• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیرِ زمین پانی کا ٹیرف کیس: آج ہی تحریری حکم نامہ جاری کرنے کا فیصلہ

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو 

سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ زمین پانی کے ٹیرف سے متعلق نجی کمپنی کی درخواست پر جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس امجد سہتو نے سماعت کی۔

صوبائی وزیر جام خان شورو، ڈی جی فوڈ اتھارٹی مزمل ہالیپوٹہ، سیکریٹری صحت اور دیگر حکام عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے حکومتِ سندھ کے رویے پر حیرت کا اظہار کیا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رقم خرچ کرنے کے کام پہلے کرتے ہیں، ایس این ای بعد میں منظور کرتے ہیں، اسپتال کی عمارت اور آلات پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن ڈاکٹرز اور دیگر عملے کی بھرتی کی ایس این ای منظور نہیں کرتے، ایس این ای منظور نہ ہونے کے باعث اسپتال فعال نہیں ہوتے اور سامان خراب ہو جاتا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ سندھ گورنمنٹ روبوٹ ٹیکنالوجی خریدنے جا رہی ہے، کیا اسے استعمال کر سکے گی؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ حکومت نے سوچ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ روبوٹس چلانے والے، ان کی رپیئرنگ کرنے والی ٹیم ہی موجود نہیں ہے، محکمۂ صحت کا آدھے سے زیادہ بجٹ روبوٹس کی خریداری پر جا رہا ہے، جانے کیوں بیوروکریسی اس میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی، کیا اس کا ضمیر نہیں،  یہاں وہی کام کیے جاتے ہیں جن میں کوئی مفاد ہو۔

جسٹس امجد سہتو نے کہا کہ جو بیورو کریٹ مزاحمت کرتا ہے وہ سیٹ پر نہیں رہتا۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی ایسا شخص گاڑی خریدے جسے ڈرائیونگ نہ آتی ہو اور وہ ڈرائیور بھی نہ رکھے، اس کا کیا مقصد ہے؟

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سر وہ گاڑی چلانے کی خواہش رکھتا ہو گا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ نہیں اس کا مقصد دولت ٹھکانے لگانے کا ہے، 700 ڈائیلسز مشینیں کب سے خرید ہوئی ہیں، لیکن تالے میں بند پڑی ہیں۔

 عدالت نے اپنی آبزرویشن شیئر کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ سندھ میں سب کام ایسے ہی ہو رہے۔

 دورانِ سماعت ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے کہا کہ ہم نے 5 آر او پلانٹس کے نمونے لیے ہیں۔

جسٹس امجد سہتو نے استفسار کیا کہ  آپ نے بھی ان کے متعلق کارروائی کی جو 50 روپے میں عوام کو پانی فراہم کرتے ہیں، 120 روپے کی بوتل والوں کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی۔

سندھ حکومت کے  ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پانی کی ٹیسٹنگ کے لیے 17 لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ان کی ایس این ای کب منظور ہوئی؟ ہم نے 2 سال پہلے سکھر میں اس بارے میں حکم دیا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایس این ای 6 ماہ پہلے ہی منظور ہوئی ہیں، اب واٹر ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ دریائے سندھ کے ہوتے ہوئے ہم زیرِ زمین پانی پی رہے ہیں، دریائے سندھ بھی ڈرینج نالے کی صورت اختیار کر چکا۔

عدالت نے صوبائی وزیر جام خان شورو سے استفسار کیا کہ آپ وزیر ہیں، آپ کو تو ہم نے نہیں بلایا۔

سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ بطور فوڈ اتھارٹی کے چیئرمین ہیں اس لیے پیش ہوئے ہیں۔

جسٹس امجد سہتو نے استفسار کیا کہ آپ دیکھتے ہیں پنجاب میں فوڈ اتھارٹی کتنی فعال ہے، یہاں یہ لوگ بیٹھے ڈیسک توڑ رہے ہیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور استفسار کیا کہ چھوٹے شہروں میں منرل واٹر فروخت ہو رہا ہے اس کا کیا ہے؟ فوڈ اتھارٹی نے ابھی تک کتنی ایف آئی آر درج کروائی ہیں؟ 

