغیر گیلی ہوجاتی ہے، جس کی وجہ ریت کے ذرّوں کے درمیان منسلک مسام باہمی ربط میں ہوتے ہیں اور سیال کو سفر کرنے کے لئے ایک گذرگاہ مہیّا ہوجاتا ہے۔ یہ دراصل چٹانوں کی ’’مائع ایصالیت‘‘ ہوتی ہے۔
گویا کسی مائع یا گیس کی ٹھوس مسام دار جسم سے بہنے کی صلاحیت یا شرح کو ’’نفوذ پذیری‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر چھوٹے سے کھلے برتن میں ’’کلے‘‘ یا چکنی مٹی یا عام زندگی میں استعمال ہونے والے گندم کے سفوف کو لیکر وقفے وقفے سے پانی ڈالیں تو یہ دونوں اشیاء پانی کو پورے جسم میں نکاس نہیں کرسکتے۔
بلکہ اپنے اندر ایک مرکز پر جذب کر کے سفر کرنے سے روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے حجم میں اضافہ ہو جاتا ہے جو اس بات کا عین ثبوت ہے کہ پانی جسم میں سفر نہیں کرسکتا۔ ٹھیک اسی طرح ان رسوبی چٹانوں میں جن میں خلاء یا مسام موجود تو ہوتے ہیں لیکن وہ آپس میں منسلک نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے مائع کی ترسیل رُک جاتی ہے۔
مثلاً رسوبی چٹان ’’شیل‘‘ یہ خصوصیت ’’غیر نفوذ پذیری‘‘ کہلاتی ہے جو رسوبی چٹان میں موجود غیر منسلک مساموں کی فیصد مقدار اور کل چٹان کے مجموعی حجم اور اس میں پائی جانے والی مجموعی مساموں کے درمیان نسبت (Ratio) ہوتی ہے۔ جب کہ غیر نفوذ پذیری یا مسام داری کی فیصد مقدار برابر ہوتی ہے۔
پیٹرولیم یعنی زیرِ زمین تیل و گیس کی ابتدائی تخلیق کے حوالے سے ایسی رسوبی چٹان کو ’’ماخذ چٹان‘‘ (Source Rock) جبکہ زیرِ زمین پانی کے نقطۂ نظر سے ’’ایکو کلوڈ‘‘( Aquiclude) کہتے ہیں۔ ایک معیاری نفوذ پذیر رسوبی چٹانوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر مائع کی روانی زیادہ ہو اورمنسلک مساموں کی تعداد 50- 30فی صد ہونی چاہیے۔ مثلاً رسوبی چٹان کانگلو میرٹ (دائرہ تانیم دائرہ رسوب) اور ریت پتھرجب کہ غیر نفوذ پذیر چٹان میں مساداری (Prosity) یعنی غیر منسلک مسام (20-0 ) فی صدہوتی ہے۔
مثلاً شیل (Shale) اس میں سیال جمع تو ہوتے ہیں لیکن ان کے بہاؤ کی شرح بہت کم ہوتی ہے البتہ دراز، جوڑ، بیڈنگ پلین اور شگاف کے ذریعہ بہاؤ عمل میں آسکتا ہے۔ پیٹرولیم یازیرِ زمین پانی کی کھدائی کے دوران نفوذ پذیری اور غیر نفوذ پذیری پر اثر انداز ہونے والے عوامل سے پوری طرح واقفیت ہونا ضروری ہے، کیوں کہ انہی عوامل کی وجہ سے سیال معیاری یا غیر معیاری ہوتا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک چٹان مسام دار (غیر نفوذ پذیر) تو ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ نفوذ پذیر بھی ہو ،مگر یہ ضروری ہے کہ ایک نفوذ پذیر چٹان مسام دار ہوگی۔ لیکن ان خصوصیات پر منفی اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے مساموں کی فی صد مقدار میں کمی ہوجاتی ہے جو پیٹرولیم اور پانی کی ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے غیر معیاری بنادیتا ہے۔
