ارشد ندیم آج کیوں ہمارا ہیرو ہے کہ اس نے ایک ہدف مقرر کیا اور اسے حاصل کر لیا۔ اب کروڑوں میں کھیل رہا ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے ایک ہدف کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ آئیے ہم 2040ءکو اپنا ہدف طے کرتے ہیں کہ 2040ءمیں جہاں دنیا ہوگی ہم بھی وہاں ہوں ۔ اس کیلئے کیا کیا مراحل طے کرنا ہوں گے۔ سیاسی پارٹیاں، یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے سب 2040ءکیلئے تیاریاں کریں۔
اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، گلگت میں حکومتیں تو ہیں مگر حکمرانی نہیں ہورہی ہے۔
اپوزیشن تو اپوزیشن والے سارے طریقے ،سارے حربے اختیار کررہی ہے مگر حکومتیں حکومت والا کوئی لہجہ، کوئی طریقہ، کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہیں۔ بلکہ وفاقی حکمران ہوں، پنجاب، سندھ یابلوچستان کے وہ بھی اپوزیشن والی تقریریں۔ وہی بیانات۔ وہی انداز اختیار کررہے ہیں اس لیے تاریخ پوچھتی ہے کہ حکمرانی کون کررہا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس انتہائی حساس اور اہم صوبے کی حکومت ہے۔ وہ بھی وہاں حکمرانی نہیں، وفاق کی اپوزیشن کررہی ہے۔حکمرانی کیا ہوتی ہے، ملک کو آگے لے جانا، انسانی زندگی کی مشکلات آسان کرنا، جن شعبوں میں ملک پیچھے رہ گیا ہے وہاں تیز رفتاری سے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کرکے انسانوں کو آج کی سہولتیں فراہم کرنا۔
اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ملک کے انفرا اسٹرکچر کو ،عوامی سہولتوں کو،ٹرانسپورٹ کو ،علاج معالجے کو روزگار کے مواقع کو ،علم کے حصول کو،ملکی مصنوعات کی مینو فیکچرنگ کو جہاں ہونا چاہئے تھا۔ وہاں نہیں ہے۔ کوئی یہ بھی متعین نہیں کرتا کہ ہم کتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔ کس شعبے میں ہم ترقی یافتہ دنیا کے برابر ہیں۔ کس میں کم پیچھے ہیں۔ کس میں زیادہ،عالمی ادارے اشاریے جاری کرتے ہیں۔ جس کو جو اشاریہ اچھا لگتا ہے۔ وہ اسے لے دوڑتا ہے۔ فکر مندی نہیں ہے کہ اس پسماندگی کو دور کیسے کرنا ہے۔ کیا ضروری نہیں ہے کہ ہم سب مل کر ایک حقیقت نامہ تیار کریں، کس شعبے میں ہم کتنا پیچھے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عوام جو پسماندگی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ وہ اپنی سوچوں کے لحاظ سے بہت آگے ہیں۔ اسمارٹ فون انہیں اکیسویں صدی میں لے آیا ہے۔ وہ حقائق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے لیے وہی آسانیاں چاہتے ہیں۔ جو خوشحال ملکوں میں انٹرنیٹ انہیں دکھاتا ہے۔ مگر ہمارے وسائل پر قابض حکمران انٹرنیٹ پر وہی دیکھتے ہیں جس سے وہ اپنی نا اہلی کا دفاع کرسکیں۔عوام کی بصیرت اور حکمراں طبقے کی مسلسل نا اہلی نے ریاست اور باشندوں کے درمیان فاصلے بڑھادیے ہیں۔ لوگوں کو ریاست کے اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہے۔جمہوری حکمرانی صدارتی نظام کی ہو یا پارلیمانی۔ اس میں سیاسی پارٹیاں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لیکن ہم کئی دہائیوں سے جائزہ لے رہے ہیں، کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک سیاسی پارٹی کی طرح کام نہیں کرتی ہے۔ ان کا ڈھانچہ جمہوری نہیں ہے۔ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں تو انہیں کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ در اصل قبیلے بن گئے ہیں۔ جہاں سرداری خاندان میں ہی منتقل ہوتی ہے۔
40 سال سے باری باری حکومتیں کرنے والوں نے بیسویں صدی کی طرح سوچا کہ اکیسویں صدی کے ایک غیر جاگیردار، غیر سردار لیڈر کو جیل میں ڈال دو تو اس کی پیشقدمی رک جائے گی۔ لیڈروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس لیے دھکیلا جاتا تھا کہ اس کے اپنی پارٹی سے عوام سے رابطے ختم ہوجائیں۔ یہ بیسویں صدی کی سوچ تھی۔ مگر اکیسویں صدی رابطوں کی صدی ہے۔ اس لیڈر کی مقبولیت اور رابطے جیل میں ڈالے جانے کے باوجود پہلے سے زیادہ فعال اور نتیجہ خیز ہورہے ہیں۔