سندھ فوڈ اتھارٹی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کروائی ہے، ہم  عدالتوں میں شکایت درج کراتے ہیں۔

عدالتی معاون نے کہا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی سمیت کوئی بھی ادارہ اپنا کام نہیں کر رہا ہے، منرل واٹر اور پینے کے پانی میں فرق ہے۔

جسٹس امجد علی سہتو نے کہا کہ سیکریٹری صحت اپنی تجاویز بتائیں مستقبل میں کیا کرنے جا رہے ہیں؟

جسٹس امجد سہتو نے فوڈ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ بڑی مارکیٹوں میں جائیں، مسالے چیک کریں، فیکٹریوں کا فضلہ، انسانی فضلہ اور ڈرینج وغیرہ دریائے سندھ میں جا رہا ہے۔

صوبائی وزیر جام خان شورو نے بتایا کہ سندھ کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی ہوئی ہے۔

اس پر جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ زیادتی کس نے کی؟ آپ نے خود تسلیم کیا ہے، آپ نے سندھ کے ساتھ خود زیادتی کی، آپ نے خود کہا کہ لیبارٹریز بنائی گئی ہیں ملازمین نہیں رکھے، سیکریٹری صاحب! آپ سرجری کے لیے روبوٹ خرید رہے ہیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے استفسار کیا کہ ڈائیلسز کی کنتی مشین ہیں آپ کے پاس؟

سندھ کے سیکریٹری برائے صحت نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صحیح تعداد موجود نہیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ 600 مشینیں ہیں آپ کے پاس، سندھ حکومت کے پاس ایک بھی تربیت یافتہ بندہ ہے؟ سب کچھ آپ نے ڈاکٹر ادیب رضوی پر چھوڑ دیا ہے، ایک ایک تعلقہ میں ڈائیلیسز مشین ہونی چاہیے۔

عدالت نے سندھ کے سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ سندھ میں کتنی ڈائیلیسز مشینیں ہیں؟ کب خریدی گئیں؟  کتنا عملہ ہے؟ تمام تفصیلات پیش کریں۔

جسٹس امجد علی سہتو نے استفسار کیا کہ زیرِ زمین پانی کیوں لے رہے ہیں، پورے سندھ کا پانی ٹھیک نہیں ہے؟

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ  اگلے 2 برس میں مزید 5 کروڑ افراد متاثر ہوں گے، لوکل ٹاؤن کو اختیار نہیں ہے کسی کو پانی نکالنے کی اجازت دینے کا، آر او پلانٹ میں آرسینک ٹریٹ ہو جاتا ہے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ واٹر بورڈ اور سندھ فوڈ اتھارٹی نجی کمپنی کا وزٹ کر کے پانی کے نمونے چیک کریں،  منرل واٹر کی 800 کمپنیاں ہیں، پوری دنیا میں ایسا نہیں ہے بس سب کو اجازت دی جا رہی ہے۔

عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ تمام فریقین کا مؤقف سن لیا ہے، آج ہی تحریری حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔

’فوڈ اور پانی صوبائی معاملہ ہے‘

بعد ازاں صوبائی وزیر آبپاشی، چیئرمین سندھ فوڈ اتھارٹی جام خان شورو نے عدالت میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ فوڈ اور پانی صوبائی معاملہ ہے، پاکستان بننے سے پہلے کا 1935ء کا قانون دیکھ لیں، اب تک جتنے بھی آئین بنے ہیں سب میں پانی اور خوارک صوبائی معاملہ ہے، سندھ حکومت اس حوالے سے قانون سازی کر سکتی ہے، کی ہے اور عمل بھی کر رہی ہے۔

قومی خبریں سے مزید