گزشتہ دنوں کلکتہ میڈیکل کالج کی 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کے ہولناک واقعے نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جنسی زیادتی کے حالیہ واقعے پر پورے بھارت میں احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں ، ڈاکٹرز اور نرسیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ خاتون ڈاکٹر دن اور رات کی سخت شفٹ کے بعد اسپتال میں خواتین کیلئے آرام کی مخصوص جگہ نہ ہونے کے باعث سیمینار ہال میں سو گئی تھی لیکن اگلی صبح ہال میں پوڈیم کے قریب اُس کی تشدد زدہ لاش ملی ۔ بعد ازاں پوسٹ مارٹم سے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا۔ خاتون کے ساتھ ریپ میں ملوث ایک ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ بھارت میں زیادتی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ 2012ءمیں بھی دہلی میںاجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا جب نصف درجن سے زائد مردوں نے ایک 23 سالہ فزیو تھراپسٹ ٹرینی ڈاکٹر کو بس میں زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد چلتی بس سے پھینک دیاتھا اور وہ سنگاپور کے ایک ہسپتال میں دو ہفتے تک زیر علاج رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئی تھی۔ اِن واقعات کے علاوہ بھارت میں کئی غیر ملکی خواتین کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے جس سے بھارت کو عالمی سطح پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور بھارت کو خواتین کیلئے سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا جارہا ہے۔
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ جس ہفتے بھارت میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ریپ کا واقعہ پیش آیا، اُسی ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کی خبریں میڈیا پر آئیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کے کئی واقعات پیش آئے۔ یہ وہ واقعات تھے جن کی رپورٹ متاثرہ خواتین نے تھانے میں درج کروائی جبکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں جنہیں متاثرہ افراد رپورٹ نہیں کرتے۔ کراچی میں بھی خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور پولیس ان واقعات کی روک تھام میں بے بس نظر آرہی ہے جس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر ایسے قبیح واقعات میں ملوث مجرم گرفتار بھی ہوجاتا ہے تو مجرم کا وکیل عدالت میں متاثرہ خاتون سے فیملی کی موجودگی میں واقعےکے بارے میں ایسے سوالات کرتا ہے جس سے خاتون مزید ہراسانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتی ہے اور تسلی بخش جواب نہیں دے پاتی جس کا فائدہ مجرم کو ملتا ہے اور وہ کیس میں ضمانت ملنے یا بری ہونے کے بعد نئے شکار کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔
افسوس کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بنتے جارہے ہیں جہاںخواتین زندگی میں ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد قبر میں بھی محفوظ نہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایک خاتون کی لاش کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کرنےکے واقعےنے ہر شخص کا دل دہلا دیا ہے۔ واقعہ میں ملوث گرفتار ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ وہ قبرستان میں تازہ قبروں پر نظر رکھتا تھا اور رات گئے یہ گھناؤنا جرم کرتا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملزم کو 8سال قبل بھی اِسی جرم میں قبرستان سے گرفتار کیا گیا تھا مگر عدالتی ضمانت پر اُسے رہا کردیا گیا تھا۔ حالیہ واقعہ نے ہمیںیہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ہم کس قدر پستیوں میں گرتے جارہے ہیں لیکن اگر ان گھناؤنے واقعات میں ملوث مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نہ نمٹا گیا تو یہ واقعات خدانخواستہ شدت اختیار کرجائیں گے۔
پاکستان میں خواتین کی آبروریزی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر 2021 میں عمران خان کے دور حکومت میں ریپ کے مجرمان کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے (نامرد بنانے کے عمل) کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا لیکن عالمی دباؤ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے سزا کو غیر اسلامی قرار دیئے جانے پر بل پر مزید پیشرفت نہ ہوسکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے تدارک کیلئے ایسے سخت قوانین بنائے جائیں جن کی رو سے ایسے جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دیا جائے اور ملوث مجرموں کو فوری عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