حکمرانی تو یہ ہوتی ہے کہ ہر وزارت عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے طویل المیعاد اہداف متعین کرے۔ عوام کو، ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ اصولاً تو پانچ سالہ منصوبے پارلیمنٹ میں سنجیدگی سے زیر بحث آنے چاہئیں۔ پھر انہیں منظور کیا جائے ۔ اس طرح عوام بھی یہ جان سکتے ہیں کہ حکمران ان کیلئے کیا کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم بار بار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے حکومت مجبوری میں لی ہے۔ یعنی عوام نے انہیں مینڈیٹ نہیں دیا ہے۔ مجبوری میں لی گئی حکومت کیا گل کھلا سکتی ہے۔
یہ آوازیں بھی آتی ہیں کہ سب سیاستدانوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے۔ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اس سے بحران ختم ہوسکتا ہے۔اگر ہمارے سیاستدان جو اس وقت حکومت میں ہیں۔ واقعی ملک سے اور ملک کے عوام سے مخلص ہوتے تو گزشتہ 38 سال سے باری باری ایسے نظریات ایسے اقدامات اختیار کرتے۔ جس سے ملک اس وقت وہیں ہوتا جہاں 2024 میں ہونا چاہئے تھا۔
یہ حکمران طبقہ خاندانی طور پر یقیناً 2024ءبلکہ 2040ءمیں ہے۔ ان کی املاک دولت اور اثاثوں میں 1985ءسے 2024ءتک دیکھ لیں کس رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ ان کا طرز زندگی 2040ءکا ہے۔ عوام یہ سب کچھ دیکھتے اور برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ پہلے یہ ایک دوسرے کو کرپٹ ثابت کرتے۔ پھر مفاہمت کر لیتے تھے۔ اب سیاست میں ایک ایسا عنصر آگیا۔ جو ان کے کلب میں شامل نہیں ہورہا ہے۔ اسلئے عوام نے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ ہر روز ان قدیم حکمرانوں کا گراف نیچے گرتا ہے۔ قدیم میڈیا ان کو سہارا دیتا ہے۔ لیکن قدیم میڈیا کا اپنا گراف گر رہا ہے۔ میں خود محسوس کرتا ہوں کہ اب میرے قارئین بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے عوام اکیسویں صدی میں ہیں۔ یہ ملک کے عین مفاد میں ہے۔ یعنی اکثریت کی سوچ وہ ہے جو اس وقت ہونی چاہئے۔ ان کی رائے مقتدر ہونی چاہئے۔ وہ یقیناً ملک کو وہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے جہاں ہونا چاہئے۔ حکمران طبقے اور عوام میں یہ جو ذہنی فاصلہ ہے۔ کیسے پُر ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی خواہش تو یہ لگتی ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح طالب علم سڑکوں پر آ جائیں۔ وزیر اعظم ملک چھوڑ جائیں۔ پاکستان میں جس طرح کی قومی اور قومیتی ساخت ہے۔ وہاں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ہر قسم کا حکومتی تجربہ ہو چکا ہے۔ گورنر جنرل بھی رہے ہیں، صدارتی نظام، سیکولر مارشل لاء، مذہبی مارشل لاء، روشن خیال فوجی حکومت لیکن ہمارے بیانیوں اور عملی اقدامات میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اپریل 2022سے اب تک اپنے بے حساب ذاتی مسائل تو حل کرچکا ہے، مگر قومی مسائل کو سلجھانے میں بہت پیچھے ہے۔ معیشت، سیاسیات، سماجیات، تہذیب،تمدن، سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ سب ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ کیا ہماری سیاسی پارٹیاں پی ٹی آئی، ن لیگ، پی پی پی ، جمعیت علمائے اسلام اپنے ماہرین سے ایک حقیقت نامہ تیار کرواسکتی ہیں کہ 2040کو اپنا ہدف مقرر کر کے دیکھیں۔ دنیا اور خاص طور پر ہمارا دشمن بھارت کہاں ہو گا۔ ہمیں 16سال بعد جہاں ہونا چاہئے۔ اس کیلئے کیا کیا مراحل طے کرنا ہوں گے۔