ماہ ستمبر پاکستان کیلئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جو ہمیں اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے چھ ستمبر1965ءکو دی جانے والی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مہینہ بانی پاکستان قائد اعظم کی وفات کا بھی ہے،11ستمبر ان کی برسی کا دن ہے۔ افسوس ناک بات یہ کہ آزادی کے77سال بعد بھی ہم ایک قوم نہ بن سکے،ایک حصہ مشرقی پاکستان گنوانے کے باوجود متحد نہ ہوسکے۔سیاسی طور پر ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، معاشی اعتبار سے ہم اس وقت نازک ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں، امن وامان کی صورت حال بد سے بد تر دکھائی دے رہی ہے، ہر طرف انتشار اور افراتفری ہے،ایک سیاسی جماعت اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ملک دشمنی پر اُتری دکھائی دیتی ہے ،بلوچستان کے حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں،پچھلے دنوں وہاں جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ کے پی کے میں بھی صورت حال بہت زیادہ اچھی نہیں،معاشی حب کراچی ،حکومت کی نااہلی کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہورہا ہے،ملک میں بجلی،گیس کا بحران، بے روزگاری اور گرانی کا عذاب فزوں ترہے،ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ صنعتوں کو سہارا دیا جائے، زراعت جدید خطوط پر استوار کی جائے، گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خود روزگار اسکیمیں بروئے کار لائی جائیں۔6 ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے ۔جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر اعلان کے بغیر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے حملے کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ عالمی سطح پر اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاست ،عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ چونڈہ کے سیکٹر کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا،جنگ کے دوران پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اورمقصد نہ تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن ، آواز اور سوچ تھی ،وطن سے محبت کےعنصر اورجذبےنے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی دیوار میں بدل دیا تھا۔مملکت خدادادپاکستان آج ایک بار پھر ان ہی مناظرکی منتظر ہے۔
بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بے مثال شخصیت تھے۔ وہ ایک عظیم قائد، عظیم ماہر، عظیم سیاستدان، ممتاز قانون دان ،مقبول رہنما اورفقید المثال دانشور تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتے تھے، انہوں نے اپنی طلسماتی شخصیت سے ایک منتشر قوم کواکٹھا کیا۔ ایک پرچم تلے جمع کیا، متحد کیا۔ ایک ایسی بکھری ہوئی قوم کوجومدتوں سے اپنا الگ تشخص کھو چکی تھی یکجا کرنا آسان کام نہ تھا مگر انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔قائد اعظم نے مایوس قوم کو ایسی قیادت مہیا کی جو ولولہ انگیز ، پرجوش ، مخلص تھی، جس کی کرشمہ سازیوں نے سب کومسحور کر کے رکھ دیا۔ قائد اعظم دیانت و امانت کا پیکر تھے، حق بات پر ڈٹ جانے والے، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے پکے، سچے سیاست دان تھے۔ انہوں نے سیاست کو وقار عطا کیا، اعتبار عطا کیا، جو کہا وہ کیا، وہ سامراج اور رام راج سے بیک وقت ٹکرائے،قائد اعظم نہایت کفایت شعارتھے ، پائی پائی کا حساب رکھتے، قوم کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔بڑے بڑے دانشوروں ،دانشمندوں اور سیاستدانوں نے ان کی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا۔قائداعظم قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو انہوں نے بطور ٹوکن محض ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ لینا قبول کی۔مگر آج ہمارے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، عوام خودکشی کررہے ہیں، سیاست دان اقتدار میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کیخلاف سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت افواج پاکستان کیخلاف مہم چلارہی ہے۔ ملک کے خلاف بھارت کی جانب سے دہشت گردی جاری ہے۔دہشت گرد پوری قوم، انسانیت اور ترقی کے دشمن ہیں اور سکیورٹی فورسز انہیں ناکام بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔قوم پہلے ہی موجودہ حالات سے پریشان ہے،ہم اندرونی طور پر سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں، بیرونی دبائو کے باعث اپنے توانائی کے بحران کو ایران یا دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر حل نہیں کر پارہے ہیں،ایران نے آئی پی گیس پروجیکٹ کے تحت پائپ لائن کی تعمیر نہ کرنے پر پاکستان کیخلاف اس ماہ ستمبر 2024ء میں فرانسیسی قانون کے تحت پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا نوٹس دیا ہے،اس حوالے سے ملک کے تمام اداروں کو مل کر جن میں حکومت اور اپوزیشن رہنما بھی شامل ہوں پاکستان کے معاشی حل کیلئے غیر ملکی معاہدوں کے حوالے سے کسی دبائو میں آئے بغیر ایک مثبت پالیسی بنانا ہوگی۔امریکا اور اسکے اتحادیوں کو اپنے مسائل اور عوامی مشکلات کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہماری اشرافیہ بیرون ملک سے اپنی رقم پاکستان لائے اوروطن کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ ملک میں اس وقت بارش کا موسم ہے،ہمیں پانی کی قلت کو دور کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے پربھی توجہ دینی چاہئے،تاکہ مستقبل میں آبی مسائل پر قابو پایا جاسکے۔حرف آخریہ کہ پاکستان کے قیام کو قائد اعظم کاسہانا سپنا، مجذوب کی بڑ، دیوانے کا خواب قرار دینے والے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان قائم و دائم ہے اور ان شاء اللہ تاابد پائندہ وتابندہ رہے گا۔