مثلاً ذرّات کی یکساں جسامت چٹان کی نفوذ پذیری پر بہت کم اثرات پیدا کرتے ہیں لیکن رسوب کی مختلف جسامت چٹان کی نفوذ پذیری پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، کیوں کہ بڑے ذرّات کے درمیان چھوٹے ذرّات شامل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان موجود خلاء یا مسام کم ہوجاتے ہیں۔
مثلاً اگر گریول (Gravel) یعنی دائرہ تا نیم دائرہ نما رسوب اور ریت کو باہم ایک کردیا جائے تو نفوذ پذیری بہت کم ہوجاتی ہے، کیوں کہ بڑے ٹکڑوں کے درمیان ریت کے چھوٹے ذرّات سماجاتے ہیں لیکن اگر ’’مڈ‘‘ (Mud) اور سلٹ(بہت ہی باریک ریت) کو ملادیا جائے تو ان کی جسامت میں بہت کم فرق ہونے کی وجہ سے نفوذ پذیری نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ذخیرہ اندوز چٹانوں کا موازنہ کیا جائے تو ان چٹانوں میں افرادی مساموں کی جسامت اور ان کی ترتیب میں فرق پایا جاتا ہے۔
جسے ابتدائی تفرق کہتے ہیں جسے چٹانوں کی تہہ نشینی کا ماحول، ذرّات کی جسامت میں یکسانیت کا تناسب اور چٹان مواد جیسے عوامل کنٹرول کرتے ہیں۔ دوسری طرف زیرِ زمین چہار طرفہ دباؤ (Confiring Stress) کے توسط سے پیدا ہونے والی زمینی حرکات اور بالائی جانب موجود چٹانی تہوں کے وزن سے پیدا ہونے والی کیفیت بھی اثر انداز ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے رسوبی ذرّات ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں اور مسامداری (غیر منسلک ذرّات) اور نفوذ پذیری (منسلک ذرّات) کی فی صد مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے گہرائی میں جائیں گے رسوبی چٹانوں کی مسامداری اور نفوذ پذیری میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے،جس کی وجہ سے ان موجود بنیادی خلاء تقریباً ناپید ہوجاتا ہے جو اپنے جسم کے اطراف پیٹرولیم کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے یہ چٹانیں غیر معیاری ہوجاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ کے شہر بدین کے گاؤں’’ خاصخیلی‘‘ میں جو تیل، گیس دریافت ہوا ہے وہ فارمیشن کے حوالے سے ’’گوروفارمیشن‘‘ (Guro Formation) اور ذخیرہ اندوز چٹان بھربھرا ریت ہے جب کہ اپنی ارضی عمر کے لحاظ سے ’’کریٹیسیش‘‘ (Cretaceous)شمار کی جاتی ہے۔ ایسی ریت پتھر تین افقی تہوں پر مشتمل ہے۔ سب سے بالائی زون کے ریت پتھر میں بھاری مقدار میں تیل کی دریافت عمل میں آئی ہے جب کہ اسی چٹان کی سب سے نچلی زون تیل کے حوالے سے خشک کنواںثابت ہواہے۔
حالانکہ چٹان بھربھرا ریت پتھر ہی ہے، جس کی بنیادی وجہ زیرِ زمین دباؤ نے نفوذ پذیر چٹان کو غیر نفوذ کردیا۔ 1980ءسے پہلے اس علاقہ کو گیس بردار علاقہ (Gold Bearing Region) دے کر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ لیکن 1981ء میںاسی نوعیت کی چٹانوں پر خصوصی سیمنار ہونے لگے تو ایک بار پھر بین الاقوامی تیل کمپنیوں کی نظر میں محور اور مرکز بن گیا جس کے نتیجے میں بدین کے علاقوں سے بھاری مقدار میں تیل کی دریافت عمل میں آئی، جس نے نہ صرف سندھ میں تیل و گیس کی دریافت کے حوالے سے ایک نئے باب کا اضافہ کیا بلکہ پوری ریاست کی معیشت کو جلا بخشی جو ہنوز جاری ہے۔